خواب کی سیڑھی پہ
کبھی جو تم مرے خواب میں اترتی ہو
کسی نئے خواب کی طرح
چاندنی کا بدن لئے
جبینِ حسن پہ چاند کی بندیا سجائے
پلکوں پہ ستاروں کی ٹمٹماہٹ لئے
قوس قزح کا دوپٹہ اوڑھ کے
شرمیلی الجھی سلجھی
خوشبؤں کی چمکتی زلفیں
میری آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں ۔
رخساروں پہ عرقِ گلاب کی دمک
وصل کی آس جگاتی ہے
خواب زادے کی پیاس بجھاتی ہے
لمس کی انگلیاں چاٹتی ہیں حرارت۔
اٹھانیں چھو کر
سرخ ہونٹوں پہ ہلکی ہلکی
کھلتی چنچل مسکراہٹ
مری نظروں کی تتلیوں کو
دعوتِ بوسہ دیتی ہے۔
زندگی کتنی خوبصورت لگتی ہے
نیند کی پلکوں پر
فریب کی وادی میں
سلوٹوں کے بستر پہ
خواب کی سیڑھی پہ۔۔۔۔۔!!!!
علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087
ذکر کرتے تو کیا کرتے
نئی سوچوں کے تیور سے مفر کرتے تو کیا کرتے
اُن ہی سے حقِ دوستی کا ذکر کرتے تو کیا کرتے
مری فِطرت کا ایں و آں مجھے مجبور کر بیٹھا
ارادے میرے اس پہ کچھ اثر کرتے تو کیا کرتے
بظاہر کاوشِ مژگاں یہی تھی آپ سے مل لیں
وفورِ وجد میں لیکن سفر کرتے تو کیا کرتے
خطا ہم سے ہوئی سرزد ہمیں احساس ہے اسکا
ندامت سے نگوں ہم سر نہیں کرتے تو کیا کرتے
مجھے پھر بلآخرش کوسا میری ہی لازبانی نے
اَنا ٹھہری اَنا آخر جبر کرتے تو کیا کرتے
دفینہ تیری یادوں کا مگر ہم ساتھ لائے تھے
نثار اِن پہ نہیں دل اور جگر کرتے تو کیا کرتے
خیالِ دوشِ تخیل پہ محوِ پرواز تھے آذرؔ
ہوا کے دوش پہ کارِ دگر کرتے تو کیا کرتے
جہاں کی بھیڑ میں یکسر میں خود محرومِ منزل تھا
کسی سے اپنی آمد کا ذکر کرتے تو کیا کرتے
تلاشِ یار میں خود پہ ستم ڈھائے نہ کیا کیا کچھ
مرے ناکے تیرے دل پہ اثر کرتے تو کیا کرتے
ابھی اس جنس کمتر کی اَنا خوددار ہے لیکن
سمجھ کر اسکو کمتر ہم نذر کرتے تو کیا کرتے
دفینۂ سخن مجھکو ملا آزادؔ و عابد ؔ سے
نہیں اُن کو تصور پھر خضرؔ کرتے تو کیا کرتے
خیال و فکر کو عُشاقؔ نہ گر تشہیر دے عظمیٰؔ
نذر قارئین کے ہم پھر نذر کرتے تو کیا کرتے
عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، حال جموں،موبائل نمبر؛9697524469
نظم
میں نے پوچھا
کہاں سے آئی ہو۔
اُس نے کہا
میلہ دیکھنے گئی تھی۔
میں نے پوچھا
اتنا سارا سامان
کہاں سے لائی ؟
جواب دیا،
میلے سے۔
کیوں؟
میں نے کہا۔
میں بھی تو گئی تھی
میں کچھ بھی نہیں لائی۔
اُس نے کہا کیوں؟
کیا کچھ پسند نہیں آیا۔
میں نے کہا
پسند سب کچھ آیا
مگر میری جیب کالی تھی۔
روحی جان
نوگام سرینگر