دعائے حق
مدینے جانے کی خواہش بڑی ہے
مگر قسمت مری روٹھی ہوئی ہے
سنہری جالیاں دیکھوں گا اک دن
اسی ہی آس میں یہ زندگی ہے
خدا ناراض ہے شاید ہمارا
گناہوں کی سزا جو مل رہی ہے
یقیں ہے ایک دن آقا کی ہم کو
زیارت ہو گی چاہت بولتی ہے
مدینے کے لیے روتا ہوں ہر دم
دعا سن لے مری یہ عاجزی ہے
نظر آقا کے روضے پر رہیگی
مری قسمت میں یہ ممکن گھڑی ہے
کنارے قیس لگ جائے گی کشتی
بُلاوا اُن کا آنے پر چلی ہے
کیسر خان قیسؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
تاریکیوں کے دیو کو سورج نگل گیا
اوڑھے ہوئی تھی رات خود ظلمت کا پیرہن
ممکن نہیں تھا کوئی بھی باہم ہو ہم سُخن
ٹوٹا ہوا تھا آئینہ شکیب و فراز کا
ڈوبے ہوئے تھے رات کی تارکیوں میں تن
بلآخرش پھر سحر کی آہٹ ہوئی نمود
آسیب زدہ رات کا منظر ہوا محدود
پھر سے مدارِ زیست میں کائنات آگئی
لب پہ سحر کی رونقوں کی بات آگئی
کیا کیا پیامِ صبح نے پھر گُل نہ کِھلائے
ہر سمت نُور و نگہت کی برسات آگئی
ہر گوشیۂ حیات پھر باغ و بہار تھا
رودِ رواں کا وجہ میں کیا آبشار تھا
سرسبز و شاداب پھر کشتِ سراب تھی
پھر پیرہن اوڑھے ہوئے ڈالی گلاب تھی
پھر پیڑ تھا کیا دیدنی جُھومر لئے کمال
سبزے کا رنگ و رُوپ اِک حُسنِ کتاب تھی
ہر سمت تھی پھرکائنات حدِ شباب پر
کوئیل کی ڈار نغمہ زن تھی بادِ رَباب پھر
تاریکیوں کے دیو کو سُورج نگل گیا
کیا دفعتاً پھر سوچ کا خاکہ بدل گیا
تارِ نفس کا سلسلہ تھا اعتدال پر
ذہنِ علیل سے خدشۂ جنگ و جدل گیا
دیدے مرے حیات کا حُسن جمال تھا
یہ بھی حبیبِ دو جہاں حدِ کمال تھا
نغموں کی کشش پھر مری فکرِ سخن میں تھی
خستہ تو خُود تھا میں مگر نگاہ چمن میں تھی
مطلق نہ مجھے یاد تھی وہ شب کی بے بسی
آئی حیات پھر پلٹ گویا ذہن میں تھی
زندانِ شب سے کائینات آزاد ہوگئی
نباتات و جمادات پھر سے آباد ہوگئی
رنگ شفق تھا دیدنی پھر آب و تاب پر
محوِ سُخن عُشاقؔ تھا بربط و رباب پر
ہونے لگی پھر چہار سُو سماعت کو نغمگی
تھی آرزوئے زندگی پھر سے شباب پر
کب تک حیات ساتھ دے کُچھ بھی پتہ نہیں
فردا سے کوئی پوچھ لے ہم کو پتہ نہیں
عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
اضطرابِ دل
باتیں جو ہمیشہ میرے خلاف کرتی ہے
میری حسرت اسی کا طواف کرتی ہے
آغوش میں بھرنے کو بیتاب میں رہتا ہوں
میرے اسرار پر منع وہ صاف کرتی ہے
میری شرارتوں پر اسے اعتراض بھی نہیں
سب گستاخیوں كو ہنس کر معاف کرتی ہے
کیسے ہو یقین مجھے اُسکی بے رخی كا بھلا
کب وہ کچھ بھی میرے خلاف کرتی ہے
نظروں کے اشارے سے کرتی ہے وہ باتیں
کچھ اِس طرح وہ میرا اِنصاف کرتی ہے
نظریں ہیں اک معمّہ اُف یہ انداز و لہجہ
ہر ادا اُنکی محبّت کا انکشاف کرتی ہے
نظروں کو پڑھوں یا زباں کی بات مانو ں
دونوں ایک دُوجے کا انحراف کرتی ہے
افتخار دانش
سنگھیہ چوک ، کشن گنج بہار،
موبائل نمبر؛9113436803
میں مر چکا ہوں
آج سے بس کچھ سال پہلے
ایک ماضی اور ایک حال پہلے
میں مر چکا ہوں
زندگی سے، آدمی سے
آدمی کے ہر رواج سے
وقت سے بے وقت میں
کل سے بھی اور آج سے
میں کئی بار ڈر چکا ہوں
ایک ماضی اور ایک حال پہلے
میں مر چکا ہوں
ایک آدمی کی لاش میں
زیست کی ہر تلاش میں
سانس کی روح پھونک کر
ہر قدم نراش کر چکا ہوں
ایک ماضی اور ایک حال پہلے
میں مر چکا ہوں
اب تو بس وہ خاک ہو
لحد کی اک تاک ہو
جس میں ہر ارماں کو
میں پیوست کر چکا ہوں
ایک ماضی اور ایک حال پہلے
میں مر چکا ہوں
شہزادہ فیصل
ڈوگری پورہ پلوامہ
موبائل نمبر؛ 8492838989
دلکش زندگی
چلتے چلتے
بہُت دور چلے آئے
اونچی نیچی راہوں سے
بہُت دور گزر آئے
کچھ خطروں کے لمحے
کچھ سکون کی راہیں
پل پل کچھ پل
بہُت یاد آئے
بچپن کے دن
جوانی کی یادیں
کبھی شہرت ملی
کبھی مایوسی آئی
اے زندگی
ہر لمحے
تو دلکش نظر آئی
تو دلکش نظر آئی
جسپال کور
نئی دلی،
موبائل نمبر؛9891861497