تم ندی ہو
تم ندی ہو
برف پوش پہاڑوں سے اترتی
الہڑ، ہنستی کھیلتی
بل کھاتی گزرتی ہو
مرے وجود کے ریگستان کے بیچ سے
سہلاتی ہو
مرے تپتے کناروں کو
چوس لیتے ہیں تری نمی
مرے تن کے سوکھے پیاسے زرے
میری تھکن ،میرا تھکا پڑا سفر ڈھوتی رہتی ہو۔۔۔شام تلک۔۔۔ ۔!!
شام ڈھلے جب تم گنگناتی ہو
تری موجوں کے تار چھیڑتے ہیں
نرم ہوا کے صحرائی جھونکے
میں آنکھیں موند لیتا ہوں
سو جاتا ہوں آسماں کی نیلی چادر تلے
چاند کے خیمے میں
چاندنی کے بستر پہ
چھیڑتا ہوں خوابوں کے خانہ بدوش
گھوڑوں کی گھنٹیاں
خواب کی پلکوں پہ
تری روانی سے بُنتا ہوں
تری ہمشکل اک رواں دواں نظم۔۔ ۔۔۔۔!
تم ندی ہو
مرے برف پوش پہاڑوں سے اترتی ہوئی
مرے ریگزار بدن پہ
نظم بن کے گزرتی رہو۔۔۔۔۔۔!!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، موبائل نمبر؛9419045087
قدرت کی مار
جب تک شباب تھا عُشاقؔ تھے نامداد ہم
پیری کے سبب ہوگئے اب بے وقار ہم
اپنے ہی گھر میں اپنوں کی آنکھیں بدل گئیں
ہوتے تھے ان کے درمیاں کبھی باوقار ہم
کہتی ہے نصفِ بہتر ہی مرتے بھی نہیں ہو
یہ سُن کے اماں ہوتے ہیں اب اشک بار ہم
اعضائے جسم سب کے سب بے حال ہوگئے
کرتے ہیں یاد ماضی کو اب بار بار ہم
کِھلتے کبھی جبیں پہ تھے گُل ہائے رنگا رنگ
اب ہوچکے ہیں غالباً بُجھتا انگار ہم
ہوتی ہے بُوئے سانس میں آمیز تجلی
سہتے ہیں اِسے جان کر قدرت کی مار ہم
آتی ہے صدا گر کبھی روزن سے ہوا کی
دیوانہ وار اسکو پھر لیتے پکار ہم
دیتے دلاسا ہیں کبھی سائے اُمید کے
ہیں دیکھتے پھر ان کے ہی لیل و نہار ہم
لمحات بسر ہوتے ہیں شب کے حراس میں
کرتے ہیں صبحِ نور کا پھر انتظار ہم
درونِ جان، قلب و جگر محوِفغاں ہیں
سُنتے ہیں انکی شوق سے چیخ و پکار ہم
گُھلتے ہیں ابھی دید میں یادوں کے دفینے
اپنے کئے یہ آج تک ہیں شرمسار ہم
جب خود مزاجِ باد ہی فرسودہ طبع ہو
کہتے ہیں اسے بے وجہ کیوں غمگسار ہم
قرطاس و قلم کے معجزے اب خواب ہوگئے
چھپتے تھے ہندؔوپاکؔ میں کبھی بار بار ہم
کہتے ہیں مجھ سے اہلِ طب اکثر عُشاقؔ اب
کب تک کرینگے معالجہ تیرا بار بار ہم
نذرانۂ عقیدت
استاذ گرامی جناب شوکت محمود شوکت
’’ اے معلم ، اے مدرس ! مہر پیکر ،السلام‘‘
آپ کا درجہ ہے اونچا اور ہے اعلیٰ مقام
کتنے ہی ہیرے، جواہر اور تراشے کوہ نور
آپ درس آگہی دیتے ہیں یوں ہی صبح و شام
ہیں امینِ علم و حکمت قوم کے معمار آپ
آپ کی چشم کرم سے ہو گئے کامل ،تمام
بیر رکھنے والے تو محروم ہیں اخلاص سے
آپ کی تعلیم تو ہے صرف الفت کا پیام
آپ تو بس درس دیتے ہیں وفا کے نام پر
نفرتوں سے بالا تر ہے ،آپ کا سارا کلام
آپ سے ہوتے ہیں سارے لوگ ہر پل مستفید
سچ کہوں تو آپ کی تدریس کا ہے فیض عام
بالمقابل باپ ماں کے ،فوقیت ہے آپ کی
آپ ہی کے درس سے انجمؔ ہوئی ہے شاد کام
فریدہ انجم
پٹنہ سٹی، بہار