قطعات
زمانہ تیز رَو ہے راہ گُزر تیرا بھی میرا بھی
کسی نے مُڑ کے نا دیکھا اَثر تیرا بھی میرا بھی
درد مندی سے پھولوں کی ہوتی تھی جب حنا بندی
ہوا تھا صَرف بس خونِ جگر تیرا بھی میرا بھی
رہنے دے ابھی پاس یہ یادوں کے اُجالے
یادو کی ہم دوچار باتیں اور کریں گے
دوچار موتی اور اِن نینوں کی بہالیں
دوچار دِن ہم اور جی کے اور مریں گے
دردِ دِل کی داستاں میں پُھول بھی کھلتے رہے
کچھ دِیئے جلتے رہے تو کچھ دِیئے بُجھتے رہے
آرزُئوں کی بلندی جب گگن کو چُھو گئی
حسرتوں کے دیس میں گِر گِر کے سنبھلتے رہے
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
قطعات
آ رہی ہے زندگی کی اب سمجھ اچھی طرح
کھیل کا میدان ہے موسم بھی ان کا یار ہے
بھیڑ ہے بازی گروں کی سب کھڑے ہیں فرد میں
سب خوشی سے کھیلتے ہیں نام بازی پیار ہے
مروّت کی ہے آتی مہک بردہ کہاں ہے
مجھے بھی دیکھنا ہے یہ تابندہ کہاں ہے
کہاں سے لائی ہے روشنی قوّت کہاں سے
نہیں تو آج کل دنیا میں دِیدہ کہاں ہے
نمک کا نام مٹ گیا ہے اب زباں کے لفظوں سے
ضروری اب نہیں نمک کو دور رکھنا زخموں سے
یہاں تو ایسے لوگوں نے بھی شاداںؔ اب جنم لیا
کہ جو نمک کا کام کر رہے ہیں پر زبانوں سے
شاداںؔ رفیق
اُوڑی بارہمولہ کشمیر
[email protected]
میں اک مسافر
تیرے سوا کس کو معلوم ہے
مصلح ہے تو ہی میرا
تجھ کو معلوم ہے میرے
دل میں دعا کیا کیا ہے
تجھ کو معلوم ہے میرے
درد دل کی دوا ہے کیا کیا
میرے ارادوں کو تو ہی جانتا
ہر اک قدم پہ ہے تیرا فیصلہ
میں مسافر ہوں بس تیرے ہی در کا
آزمانا پھر ڈھونڈنا بہانہ تیرا کام ہے
میں اک مسافر ۔۔۔۔۔
میں تجھ سے کوسوں دور ہوں
تمہیں میری فکر ہے
میں غافل ہوں گناہوں کی
کثرت سے دل کالا ہے میرا
دنیا نے مست و مغرور کیا ہے
تمہیں تو معلوم ہے ۔۔۔۔
دن میرا رات مری کیسی گزرتی
پھر بھی تو نے پابندی عائد نہیں کی
ساری خوشیاں رقص کررہی ہے
سامنے میرے ۔۔۔
اور تیرا منتظر رہنا سعادت نہ سمجھا
میں کسی اور کا منتظر تھا۔۔۔۔
اور میں اک مسافر ہوں
وقت پر سمجھا نہیں
اک دن آئیگا اور آواز آئے گی ۔
اے مسافر چل ۔۔۔۔۔
جانے کو کون تیار ہے
میں نے گھاٹے کا سودا کیا ہے
ہاتھ میرے خالی ہونگے
اور میں اک مسافر
پھر وقت آخر کا
دیکھ کر یہ عالم
میری ہر اک نظر پھر سے تیری رحمت پر
بس کرنا مسافر کو
در گزر ۔۔در گزر ۔۔۔درگزر
سبدر شبیر
موبائل نمبر؛9797008660
ردِعمل
تمھیں معلوم ہی شاید نہیں یہ
پیالہ زہر کا مجھکو پلا کر
مرے سچ کوامر تم نے کیا ہے
صلیب و دار پر مجھکو سجا کر
بلندی بھی عطا کی ہے تمہیں نے
کیا جب سے سپردِ خاک تم نے
گلوں کی شاخ پر کھلنے لگا ہوں
اُترا تھا جہاں تن سے مرا سر
وہاں پر آج بھی اہلِ وفا کے
ہزارو سال سے لگتے ہیں میلے
جہاں تم نے زباں کاٹی تھی میری
بہت بےباک لہجے میں وہاں پر
چلن اب ہو گیا ہے گفتگو کا
جہاں آنکھیں مری بے نور کی تھیں
ہوئے اہلِ نظر پیدا وہاں پر
مرے بازو اکھاڑے تھے جہاں پر
وہاں اب پربتوں کے سلسلے ہیں
خدا کا شکر ہے تحفے کی صورت
تمہاری ضد کے صدقے در حقیقت
مجھے جینے کا موقع مل گیا ہے
مصداقؔ اعظمی
اعظم گڑھ ،یوپی،موبائل نمبر؛9451431700