عالمِ تصورات میں
اب فضائے جائےآذرؔ ہوگی عُشاقؔ خوشگوار
بعدِ سرما موسمِ گُل کی وہاں ہوگی بہار
تہہ و بالا پھر لباسِ نو میں ہوگا زیبِ تن
قابلِ دیدار ہونگے پھر نشاط و شالیمار
بہرِ سجدہ خم بہ خم ہونگے بدن اشجار کے
چُومنے کو آپ سبزہ ہوگا اِن کو بے قرار
اِک نئے انداز میں ہونگے وہاں کے باغ و بُن
اس پہ طرہ سبزرو ہونگے وہاں کے کوہسار
یہ جہانِ کشتِ کشپؔ کا نظارا دیکھ کر
کِھل اُٹھا ہوگا یقیناً رُخِ حبّہؔ کا نکھار
ظلمتِ شب کا کہیں ہوگا نہ منظر پیشِ دید
مہر کی کرنوں کا جاری ہوگا پھر بوس و کنار
قابلِ توصیف ہوگا شوخ کلیوں کا شباب
چشمِ عُشاقؔ دید کو رہتی ہے جنکی بے قرار
ہوگئی ہوگی اذانِ مُرغ سے بیدار خلق
بج اُٹھے ہونگے کہیں پہ سازِ ناقوس کے بھی تار
شیخ و براہمن یک قلب دوجان پھر صورت لئے
اپنے داتا سے یہ کہتے ہونگے اکثر بار بار
کر نہیں پائے ابھی تک ہم تمیزِ نیک و بد
اب مفہومِ خیر و شر سے کرلے ہم کو آشکار
پھر حمالِ وقت باندھے گا کمر دستور سے
جاگ اُٹھے ہونگے دہقاں دیکھ کر موسمِ بہار
کاش ہوتا قابلِ رفتار اپنا تن و توش
دیکھنے کشمیر جاتے ہم بھی عُشاقؔ ایک بار
عُشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469
روٹی
یوں تو لگتی ہے بے زباں روٹی
خوب لیتی ہے امتحان روٹی
دور رہتی ہے یہ غریبوں سے
ہے امیروں پہ مہرباں روٹی
اوج پر ہو جہاں جہاں غربت
سب پکاریں ، وہاں وہاں روٹی
جن کے گھر میں اندھیرے رہتے ہیں
ہے میسر انہیں کہاں روٹی
کانپ اٹھتی ہوں گر تصور میں
آئے میرے جو ناگہاں روٹی
اس کی عزت ہمیں پہ لازم ہے
ہم کو چاہے ، ملے جہاں روٹی
کوئی انجم سے یہ ذرا کہہ دے
سب کی قسمت میں ہے کہاں روٹی
فریدہ انجم
پٹنہ سٹی ، بہار