سید آصف رضا (ناربل)
پچھلی چودہ صدیوں سے ماہِ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ جاتی ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اُس قربانی کو یاد کرتی ہے جو نواسۂ رسولﷺ حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین علیہ السلام نے اپنے بہتر ساتھیوں کے ساتھ کربلا میں پیش کی۔ جن مصائب کا سامنا اہل بیت اطہارؑ کی مقدس شخصیات اور ان کی عفت مآب بیٹیوں کو کرنا پڑا ان کا ذکر ہوتے ہی کلیجہ چھلنی ہوتا ہے اور انسان خون کے آنسو روتا ہے۔ سلیم الفطرت انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کیا انسان مال و زر اور سرداری و حکومت کے حصول کے لئے اتنا گر جاتا ہے کہ اس کے اندر اچھائی برائی اور ایمان بے ایمانی کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے!داستانِ کربلا نگاہوں کے سامنے آتے ہی اہلِ ایمان کے دل مضطرب ہوتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو چھلکتے ہیں ………پیاسے معصوم علی اصغرعلیہ السلام کی بے دردانہ شہادت ہویانوجوان علی اکبر علیہ السلام کی بے مثال شجاعت کے بعد شہادت ہو، حضرت عباس علمدار علیہ السلام کی وفاداری ہو یا حضرت زینب الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی بہادری ، مظلوموں کے جلتے ہوئے خیموں کا منظر ہو یا کاشانۂ نبوت کی بیٹیوں کی پکار ہو، غرض یہ ظلم کی داستان درد ناک ہے….!!
نبی محترمﷺ نے اس خونچکاں داستانِ کرب و بلا کی خبر اس طرح دی ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حسن اور حسین علیہما السلام دونوں میرے گھر میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرئیل امین ؈خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! بے شک آپ ﷺ کی امت میں سے ایک جماعت آپ ﷺ کے اس بیٹے حسین علیہ السلام کو آپ ﷺ کے بعد قتل کردے گی اور آپ کو (وہاں کی تھوڑی سی) مٹی دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا اور روئے پھر فرمایا: یا ام سلمه اذا تحولت هٰذه التربة دما فاعلمی ان ابنی قد قتل. فجعلتها ام سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر الیها کل یوم وتقول ان یوما تحولین دما لیوم عظیم۔ ”اے ام سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا۔ ام سلمہ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔‘‘ (الخصائص الکبریٰ، 2: 125۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 3: 108)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں:
’’یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو کہ حضور اکرم ﷺ کو اپنی سب ازواج میں سے زیادہ محبوب تھیں ان کو مٹی عطا نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی اور زوجہ مطہرہ کے سپرد فرمائی بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے حوالے فرمائی اور فرمایا کہ اے ام سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو یہ سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی نگاہِ نبوت سے یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی شہادت کے وقت ازواجِ مطہرات میں صرف ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی زندہ ہوں گی۔ چنانچہ جب واقعہ کربلا ظہور پذیر ہوا اس وقت صرف ام سلمہؓ ہی زندہ تھیں، حضور اکرم ﷺ کی باقی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن وفات پا چکی تھیں‘‘۔(فلسفۂ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ، صفحہ 51)
عظیم قربانی کیوں؟
یہ عظیم قربانی اقتدار کے حصول کے لئے نہیں تھی، جیسا کہ کچھ نام نہاد دانشور باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر اقتدار کی جنگ ہوتی تو امام عالی مقام علیہ السلام کے قافلے کے میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے!
ڈاکٹر فیض احمد چشتی لکھتے ہیں:۔ ’’آج کل کے یزیدی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ تھی آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو تعصب کی عینک اتار کر حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں : عام نظریہ یہ ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین رضی ﷲ عنہ اور یزیدیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی جنگ ہی نہیں تھی کیونکہ جنگ کے لئے جس طرح کی سروسامانی ، قوت و طاقت اور فوج کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ ایک طرف تو تھی مگر امام حسین رضی اﷲ عنہ کی طرف ان کے اہل وعیال کے علاوہ چند وفا پیشہ جاں نثار رفقاء تھے ، کیا کوئی شوق میں اپنی اہل وعیال کو قتل کے بھینٹ چڑھانا گوارا کرے گا ؟ در اصل کربلا کی تاریخ کا پورا پس منظر اس محور پر گردش کررہا ہے کہ دور یزید میں ایک ناقابل درست نظریہ (یعنی بیعت یزید) کو امام حسین رضی ﷲ عنہ پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور امام نے اس نظریہ کا سختی سے انکار کیا اور ہر موقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کربلا کے حادثے کو فکر و نظر کی جنگ کا نتیجہ تو کہا جاسکتا ہے مگر اسے حقیقی جنگ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ چنانچہ جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے دور امارت میں والی مدینہ مروان بن حکم کو اہل مدینہ سے یزید کی ولی عہد کی بیعت لینے کا حکم دیا تو امام حسین ، عبد ﷲ بن زبیر ، عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہم نے یزید کی ولی عہدی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ اس موقع پر عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ نے مروان کو ایسا کرارا جواب دیا کہ بھاگ دوڑ تک نوبت پہنچ چکی تھی‘‘ ۔ (البدایۃ والنہایۃ، لابن کثیر)
امام عالی مقام علیہ السلام اشراف بصرہ کے نام ایک خط لکھتے ہیں ، جس کا مضمون یہ تھا:
’’آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائے جارہے ہیں، میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرو اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لئے کوشش کرو‘‘۔ (تاریخ الکامل، ابن اثیر)
امام عالی مقام علیہ السلام جب کربلا کی طرف عازمِ سفر ہوئے تو راستہ میں فرزدق شاعر (وفات 110ھ) سے ملاقات ہوئی جو عراق کی طرف سے آ رہا تھا۔ حضرت حسین علیہ السلام نے اہلِ عراق و کوفہ کے متعلق سوال کیا۔ اُس نے جواب دیا: ”اہلِ عراق کے قلوب تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں‘‘۔
حضرت حسین علیہ السلام نے جوابًا فرمایا:۔’’اللہ ہی کے ہاتھ ہیں تمام کام وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمارا رب ہر روز نئی شان میں ہے۔ اگر تقدیر الٰہی ہماری مراد کے موافق ہوئی تو ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کریں گے اور ہم شکر کرنے میں بھی اسی کی اعانت طلب کرتے ہیں کہ ادائے شکر کی توفیق دے۔ اور اگر تقدیر الٰہی ہماری مراد میں حائل ہوگئی تو وہ شخص خطا پر نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خوف خدا ہو ‘‘۔ (تاریخ الکامل، ابن اثیر)
حضرت حسین علیہ السلام ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے لوگو! رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہو، اللہ کے عہد کو توڑتا ہو، رسول ﷺ کی سنتوں کی خلاف ورزی کرتا ہو، بندگانِ خدا کے ساتھ ظلم و سرکشی کے ساتھ پیش آتا ہو اور پھر عملی یا زبانی طور پر یہ شخص ایسے حاکم پر اعتراض نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اسی ظالم بادشاہ کے ساتھ اسی کے مقام (دوزخ) میں پہنچا دے۔ اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یزید اور اس کے امراء و حکام نے شیطان کی پیروی کو اختیار کر رکھا ہے، اور رحمٰن کی اطاعت کو چھوڑ بیٹھے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلا دیا، حدود الٰہیہ کو معطل کر دیا، اسلامی بیت المال کو اپنی ملک سمجھ لیا، اللہ کے حرام کو حلال کر ڈالا اور حلال کو حرام ٹھہرا دیا‘‘۔
یہ قربانی قرآن مقدّس و سنّتِ رسولﷺ کی بقاء اور تحفظ کے لئے تھی اور اُس نظامِ حق کو باطل نظریات سے حفاظت کے لئے دی گئی جس کو آقا کریم حضور نبی اکرم ﷺ نے قائم فرمایااور خلفاءِ راشدینؓ نے امانت سمجھ کرجس کی حفاظت کی ۔ فاسق و فاجر یزید نے اسی’’نظامِ حق‘‘پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے فسق و فجور اور باطل خیالات کو حق کے پردے میں پھیلائے۔ وہ اپنے باطل قبضہ اور باطل نظریات کی توثیق سربرآوردہ لوگوں سے چاہتا تھا۔ اُس کو ڈر تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کےتربیت یافتہ صحابہؓ کبھی بھی اُس کی باطل حکومت تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ حضرت سیدنا امام حسینؑ کو سمجھتا تھا۔سیدنا حسینؑ کا مشن اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے نانا جان ﷺ کے قائم کردہ نظامِ حق کی حفاظت کرنا ہے۔ آپؑ نے اپنی اور اپنے 72 ساتھیوں کی قربانیوں سے دینِ حق کو بچایا ہے کیوں کہ آپ؈ نے شہادت کو قبول فرمایا لیکن یزید پلید کی بیعت سے صاف انکار فرمایا۔
شاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ دین پناہ است حسینؑ
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لااِلٰہ است حسینؑ