اس دورِ جدید میںکسی بھی قوم کی ترقی کے لئے حصول تعلیم انتہائی ضروری ہے، جس قوم نے تعلیم سے انحراف کیا وہ ترقی سے محروم رہی،اور اُس کی زندگی کی کوئی وقعت ہی نہیں رہی ہے۔گویا انسانی زندگی کی بقاء کے لئے جس طرح غذا کی بڑی اہمیت ہے، اُسی طرح تعلیم کا حصول انسان کے لئےافادیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کے دور میں تعلیم کے بغیر کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی کا نفاذ اور تعمیری ،سیاسی و سماجی تبدیلی صرف تعلیم سے ہی ممکن ہےاور اس معاملے میں کوتاہ اندیشی جہالت کی دلیل ہے۔ اپنی اس وادیٔ کشمیر پر نظرڈالی جائےتو یہاں کے نظام تعلیم میں پائی جارہی بے راہ روی ،بد نظمی اور کوتاہ اندیشی انتہائی افسوس ناک ہے۔نظام تعلیم کو سُدھارنےاور معیار ِ تعلیم کو بڑھانے کے جتنے بھی ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں،وہ تواتر کے ساتھ کھوکھلے ثابت ہورہے ہیںاور مجموعی طور پر حکامِ تعلیم کی پالیسیاں اور تدریسی عملے کی کارکردگیاں مایوس کُن دکھائی دے رہی ہیں۔نصاب میں تبدیلی اور مروجہ قواعد و ضوابط میں یکسوئی نظر نہیں آرہی ہے۔اسکولی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ بند طریقہ ہر سُو دکھائی نہیں دیتا ہے۔دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر ،نصابی کتب اور اساتذہ کی کمی کا سلسلہ عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہےاور مقامی سرکاری زبان اردو کے تدریسی عمل میںکوئی بہتری اور موثر سرگرمی نہیں لائی جارہی ہے۔حسب روایت امسال بھی بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کامشن مثبت اور معاون طریقےپر نہیں چل پایا ہے۔ اس سال بھی تعلیمی سال کے دو ڈھائی ماہ گذرنے کے بعد ہی پرائمری کلاسز کے لئے بورڈ نصاف کی کتابیںبچوں کو دستیاب ہوپائیں، جس کے نتیجے میں زیر تعلیم اسکولی بچوں کا کافی وقت بُرباد کیا گیا ہے۔ایسا کیوں ہوا؟ اس پر نہ تو یہاں کی سرکار اور نہ ہی تعلیمی حکام نے کوئی واضح دلیل پیش کرنے کی کوئی زحمت گوارا نہیں کی اور معاملہ گول کردیا گیا۔ اسی طرح کی پالیسیوں اور کوتاہ اندیشیوں کے نتیجے میںہمارے یہاں کےسکولوں اور کالجوں کی کارکردگی غیر اطمینان بخش رہتی ہے اور تعلیم کا معیار بلند نہیںہوتا ہے۔اب اگر یہاں کےپرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریںتو اُن کی ہر بات محض تجارتی بنیادوں پر ہی چل رہی ہے۔سرکاری سکولوں کے مقابلے میں اگرچہ ان میںتعلیم کا معیار کسی حد تک قابل ِ اعتبار قرار دیا جاسکتا ہے لیکن دیگر کئی معاملات میںان کی کارکردگی ناہنجاری ہے۔جن سے نہ صرف تعلیم کی وقعت اور معیارضائع ہورہا ہے بلکہ زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے اخلاقی اقدار زوال پذیر ہورہے ہیں۔نیز ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تدریسی معاملے میںلوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے،من چاہے پروگرامز کے تحت مختلف فنڈز کے نام پر زیر تعلیم بچوں کے والدین سے اچھی خاصی رقمیں اینٹھ لئے جاتے ہیں اور نام نہاد چارجز کے تحت روپئے بٹورے جاتے ہیں۔سالانہ فیسوں میں اضافےکئے جاتے ہیں، کتابوں ،اسٹیشنری اور یونیفارم کے نام پر بھی اپنا کمیشن حاصل کیا جارہاہے۔اسی طرح ایڈمیشن دینے اور ڈسچارچ لینے پر بھی نام نہاد فنڈس اور فرضی لوازمات کے تحت اچھی خاصی رقومات حاصل کی جارہی ہیں۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلی ایک دہائی قبل یہاں کے حکمرانوں کی طرف سےجن پرائمری سکولوں کوہائی سکول اورہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا گیا تھا ،اُن میں ابھی تک اکثر سکولوں کا انفراسٹرکچر درست نہیں کیا جاسکا ہے، تدریسی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی ہے۔دیہات اور دور دراز علاقوں میںجہاں کئی سکول عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں وہیں بیشتر سکولوں میں تدریسی عملے کی کمی بدستور جاری ہے۔جس کے نتیجے میں حصولِ تعلیم کا اصل مقصد فوت ہورہا ہے۔سرکار ی انتظامیہ کے بار بار اعلانات کے باوجود تعلیمی نظام کو صاف و پاک کرنے ،فعال بنانے اور تعلیم کا معیار کو اونچا کرنےکی تمام کوششیں تا حال ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ثابت ہورہے ہیں، کیونکہ تعلیم کے اعلیٰ حکام قانون اور ضابطے کے تحت یہاں قائم سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں کی کارکردگی اور طریقۂ تعلیم کی مانیٹرننگ کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائےاور تمام خامیوں کو دور کرکےٹھوس بنیادوں پر نظام تعلیم رائج کروانے کی کوشش کی جائے۔