عالیہ شمیم
کیا عقابی روح کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر غور کیا جائے تو موجودہ دور کے مسائل میں امت کے نوجوان حالات سےدل برداشتہ ہوکر مایوسی اور قنوطیت پسندی کا شکار ہورہے ہیں۔ شارٹ کٹ کی تلاش میں محنت و جفاکشی سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ خاطر خواہ فوری نتیجہ اگر نہیں ملتا تو بے صبرے پن، شکوہ و شکایات کرتے ہوئے وہ کام بھی چھوڑ دیتے ہیں جو وہ کر ر ہے ہوتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر غلط قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے بنا سوچے سمجھے جوش کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ صبر اور حکمت کو بزدلی کی علامت سمجھتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ہمارے نوجوان نسل کیوں حکمت سے عاری’جذباتیت،اور جوش و ولولہ سے خالی حکمت پر عمل پیرا ہے۔ اس کی بڑی وجہ نصیحت کا نہ سننا اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا ہے۔ پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسٹریٹ فارورڈ کی آڑ میں بدتمیزی سے جواب دینا زیادہ بہترہے، چاہے کسی کا دل دکھی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ بےلگام زبان سے نہ صرف اپنی عزت بلکہ ماں باپ ،خاندا ن اور ملت کا نام بھی خراب کرتے ہیں۔
نصیحت زندگی کی تعمیر کرتی ہے لیکن وہ اس کو اپنے لیے وبال جان سمجھنےلگ کر دور بھاگتے ہیں، پھر یاسیت کا شکار ہو کر منزل سے دور ہوتےچلےجاتے ہیں۔ بےمقصد زندگی ان کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ ایک بڑی وجہ بے شعوری تعلیم حاصل کرنے کی بھی ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو شعوری بنیاد پر بات کو سمجھنے، سمجھانے کے بجائے رٹو طوطے بنانے کا رجحان زوروں پر ہے، جس کی وَجہ سے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج تعلیم کا مقصد صرف اچھی ملازمت کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔
تاریخ کا سب سے حیرت انگیز انقلاب آج سے چودہ سو سال قبل جزیرہ نما عرب میں برپا ہوا تھا ، جس کے بارے میں تاریخ کے اہم تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ “گویا ایک جادو کی چھڑی گھما دی گئی ہو اور آناً فاناً عرب میں ایک ایسا انقلاب آیا جس نےاس کی کایا پلٹ کر رکھ دی “۔ اس عظیم الشان انقلاب میں رسول عربی ؐ کی دعوت کو قبول کرنے اور چٹان کی طرح اس پر جم جانے والوں میں اکثریت نوجوانوں ہی کی تھی۔ بات ساری نسل نو کو مثبت انداز فکر اور شعوری تعلیم دینے کی تھی ان میں حوصلے بڑھانے والے بزرگ ہاتھ تھے۔
نوجوانوں کی بہتری میں ہی قوم کی بہتری ہے، لہٰذا یہ قوم اس وقت تک خوشحال ، معزز، کامیاب، اور بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی جب تک اس کے نوجوان عہد اول کے جوانوں کی طرح نہ بن جائیں۔ آج بھی نوجوانوں کے لیے اسی طرح عقلمندی اور دانائی سے کام لینا انتہائی ضروری ہے، جیسے ماضی میں لیا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے دنیا میں آج تک جتنے انقلاب آئے، چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشی ہو یا سماجی، سائنسی ہو یا اخلاقی ان سب ہی کی پشت پر نوجوانوں کا رول سب سے اہم رہا ہے۔
جس انقلاب یا تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان ہوں، اسے تاریخ کا دھارا موڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا ،کیوں کہ پر عزم نوجوان جب کسی ٹاسک کو پورا کر لینے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو پھر جم جاتے ہیں۔ یہ بلند حوصلہ، باہمت، باصلاحیت اور امنگوں اور ولولوں سے بھر پور نوجوان نہ صرف ملک و ملت کے لیے بل کہ اپنے خاندانی ناموس وقار کی بھی علامت بن جاتے ہیں اور خاندان و اداروں میں اپنا لوہا منوا کر بساط عالم کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
اے نوجوانو! تم ہی قوم و ملت کا خزانہ و قیمتی میراث ہو، امیدوں کا گہوارہ ہو۔ مستقبل کی امیدیں تم ہی سے وابستہ ہیں۔ اخلاق حسنہ کے پیکر بنو ۔بغض و عناد اور کدورتوں کودل سے نکال کرجوانی کے لمحات کو انمول بنالو ۔اسلام دشمن قوتوں کی تمام عیاریاں و مکاریاں غارت کرنے کی بھر پور کوشش کرو، اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اپنی خامیوں کو دور کرکےاخلاص اور کامل سچائی کےساتھ ایمان اور صحیح عقیدے کی روشنی دوسروں تک پہنچاؤ، اپنا محاسبہ کرو۔
اپنے اعمال پر نظر رکھو، کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو کام نہیں کر رہے؟ علم نافع اور عمل صالح سے آراستہ و پیراستہ بنو۔ ملی یکجہتی، اتحاد، اصلاح اور بہتری کے قیام اور دوام کےلیے خوب محنت کرو، اپنے آپ کو انتشار اور علیحدگی پسند سوچ سے دور رکھو۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھو، اس طرح تمہارے دماغ روشن ہوں گے بصیرت میں نکھار آئے گا اور رائے صائب ہوگی، نیز تم معاشرے کی اصلاح اور بہتری کےلیے برائی، فتنوں اور آزمائشوں سے پاک صاف عنصر بن جاؤ گے۔