قصہ کہانی دنیا کی قدیم ترین صنف ادب ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کی سب سے زیادہ دلچسب ،رنگین اور دلکش صورت ہے ۔داستان قصے کی ترقی یافتہ مہذب اور متمدن شکل تھی ۔داستانیں اپنے مخصوص ماورائی مزاج، مافوق الفطرت ماحول، مثالی کرداروں، کے سبب ایک زمانے میں اپنے اندر بے پناہ دلکشی رکھتی تھیں ،تاہم اب داستانوںکا دور گزر چکا ہے۔ انسان کے پاس بڑی بڑی ضخیم کتابوں کے مطالعے کے لیے وقت نہیں ہے۔ اس دور میں ناول اور مختصر افسانہ داستانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔
نسیم حجازی ؔ کا اصل نام محمدشریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازیؔ" سے معروف ہیں۔ موصوف تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا۔ وہ مارچ ۱۹۹۶ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
پاکستان میں مقبول تاریخی فکشن کی بات ہو تونسیم حجازی ؔکے ناولوں کا ذکر سرفہرست آتا ہے۔ ۱۹۱۴ء میں گورداسپور میں جنم لینے والے محمد شریف کے اصل نام سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ ’حجازی‘ ان کے نام کا حصہ تب بنا جب ایک استاد نے انہیں کہا کہ ان کی ذات یعنی’ آرائیں‘ دراصل سرزمین حجاز سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئی۔ تاریخی طور پر اس دعوے کی تصدیق یا تردید ممکن نہیں۔ تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے لاہور میں رہائش اختیار کی۔ ۱۹۳۷ء میں انہوں نے ’داستان مجاہد‘ نامی ناول لکھنے کا فیصلہ کیا اور ایک سال کی محنت کے بعد اسے مکمل کیا، البتہ کوئی ناشر اسے چھاپنے کو تیار نہ تھا۔ اس دور کی روداد بقول نسیم حجازی ؔ :
’’ان دنوں مرحوم حمید نظامی، مولانا عبدالستار خان نیازی اور میں ایک ہی مکان میں رہا کرتے تھے اور مولانا عبدالستار نیاز ی پہلے شخص تھے جو میرے تصنیفی کام میں بے حد دلچسپی لیتے تھے اور میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یہ نام نہاد ’ترقی پسند‘ ادب کا دور تھا لہٰذا میں جس بھی مشہور ناشر کے پاس اپنے ناول کا مسودہ لے کر گیا، وہ داستان مجاہد کا عنوان دیکھ کر ہی تلملا اٹھتا۔ با لآخر ۱۹۴۳ء میں میر جعفر خان جمالی کی ذاتی دلچسپی کی بدولت کوئٹہ سے شائع ہو کر منصہ شہود پر آیا‘‘۔
۱۹۳۰ء کی دہائی میں ’انگارے‘ نامی مجموعے کی اشاعت کے بعد ہندوستانی ادب میں ترقی پسندی کی روایت نے قدم جمائے۔اس دور میں منٹوؔ، کرشن چندرؔ اور دیگر افسانہ نویس ابھی اپنے فن کی عروج کو نہ پہنچے تھے اور بین الاقوامی ادب کے تراجم میں مصروف تھے۔ تاریخی ناول لکھنے کا آغاز عبدالحلیم شررؔنے بیسویں صدی کے اوائل میں کیا۔ نسیم حجازیؔ نے ناول نگاری کے ذریعے ’قوم نگاری‘ کا بیڑہ اٹھایا۔ ناسٹیلجیا (Nostalgia) یعنی گزرے ہوئے دور کی یاد، انسان کو حقیقت سے دور لے جاتا ہے اور اس کے مظاہر ہمیں عبدالحیم شرر اور نسیم حجازی کے ناولوں میں ملتے ہیں:
’’جب یورپ پروحشت اوربربریت کی تاریک گھٹائیںمسلّط تھیں،اندلس کے ہرگھرمیںعلم وہنرکی قندیلیںروشن تھیں۔جب یورپ کے اکثرباشندے جانوروںکی کھالوںسے اپنے جسم ڈھانپتے اورجنگلوںاورغاروںمیںرہتے تھے،اندلس کے باشندے پارچہ بافی اورفن تعمیرکواوجِ کمال تک پہنچاچکے تھے۔جب یورپ میںکتابوںاورکتابیں پڑھنے والوںکی تعدادانگلیوںپرگنی جاسکتی تھی،اندلس میںکسی ایسے آدمی کاتلاش کرناممکن نہ تھا،جس کے گھرمیںکتب خانہ نہ ہو۔‘‘(شاہین۔ص۱۵)
ڈاکٹر ممتاز عمر کے مطابق نسیم حجازی تین شخصیات سے بہت متاثر تھے،ایک علامہ اقبال، دوسرے قائد اعظم اور تیسرے مولانا مودودی۔ نسیم حجازی کے زیر ادارت شائع ہونے والے اخبار کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب’نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ‘ میں ذکر کیا:
’’کوہستان کے بیشتر صفحات دینی مسائل،اسلامی مضامین، تاریخ اسلام، مسلم دنیا کے مسائل اور خدمت خلق جیسے عنوانات اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔ کوہستان مسلمانوں کے حقوق کا علم بردار، اسلامی تحریکوں اور احیائے اسلام کی کوششوں کا حامی و مددگار تھا۔ آپ ایک نظریاتی انسان تھے۔ پاکستان کی آزادی اور اسلام کی بالادستی کا مقصد آپ کی زندگی کا سنہرا اور بلند اصول تھا۔ ویسے بھی اسلام اور پاکستان دوستی باہم لازم وملزوم ہیں اس لئے آپ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے ہر لمحہ کوشاں رہے۔‘‘
ہر ملک کے قیام کی ایک داستان ہوتی ہے۔پاکستان کے قیام کی داستان محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔ محمد بن قاسم کی زندگی کی ایک کہانی وہ ہے جو تاریخی کتب جیسے ــ’چچ نامہ‘ میں ملتی ہے اور ایک کہانی وہ جو نسیم حجازی ؔکے اس نام کے ناول میں نظر آتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی آمد سے کئی دہائیاں قبل مسلمان تاجر ہندوستان پہنچ چکے تھے اور باہمی تجارت شروع ہو چکی تھی۔ پاکستان کے ابتدائی تاریخ نویسوں نے اس ملک کی تاریخ لکھی تو ان دنوں’ ہڑپہ‘ او’ر موہن جو داڑو‘ کے کھنڈرات کی کھدائی کے باعث پاکستان کے باسیوں کا سرا ایک قدیم لیکن شاندار تہذیب سے جوڑتے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کی ایک نئی تاریخ لکھی گئی جس میں موجودہ پاکستان کو تاریخی طور پر برصغیر سے الگ تھلگ دکھانے کی سعی کی گئی۔ ضیاء الحق کے دورمیں نسیم حجازیؔ کے ناول سرکاری طور پر دوبارہ چھپوائے اور تقسیم کروائے گئے۔ پاکستان کی مختلف چھاؤنیوں کی لائبریریوں میں وہ ناول پہنچائے گئے ۔پاکستان کی سرحدوں کے محافظ اقبالؔ کی بجائے نسیم حجازی ؔکے ’شاہین‘ سے متاثر ہیں۔
نسیم حجازی ایک صحافی،ایک ایڈیٹراور ایک تاریخی ناول نگارہیں۔نسیم حجازیؔ نے سفرنامہ، ڈرامہ اور مزاح پر بھی طبع آزمائی کی۔ان کے چند ناولوں پر پی ۔ٹی ۔وی نے ڈرامے بھی پیش کیے، جو اپنے دورمیں مقبول ترین سیریلز رہیں۔نسیم ؔ اپنے دور کے بیشماراخبارات سے وابستہ رہے، ان کی اصل شناخت تاریخی ناول نگاری بنی۔اردوکے دامن میں ایسے تاریخی ناول نگار کئی ہیں،لیکن نسیم حجازی ان سب میں ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔نسیم حجازی ؔکا اصل کمال ہی یہی ہے کہ انہوں نے تاریخ جیسے خشک موضوع کی جانب عام طبقے اور بالخصوص طلبہ کومائل کیا۔چونکہ تاریخ پڑھنا اور سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا،اس لیے اگر تاریخ کو واقعاتی یا محاکاتی طرز پر پڑھ لیاجائے تو گنجلک پس ِ منظر کوسمجھنے میں بڑی معاونت ہوتی ہے۔نسیم حجازی کا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اہم ترین ابطال جلیلہ کی زندگیوں اورمسلم اْمہ کے عروج و زوال کے مختلف ادوارکوآسان انداز میں جو داستانی پیرایا دیا،اس سے اس دور کے حالات و واقعات کو پڑھنا اور سمجھنابیحد سہل ہوگیا۔
نسیم حجازی نے تاریخ کو ہمارے لیے کیسے آسان بنایا؟ بقول کسے ’اگرآپ مسلم دور کی اہم فتوحات کے بارے میں جاننا چاہیں تو ‘‘داستان ِ مجاہد ’’ پڑھ لیجیے، جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے ابتدائی دور کا جائزہ لینا چاہیں تو’’قیصر کسریٰ’’ کی ورق گردانی کر لیجیے، خلافت ِ راشدہ کا دور دیکھنا چاہیں تو ‘‘قافلہ ء حجاز’’ کا مطالعہ کیجیے، اندلس میں مسلمانوں کے عظیم الشان دور اور وہاں سے انخلاء اور سقوط ِ غرناطہ کا کرب جاننا چاہیں تو’’شاہین‘‘ اٹھا لیجیے۔اسی طرح ‘‘اندھیری رات کے مسافر’’ اور ‘‘کلیسا اور آگ’’ میں اسپین کی گلیاں آج بھی اس عظیم دور کی راہ تکتی نظر آئیں گی۔ فتح بیت المقدس اورسقوط ِ بغداد کیلئے ‘‘آخری چٹان’’ پر نظر ڈال لیجیے، ہندوئوںکے ہاں ذات پات کی تقسیم کے پس ِ منظر میں قدیم ہندوستان کی جھلکیاں دیکھنا چاہیں تو ‘‘انسان اور دیوتا’’ میں آپ کو تاریخ اور تہذیب دونوں نوحہ کناں نظر آئیں گی۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر متحدہ ہندوستان کی تاریخ، تہذیب اور حالات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ’’پردیسی درخت، ‘‘’’گمشدہ قافلے‘‘اور ’’خاک و خون‘‘سے بہتر کوئی چیز نہیں۔جس میں آپ کو اس دور کی اتنی بہترین عکاسی ملے۔یہی نہیںبلکہ نسیم حجازی ؔنے چند اہم مسلم شخصیات پر بھی خوب خامہ فرسائی کی، انہوں نے تاریخ اسلام کے کم عمر ترین سپہ سالار پر محمد بن قاسم،محمود غزنوی پر ’’آخری معرکہ‘‘، شہید ٹیپو سلطان کی دلیرانہ زندگی پر ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘جبکہ ان کے والد حیدر علی پر ’’معظم علی‘‘جیسے ناول لکھ کر ان شخصیات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔‘
نسیم حجازی ؔنے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کے عروج و زوال کے ادوار اور ان کے اسباب پر خاص روشنی ڈالی ہے۔ان کے ناولوں میں مسلم تہذیب، تمدن اور ثقافت بانہیں کھول کرہنستی مسکراتی جبکہ دوسری جانب مسلمانوں پرآنے والے مصائب پرتاریخ آنسو بہاتے نظر آتی ہے ۔ ان تحریر وں میں ادبی معیار، سلاست اور روانی اور شستگی خوب ملے گی۔ان کے ناولوں میں شرم و حیااور عفت و پاکدامنی کاتحفط کرتی بیٹیاں آپ کواپنی تاریخ سے محبت کرنا سکھادیں گی اور اس پر آپ کا احساس ِ تفاخر جاگ اْٹھے گا۔دین کی خاطر اسلاف کے طرز پر قربانیاں دیتے بیٹے آپ کے اَنگ اَنگ میں جوش اور جذبہ بھردیں گے۔جہاں مسلم سلطنتوں میں تہذیبوں کا سنگم آپ کو خوشگوار حیرت میں ڈالے دیگا تو دوسری طرف اپنوں کی ریشہ دوانیاں آپ کو خون کے آنسو رلائیں گی۔لکھتے ہیں:
’’تاتاریوںکی حیرت انگیزکامیابی کارازان کی رفتارمیںتھا۔وہ گھوڑوںکی ننگی پیٹھ پرسواری کرتے تھے۔ہرسوارکے ساتھ کئی کئی گھوڑے ہوتے تھے۔جب ایک گھوڑاتھک جاتاتوسواردوسرے گھوڑے پربیٹھ جاتا۔۔۔۔یہ وہ قوم تھی جس کے ہاتھوںعالم اسلام کی عبرت ناک تباہی مقدرہوچکی تھی۔اس عالم اسلام کی تباہی ، جو انتشار اور لامرکزیت کی آخری حدتک پہنچ چکاتھا۔ان مسلمانوںکی تباہی جوغفلت کی نیندسورہے تھے،جواحکام الٰہی پرعمل پیراہونے کی بجائے اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تاویلیں گھڑنے کے عادی ہوچکے تھے۔ان کے پاس آدھی دنیاکوفتح کرنے والے اسلاف کی تلواریں اب بھی تھیں لیکن اسلاف کاایمان نہ تھا۔‘‘(آخری چٹّان۔ص۸)
نسیم حجازیؔ کی نثر میںجمالیاتی دلکشی موجودہے۔ان کے ناول دلکش اورکیف آگیںہیں۔رومانویت کے فنی تقاضوںکوبڑے ہی لطیف پیرائے میںبرتاہے۔تاریخی ناول’’قیصروکسرٰی‘ میں رقمطرازہیں:
تھوڑی دیربعدوہ مغربی دروازے سے باہرایک قبرستان کے اندرداخل ہوا۔وہاںایک ٹیلے کے دامن میںاسے دورایک سیاہ پوش عورت دکھائی دی۔وہ بھاگ کرآگے بڑھا،رُکا،پھرکبھی تیزاورکبھی سست رفتارسے ٹیلے پرچڑھنے لگا۔اس کادل دھڑک رہا تھااوراس کی ٹانگیںلڑکھڑارہی تھیں۔فسطینہؔ نے اچانک مُڑکردیکھااورعاصمؔ کے پائوںزمین سے پیوست ہوکررہ گئے۔چندثانیے وہ پتھرائی ہوئی آنکھوںسے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔پھرزندگی کے پرسکون سمندرمیںاچانک ایک طوفان اٹھااوروہ بے اختیارایک دوسرے سے لپٹ گئے۔‘‘(ص۔۶۷۱)
آپ نسیم حجازی ؔسے ضرور واقف ہوں گے، یہی وہ شخص تھا،جس نے ہمیں اپنی جیتی جاگتی تاریخ سے ملوایا،اپنا درد ہمیں دیا کہ شاید تم ہی کچھ کرلو،پرائی گلیوں میںبھٹکنے والوں کو اپنا در دکھایا کہ یہ ہے تمھارا مرکز،اس میں ہے تمھاری وقعت اور یہی ہے تمھاری اصل منزل،پہچانو اور اپنی منزل سے لپٹ جاو!!!
نسیم حجازی ؔبھولا ہوا سبق یاد دلاتے ہیں۔جہاں تاریخ کے بند دریچے وَا ہونا شروع ہوتے ہیں،قاری دیکھتا ہے کہ حالات اب بھی ویسے ہیں،جیسے کچھ بھی نہیں بدلا، آج بھی اپنوں کی عیاریاں اور غیروں کی چیرہ دستیاں ہمارے آنکھوں کے سامنے کے مناظر دھندلادیتی ہیں،لیکن جیسے جیسے قاری آگے پڑھتا جاتا ہے، تو راستے میں دور کہیں منزل کے آثار دِکھنے لگتے ہیں،پھر ایک امید،ایک جذبہ اور ایک اْمنگ سی جاگ اٹھتی ہے،جس سے مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں۔یقین کیجیے!یہی سب کچھ ہے، جو آپ ان ناولوں میں پائیں گے،نسیم حجازی ہماری تاریخ کا ایک بھولا بسرا کردار ہے، جس کو ہم نے فراموش کردیا، انہوں نے ہمیں بھولا بھٹکا رستہ دکھایا، بھولا ہوا سبق یاد دلایا،گم گشتہ شناخت یاد دلائی لیکن یہ کتنا عجیب ہے اوراحسان ناشناسی ہے کہ اردوکے’’ٹھیکیداراوراجارہ دار‘‘ خود اس شخص کو بْھلابیٹھے۔
نسیم حجازیؔ کے ناقدین اْن کی ادبی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے بخل سے کام لیتے ہیں۔حالانکہ بقول ماہر القادری مرحوم ؔان کی ناولوں میں ناول نگاری کے تمام بنیادی اجزاء پوری طرح نظر آتے ہیں جو ادب کی ضرورت مانے جاتے ہیں۔ نسیم حجازی ناول نگاری کی تاریخ میں نئے رجحان اور نئے انداز فکر کے بانی بھی مانے جاتے ہیں۔ تاریخ کو تحقیق کے ساتھ جوڑتے ہوئے تحریر کی چاشنی پر انہوں نے خصوصی توجہ دی۔اپنے تاریخی ناولوں میں مسلمانوں کے کارہائے نمایاں ہی پیش نہیں کئے بلکہ سچے محقق کی طرح اْن کی تنزلی اور بربادی کے اسباب بھی بیان کئے۔ایسی تحریرجسے پڑھ کرنئے نئے خیالات ذہن میںابھریںاورجوکسی نئی سوچ کامحرک بن جائے،وہ زندہ تحریرہے۔نسیمؔکی تحریرات تین نسلوںپراثراندازہوئیں، ان کے قلم کی چاشنی اورغنائیت نے لاکھوںدلوںکومسخرکیااورہنوزوہ مقناطیسی اثرقلوب واذہان پراثراندازہے۔
…………………………
رابطہ : ریسرچ اسکالر،شعبہ کشمیریونیورسٹی،سرینگر