یہ بات بالکل روشن ہے کہ ہر زمانے میں انسان کوپنپنے کے لئے اپنےاپنے انداز رہے ہیںاور زمانے کے تقاضے کے مطابق آگے بڑھنے کی راستے کھوج لئے ہیں۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔ ہمارا موجودہ عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کےانقلاب کا ہےاور اس علمی انقلاب میں ہماری نسل نو کا کردار کیا ہے؟اس پر غور وفکر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ زمانہ بھی تھا، جب دنیا ہر اصول اور جدت کےلئے ہمارے اسلاف کی طرف دیکھتی تھی لیکن آج گلوبل آڈر کی ترقی میں ہمارا کوئی واضح کردار ہی نظر نہیں آرہا ہے۔اقوام عالم اپنی نسلوں کی علم و دانش کی پختگی اور تربیت اُن خطوط پر کر رہی ہے کہ قابلیت کے اعتبار سے ان میں اور ہمارے بچوں میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔دوسرے ممالک کے سائنس اورٹیکنالوجی کے علِم کے ذریعےستاروں کے جہاں کو تسخیر کرکے نئی دنیا بسانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ آسمان کی حدوں کو چھونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے ذریعے مستقبل میں اکثر شعبہ ہائے زندگی جدت اختیار کر رہے ہیں،جبکہ ہمارے معاشرے میں پہلی سٹیج سے آگے جا کر دماغی قوت اور صلاحیت کے بڑھانے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔
نتیجتاً آبادی کے بیشتر حصہ کامقدر فیصلہ ساز پالیسی بنانے والے بااختیار ایگزیکٹو ٹائپ پوزیشن کی بجائے محض مشقت و مزدوری اور کلیریکل ٹائپ ملازمت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہمارے نوجوا ن یورپ اور امریکہ کے مادی اور پُر تعیش طرزِ زندگی کے سحر میں مبتلا ہیں اور ماڈرن ازم کے نام پر اپنی اقدار کو تو فرسودہ قرار دیتے ہیںاور اُن کی توجہ ماڈرن ازم کے آزاد خیال طرز عمل پرجا ٹکی ہے۔جبکہ مارڈن ازم کی اصل خصوصیات سے نا آشنا ہیں۔ علم، فن، ہنر، ایجاد، ریسرچ، ٹیکنالوجی اور ترقی کے آداب و اطوارسے نابلد ہیں۔ لہٰذا ترقی یافتہ دنیا سے بے حیائی اور عارضی بد نمامادی تخیلات قبول کررہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اُن کی ترقی کے وہ بنیادی اصول اپنا تے، جن پہ کاربند ہوکر انہوں نے زمانے کا رُخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔فری لانسسنگ اور سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں نو جوانوں کی عالمی سطح پر کامیا بیوں کا سلسلہ کب کا چل پڑا ہے لیکن اس رجحان میں ہماری نوجوان نسل خوابِ غفلت میں محو ہے۔ ترقی کی نتیجے میں پید ا ہونے والے چیلنجزسے نمٹنے میں نسلِ نو کو میڈیکل،بائیو سائنسز اور انوا ئر مینٹل سائنسز میں اپنے ہم عصر اقوام کے مقابلے میں کردار ادا کرنے کے لئے ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے۔ہماری نسل نو کو مستقبل کے مارکیٹ اور انڈسٹریل تقاضوں کے مطابق ماہر افرادی قوت بننا ہوگا۔جس کے لئےبروقت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔در حقیقت فطرت منصفانہ ہے، بلاوجہ کسی قوم کے سرپر حکمرانی کا تاج نہیں سجاتی، انہوں نےاپنے آپ کو اس قابل بنا یا ہوتا ہے کہ دنیا کےنظام کا بوجھ اُٹھا سکیں۔اس لئے یاد رہے کہ دنیا کے لیے طب و طبیعیات ، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، قانون و نظام معاشرت، حکمرانی و انتظامی امور، سیاست و سفارت، ثقافت و صحافت الغرض، بنی نوع انسان کے لیے روئے زمین پر ایک منصفانہ اور ترقی پسند نظام واضع کرنے کی استطاعت حاصل کرنا لازمی ہے،ورنہ عروج کسی ایک پہلو میں ترقی کرنے سے نہیں آتاہے۔
نسل انسانی میں جتنی بھی جدت اور انقلاب آئے ہیں، ان کے پیچھے ہر طبقہ کے افراد کی فکر کا رفر ما رہی ہے۔ دیگر اقوام کی نسلِ نو اپنے خوبواں کو پورا کرنے کےلئے اپنے مستقبل کا انتخاب خودکرتے ہیں۔اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت بڑھا کر کم عمری میں ہی اس کے مطلوبہ معیارات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ ہماری نسل نو کو بھی اپنے رویے ،کامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ کرناوقت کا اہم تقاضا ہے۔ ہر وقت ایک ہی ذہنی حالت میں رہنے کی بجائے حالات کے پیش نظر اپنی کیفیت اور اندازفکر بدلنا بھی ضروری ہے۔ اپنے دماغ سے غیر سنجیدہ اوربے مقصد خیالات کو تر ک کر نے کی ضروری ہےاور بے مقصد آرزؤں کے سحر میں مبتلا نوجوانوں کو اپنا ذہنی رویہ اور نقطۂ نظر بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔ علم ِعر فان کی عدم موجودگی میں علم محسوسات اور ادراک تعمیر کی بجائے تخریب ہی کو جنم دیتا ہے۔قوم کے معماروں کو بیک وقت ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوانے کے لئے ان سبھی حالات ومسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔