سرینگر //گریز اور کرناہ ،وادی کے ایسے علاقے ہیں جو موسم سرما میں کئی کئی ہفتوں تک مکمل طور پر بند رہتے ہیں۔ ان دونوں علاقوں کو کپوارہ اور بانڈی پورہ سے جوڑنے کیلئے نستہ چھن گلی (سادھنا ٹاپ) اور رازدان پاس دو ایسی جگہیں ہیں جو برفباری سے ڈھکی رہتی ہیں اور یوں عام لوگوں کے لئے باعث عذاب بن رہی ہیں۔ان دونوں مقامات پر اگر ٹنلوں کی تعمیر ہوتی توآبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کا وادی اوربیرون دنیا کیساتھ رابطہ پورے سال بحال رہتا ۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ دونوں جنگہوں پر ٹنلوں کی تعمیر کو لیکر کئی مرکزی سرکاروں نے اعلانات کئے لیکن یہ اعلانات عملی شکل نہیں پا سکے، نیز کسی بھی ریاستی سرکار نے کرناہ اور گریز کو سال بھر وادی سے جوڑے رکھنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی نہ ٹنلوں کے بارے میں انہوں نے اپنی توجہ مرکوز کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرناہ اور گریز دو بہت بڑے علاقے ہیں اور یہ دو اسمبلی حلقوں پر بھی محیط ہیں۔ ابھی تک یہاں کے لوگوں سے صرف ووٹ لئے گئے ہیں لیکن ان کے علاقوں کو جوڑنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔اس سال بھی سرما کے دوران یہ سڑک رابطے قریب 2سے اڑھائی ماہ تک گاڑیوں کی آمد وفت کیلئے بند رہے ۔سرکار نے اگرچہ اُن علاقوں کیلئے ہیلی کاپٹرسروس بھی شروع کی لیکن یہ سروس آبادی کے مشکلات کو دور کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہوئی۔رواںبرس موسم سرما میں کرناہ ، گریزاور کیرن کے 1685افراد کو سرینگر سے ان سرحدی علاقوں تک اور سرحدی علاقوں سے سرینگر تک پہنچایا گیا ۔ان میں 112افراد شدید بیماری میں مبتلا تھے۔ جبکہ سرینگر میں فوت ہوئے 15 افراد کی نعشیں بھی شامل تھیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ کرناہ سے چوکی بل اور کیرن سے میلیال کے درمیان 500افراد نے مجبور ہوکراپنی زندگیوں کو جوکھم میں ڈال کرپیدل سفرکیا ۔کرناہ انتظامیہ کے مطابق اکتوبر 2018سے مارچ 2019تک سرما کے دوران ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے 460مسافروں ،جن میں 90مریض بھی شامل تھے، کرناہ سے سرینگر اور سرینگر سے کرناہ لائے گئے جبکہ اس دوران سرینگر کے اسپتالوں میںیا پھر حادثاتی طور لقمہ اجل بنے کرناہ کے 15افراد کی نعشوں کو بھی اپنے علاقوں میں پہنچایا گیا ۔ایس ڈی ایم کرناہ ڈاکٹر الیاس نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ پچھلے سرما کے مقابلے میں اس سال زیادہ تعداد میں مریض اور ضرورت مند لوگ وں کو راحت ملی۔انہوں نے کہا کہ پچھلے سال سرما میں 207لوگ ،جن میں مریض بھی شامل تھے ،کو منزل مقصود تک لیجانے کیلئے 44اڑانیں بھری گئیں ۔ایسا ہی حال کیرن اور گریز کا بھی رہا ۔اسٹنٹ کمشنر کشمیر قاضی عرفان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کیرن علاقے میں اس عرصے کے دوران 25لوگوں نے بذریعہ ہوائی جہاز سفر کیا جن میں 7شدید مریض بھی شامل تھے جنہیں سرینگر کے مختلف ہسپتالوں تک پہنچایا گیا ۔انہوں نے بتایا کہ سرما کے دوران 1200 ضرورت مند لوگوں ، طلاب اورملازمین کے علاوہ شدید بیماری میں مبتلا 24مریضوںکو سرینگر کے ہسپتالوں تک پہنچا یا گیا ۔ان علاقوں کی یہ مانگ رہی ہے کہ ٹنلیں تعمیر کی جائیںلیکن یقین دہانیوں کے سوا عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا ۔کرناہ کی نستہ چھن گلی پر صرف 7کلو میٹر ٹنل کی ضرورت ہے اور اس ٹنل کی تعمیر کے مطالبے کو لیکر لوگ سڑکوں پر ہیں ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ بیکن حکام نے اس سڑک پر ٹنل کے حوالے سے ایک سروے بھی کی اور ایک ڈی پی آر بھی بنایا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر کام نہیں ہو سکا۔ ایسا ہی حال گریز کی آبادی کا بھی ہے گریز کی آبادی رازدان ٹاپ پر ٹنل کی تعمیر کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ آج تک جتنی بھی سرکاریں آئیں، انہوں نے اس درے پر ٹنل کی تعمیر کا خواب دکھایا لیکن یہ آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ۔اب اگرچہ سڑکیں بحال ہو چکی ہیں مگر گریز بانڈی پورہ کرناہ کپوارہ اور کیرن کپوارہ کی سڑکیں محکمہ بیکن کی ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ان پر سفر کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہے ۔کشمیر عظمیٰ نے بیکن کے چیف انجینئر سے پھر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگربات ممکن نہ ہوسکی۔