مشتاق مہدی
عمر میں وہ کچھ سال مجھ سے بڑا تھا۔نام اُس کا محمود احمد بیگ تھا۔باتیں وہ اچھی کرتا تھا ۔بڑی مزے دار اورپُر مغز۔۔۔۔۔۔۔ایک بار ہوٹل شیزان میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بولا ۔’’پہلے یہ دنیا ایسی نہ تھی۔بڑی ویران اور سنسان جگہ تھی ۔آدمی نما جانور کھانے کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکتے رہتے تھے۔اکژ درندوں کا نوالا بن جاتے تھے ۔رہنے کے لئے اُنکے پاس مکان تھے نہ پہننے کے لئے کپڑے ۔نہ کوئی سماج تھا نہ سماجی قوانین نہ بول چال کیلئے کوئی زب۔۔۔ جنگلوں پہاڑوںاور میدانوں میں جانوروں کے ساتھ جانوروں کی سی زندگی بسر کرتے تھے ۔اسے کسی قدر رہنے کے قابل بنایا تو ہم انسانوں نے بنایا۔۔۔۔‘‘
’’ہم انسانوں نے۔۔۔‘‘میں نے لقمہ دیا۔
’’ہم سے میری مرادمختلف قوموں اور قبیلوں کے عقل مند انسانوں سے ہے۔جوحالات کی سنگینی پر غوروفکر کرتے تھے ۔انسانی بقا پر سوچتے تھے ۔تحقیق و تدبر کرنے والے انسان،اور انسانی ضروریات کے لئے نئے نئے سامان پیدا کرنے والے انسان۔جیسے کھیتی باڑی ،پہییہ، گاڑی ،بجلی،ہوائی جہاز،فون ،کمپیوٹر وغیرہ ہزاروں چیزیں ہیں۔۔۔۔۔‘‘
’’واقعی انسان گریٹ ہے ‘‘میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’آپ بتا سکتے ہیں قوم ُہنود نے دنیا کو کیا خاص چیز دی ہے ‘‘
میں سوچ میں پڑگیا ۔وہ کچھ لمحے بعد بولا
’’یوگا۔۔۔میرے بھائی یوگا۔پچھلے پچیس سالوں سے یوگا کررہا ہوںاور ماشااللہ آپ کے سامنے ہوں‘‘
وہ ایک ریٹائرڈ انجینئر تھا۔لیکن ریٹائرڑ شخص نظر نہ آتا۔اس کے سر کے بال سفیدتھے۔مونچھیں سیاہ اور سفید۔۔۔ڈھنگ سے رنگی ہوئی۔جسم کا تناسب بہت شاندار تھا۔ کندھے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے ہردم بہت چاک چوبند نظر آتا۔و ہ کوئی مشہور کرکٹرسا لگ رہا تھا ۔
میں فرصت کے اکثر لمحات شہر کی مشہور پارک چنار باغ میں گزاردیتا تھا۔یہاں میرے کئی واقف کار بھی ملتے تھے ۔ان ہی میںایک محمود صاحب تھا۔ اس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔وہ ایک علم دوست شخص تھا ۔فطرت شناس اورانسان دوست بھی۔مذہبی منافرت کا اس میں ذرا بھی زہر نہ تھا۔کوئی نہ کوئی نئی بات جو میرے لئے دلچسپ ہوتی ۔۔۔اکژ سنا دیتا۔
اس لئے پارک میں داخل ہوتے ہی میری نظریں ایک مخصوص بینچ کی طرف اٹھیں۔بینچ پر محمود صاحب کو اخبارپڑھتے دیکھ کر دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑی۔قریب پہنچ کر میں نے سلام کیا ۔سر اٹھا کر جواب دیا ۔’’وعلیکم سلام ۔۔۔‘‘
اس کی آواز میں مجھے تھوڑا سا روکھا پن محسوس ہوا ۔بینچ کے ایک طرف بیٹھ کرمیں نے ایک سگریٹ سلگادیا۔پھر ایک لمبا کش لے کر غور سے اسے دیکھنے لگا ۔اُس کی نظریں اخبار پر جمی تھیں لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کسی الجھن میں ہے کچھ پریشان سا۔
’’ محمود صاحب خیریت ہے ۔کچھ دکھی سے لگ رہے ہو ‘‘
’’ ہاں بھئی ۔۔۔‘‘ اُس نے آہ بھر کر کہا ’’آج میں واقعی بہت غم زدہ ہوں۔اچانک ہی اپنی زندگی کا پورا منظر نامہ سامنے آگیا۔کافی دیر سے اس بینچ پربیٹھا ہوں ۔قریب تین گھنٹے ہو گئے ۔یہ اخبار میگزین سارے۔۔۔۔‘‘
’’ اچھا ۔۔۔‘‘ میں تھوڑا سا حیرت میں پڑگیا۔عام طور پر وہ گھنٹہ بھر سے زیادہ وہاںٹھہرتانہ تھا۔وقت کا بڑا پابند تھا
’’ آپ دکھی کیوں ہیں کوئی بڑی ٹریجڈی یاد آگئی ‘‘
وہ کچھ دیرمیری آنکھوں میں خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔پھر بڑی گمبھیر آواز میں کہا
’’ کیا کہوں دوست۔۔۔زمانے بیت گئے ۔بچپن گزر گیا ۔ جوانی رخصت ہوئی۔لیکن ایک بھی دن نہیں
دیکھا نجات کا اپنی زندگی میں۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ نجات۔۔۔! ‘‘ میں چونک پڑا ۔محمود صاحب کس نجات کی بات کر رہا ہے۔کہیں نروان کی تو نہیں ۔۔۔
میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا۔
اُس کی بھر آئی ہوئی آواز نے میری سوچ کا سلسلہ توڑ دیا۔
’’ ہاں نجات کا ایک بھی دن نہیں دیکھاآنکھوں نےاور عمر آخری پڑائو پرپہنچ گئی ۔افسوس۔۔۔۔‘‘
میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔مجھے الجھن سی ہونے لگی ۔میں نے پوچھا
’’ نجات سے آپ کی کیا مراد ہے محمود صاحب۔۔۔۔؟‘‘
’’ اِس تقدیری ذلت اورگھٹن سے نجات کی بات کررہا ہوں۔نہیں سمجھے ‘‘وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر تلخی سے مسکرایا ’’ میںاپنی کم مائیگی اور بے بسی سے نجات چاہتا ہوں اور پھیلائے ہوئے اُس ڈر سے کہ حق بات کہنے پر زبان کاٹ دی جائے گی ۔‘‘
میں خاموش بت بنا اُسے دیکھتا رہا۔میں نے سوچا وہ مزید کچھ کہے گا تو اُس کے دل کابوجھ کچھ ہلکا ہوجائے گا، لیکن وہ اچانک بے چین سا اُٹھ کھڑا ہوا ۔اس کی آنکھوں میں کچھ ننھے آنسو جِھلملا رہے تھے ۔اخباروں کا بڑا ساپلندہ وہیں چھوڑ کر کہیں نکل گیا ۔
’’ محمود صاحب۔۔۔محمود صاحب۔۔۔!‘‘ میں آوازیں دیتا رہا ۔
���
مدینہ کالونی، ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053