پیغمبر آخرالزماںؐ
مسعود محبوب خان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے 23سالہ دورِ نبوت کو انسانی تاریخ کا ایک انقلابی سفر کہا جا سکتا ہے، جس نے نہ صرف عرب کے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا بلکہ پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ سفر انسانیت کے لیے ہدایت، عدل، اور رحمت کا پیغام لے کر آیا اور ظلم، جبر اور جہالت کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ مکرمہ میں ہوئی، جو اس وقت جاہلیت، بت پرستی، اور اخلاقی زوال کا مرکز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو نبوت عطا فرمائی تو آپؐ نے سب سے پہلے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ ’’لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کا پیغام دیا جو عرب معاشرے کے لیے انقلابی تھا کیونکہ یہ ان کے عقائد، رسم و رواج اور سیاسی نظام کو چیلنج کرتا تھا۔ ابتداء میں نبی کریمؐ اور آپ کے پیروکاروں کو شدید مخالفت اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا۔ قریش کے سرداروں نے آپؐ کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن آپؐ نے صبر، حوصلہ اور حکمت کے ساتھ دعوتِ دین جاری رکھی۔ آپؐ کی تعلیمات نے عرب معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ لوگ جو پہلے جاہلیت اور ظلم کے علمبردار تھے، اسلام کی روشنی میں آ کر محبت، انصاف اور رحمت کے علمبردار بن گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوا، جو اُس وقت جاہلیت، بت پرستی اور اخلاقی انحطاط کا مرکز تھا۔ ظلم، ناانصافی اور معاشرتی برائیاں عروج پر تھیں اور لوگ حق اور باطل کی تمیز سے عاری تھے۔ نبی اکرمؐ کی بعثت کے ساتھ ہی اس اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن نمودار ہوئی جو انسانیت کے لیے ہدایت اور رحمت کا پیغام لے کر آئی۔ جب نبی کریمؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے اپنے قریبی حلقے سے دعوت کا آغاز کیا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ اور حضرت ابوبکرؓ وہ اولین افراد تھے جنہوں نے آپؐ کی دعوت قبول کی۔ ان سے متاثر ہو کر کچھ اور لوگ بھی اسلام میں داخل ہوئے، لیکن مجموعی طور پر قریش کے سرداروں اور عوام نے اس دعوت کو شدّت سے مسترد کیا۔
جب نبی کریمؐ نے کھلے عام دعوتِ توحید کا اعلان کیا تو قریش کے سرداروں نے اس کو اپنے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ سمجھا اور اس دعوت کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے پیروکاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ حضرت بلالؓ کو گرم ریت پر لٹایا گیا، حضرت عمارؓ کے والدین کو شہید کیا گیااور دیگر صحابہ کرامؓ کو بھی مختلف اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قریش نے مسلمانوں کو سماجی، اقتصادی اور معاشرتی طور پر تنہا کرنے کے لیے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ یہ بائیکاٹ شعبِ ابی طالب کے نام سے مشہور ہوا، جس میں نبی کریمؐ اور آپؐ کے خاندان کو مکہ کے نواحی علاقے میں قید کر دیا گیا۔ یہ بائیکاٹ تین سال تک جاری رہا جس دوران مسلمانوں کو بھوک، پیاس اور بے بسی کی انتہاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ان تمام مشکلات کے باوجود، نبی کریمؐ نے کبھی اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کا سوچا بھی نہیں۔ آپؐ نے صبر، حوصلہ اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنی دعوت جاری رکھی۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی صبر کی تلقین کی اور انہیں تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت قریب ہے۔ مکہ مکرمہ میں جب دعوت کا سلسلہ جاری رہا تو آپؐ نے طائف کا سفر کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ لیکن طائف کے لوگوں نے آپؐ کا مذاق اڑایا اور آپ پر پتھر برسائے۔ نبی کریم ؐ کے جسم مبارک سے خون بہنے لگا، لیکن آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔مکی دور کا خاتمہ اور ہجرت کی تیاری مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نبی کریمؐ اور آپؐ کے پیروکاروں کو شدید مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کے صبر، استقامت اور اللہ پر توکل نے انہیں مضبوط بنایا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم ؐ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تیاری شروع کی جو اسلامی تاریخ کا ایک نیا باب ثابت ہوئی۔مکہ مکرمہ کا ابتدائی دور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق کی راہ میں آنے والی مشکلات کو صبر، حوصلہ اور ایمان کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ نبی کریمؐ کی ثابت قدمی اور صبر کا یہ دور آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
نبوت کے 13 سال بعد، اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ اس ہجرت نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مدینہ میں آپؐ نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جو پہلی بار دنیا کے سامنے اسلام کے عدل، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں پر قائم ہوئی۔مدینہ میں آپؐ نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دیا، یہود اور دیگر قبائل کے ساتھ معاہدے کئے اور ایک ایسے معاشرتی نظام کی بنیاد رکھی جو آج بھی دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ اس ریاست میں آپؐ نے شریعت کے اصولوں کو عملی شکل دی اور ہر فرد کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا۔
نبی کریمؐ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھی بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد بھی بنی۔ مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی جو دنیا بھر کے لیے ایک مثالی نظامِ حکومت اور عدل و انصاف کا نمونہ بنی۔ نبی کریمؐ اور آپ کے صحابۂ کرامؓ نے قریش کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ یہ ہجرت نہایت حکمت عملی سے کی گئی تھی اور مدینہ پہنچنے پر مسلمانوں کو وہاں کے دو بڑے قبائل،اوسؔ اور خزرجؔ نے خوش آمدید کہا۔ انصار کہلائے جانے والے ان قبائل نے مہاجرین کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کی مثال قائم کی۔مدینہ پہنچتے ہی نبی کریمؐ نے وہاں کے قبائل اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا، جسے ’’میثاقِ مدینہ ‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا۔ میثاقِ مدینہ نے مدینہ کے باشندوں کو ایک قوم (امت) کی صورت میں جمع کیا، جہاں ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور سب کو مل کر شہر کی حفاظت اور ترقی میں حصّہ لینا تھا۔ مدینہ میں نبی کریمؐ نے سب سے پہلے ایک مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، جو ’’مسجدِ نبوی‘‘ کہلائی۔ یہ مسجد صرف عبادت کا مرکز نہیں تھی بلکہ اسلامی ریاست کا سیاسی اور سماجی مرکز بھی بنی۔ یہاں نبی کریمؐ نے نہ صرف نمازیں پڑھائیں بلکہ لوگوں کے مسائل بھی حل کئے، تعلیم دی اور اسلامی حکومت کے امور چلائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کیا، جسے ’’مواخات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مواخات کا مقصد مہاجرین کو مدینہ میں آباد کرنا اور ان کی معاشرتی اور اقتصادی ضروریات پوری کرنا تھا۔ انصار نے اپنے گھروں، زمینوں اور وسائل کو مہاجرین کے ساتھ بانٹا اور ان کی ہر ممکن مدد کی۔ یہ اسلامی معاشرت کی ایک عظیم مثال تھی۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی کریمؐ نے عدل و انصاف پر مبنی ایک نظام قائم کیا۔ آپؐ نے قرآن مجید کی روشنی میں قوانین مرتب کئےاور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ اسلامی قوانین کے تحت سب کو مساوی حقوق دئیے گئے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ انصاف کے تقاضوں کو ہر حال میں پورا کیا جاتا تھا۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کو ابتداء میں کئی دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مکہ کے قریش اور دیگر دشمن قبائل نے مدینہ پر حملے کئے تاکہ نبی کریمؐ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں۔ لیکن نبی کریمؐ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے ایک منظم فوجی نظام قائم کیا اور اللہ کے حکم سے جہاد کا آغاز کیا۔ غزوہِ بدر، احد اور خندق جیسے معرکوں میں مسلمانوں نے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اللہ کی مدد سے فتح حاصل کی۔ مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ نے ایک مثالی اسلامی معاشرتی نظام قائم کیا۔ اس معاشرے میں سب کو حقوق حاصل تھے اور امیر و غریب، حاکم و محکوم کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ زکوٰة، صدقات اور دیگر سماجی اقدامات کے ذریعے معاشرے میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا گیا۔
نبی کریمؐ نے مدینہ کی اسلامی ریاست کو مضبوط کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کو بھی فتح کیا۔جس سے اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع ہو گیا اور عرب کے بیشتر قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔ نبی کریمؐ نے معافی اور درگزر کا اعلان کیا اور مکہ میں ایک نیا اسلامی نظام قائم کیا۔ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست نے دنیا بھر کے لئے ایک مثال قائم کی۔ یہ ریاست انسانی حقوق، انصاف اور سماجی برابری کے اصولوں پر مبنی تھی۔ نبی کریمؐ کی قیادت میں یہ ریاست ایک مثالی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی نظام کی عملی شکل بن گئی، جس نے آگے چل کر دنیا بھر میں اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ اور فخر کا باعث رہے گا۔
مدینہ میں ریاست کی تشکیل کے بعد اسلام کا پیغام تیزی سے عرب کے دیگر علاقوں میں پھیلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارد گرد کے قبائل کو اسلام کی دعوت دی اور اسلام کے اصولوں کے مطابق امن و سلامتی کے معاہدے کیے۔ اس دوران مختلف جنگوں اور معرکوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، جن میں بدرؔ، احدؔ اور خندقؔ کے معرکے نمایاں ہیں۔ لیکن یہ فتوحات صرف عسکری میدان میں نہیں تھیں بلکہ اخلاقی اور روحانی میدان میں بھی تھیں۔ دشمنوں کے ساتھ رحم دلی اور انصاف کا برتاؤ، جنگی قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور معاہدوں کی پاسداری وہ اصول تھے جو نبی کریمؐ نے دنیا کو سکھائے۔
اسلام کی ابتدا ایک چھوٹی سی جماعت سے ہوئی، لیکن نبی کریمؐ کی قیادت اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ پیغام نہ صرف جزیرۂ عرب میں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں تیزی سے پھیل گیا۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد اسلام کا پیغام دور دور تک پہنچااور مختلف معرکوں اور فتوحات کے ذریعے اسلام کا فروغ ہوا۔ نبی کریمؐ نے اسلام کا پیغام صرف عرب قبائل تک محدود نہیں رکھا بلکہ آپؐ نے دور دراز علاقوں کے حکمرانوں کو خطوط ارسال کئے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ یہ خطوط قیصرِ روم، شاہِ ایران، نجاشی اور دیگر حکمرانوں کو بھیجے گئے، جن میں اسلام کے بنیادی عقائد اور توحید کی دعوت شامل تھی۔
غزوۂ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا اہم معرکہ تھا جو ہجرت کے دوسرے سال رمضان المبارک میں پیش آیا۔ یہ معرکہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوا، جس میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد سے فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کئے اور اسلامی ریاست کو مضبوط بنایا۔ غزوۂ احد اور غزوۂ خندق بھی اسلام کی تاریخ کے اہم معرکے ہیں۔ احد کی جنگ میں مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن غزوۂ خندق میں مدینہ کے مسلمانوں نے اپنی بہترین حکمت عملی سے دشمنوں کو پسپا کر دیا۔ ان معرکوں نے مسلمانوں کو مزید مستحکم کیا اور دشمنوں کے دلوں میں اسلام کا رعب بٹھا دیا۔ہجرت کے چھٹے سال نبی کریمؐ نے قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت دس سال تک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور مسلمانوں کو اگلے سال مکہ مکرمہ میں عمرہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلمانوں کے لیے ایک کمزور موقف تھا، لیکن اس کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کو پھیلنے کا موقع ملا اور اس صلح کے بعد دو سال میں بہت سے قبائل اسلام میں داخل ہو گئے۔ ہجرت کے آٹھویں سال قریش کی صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے بعد نبی کریمؐ نے مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ مکہ کی فتح اسلامی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ نبی کریمؐ نے مکہ میں داخل ہوتے ہی معافی اور درگزر کا اعلان کیا اور تمام دشمنوں کو معاف کر دیا۔ اس فتح کے بعد قریش کے بیشتر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور مکہ مکرمہ میں اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ اسلام کا پیغام تیزی سے جزیرۂ عرب کے مختلف حصوں میں پھیلنے لگا۔ مختلف قبائل نے اسلام قبول کیا اور نبی کریمؐ نے ان کے ساتھ امن و محبت کا برتاؤ کیا۔ آپؐ نے اسلامی تعلیمات کے ذریعے انہیں ظلم، جاہلیت اور باہمی دشمنیوں سے نکالا اور انہیں ایک متحد قوم بنایا۔ غزوۂ تبوک نبی کریمؐ کی قیادت میں لڑی جانے والی آخری بڑی جنگ تھی، جو رومیوں کے خلاف ہوئی۔ یہ جنگ براہ راست نہ لڑی جا سکی، لیکن اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی طاقت کا رعب دنیا پر چھا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے شام، عراق اور فارس کی طرف توجہ دی اور وہاں بھی اسلام کا پیغام پہنچایا۔
نبی کریمؐ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین نے اسلامی ریاست کی توسیع کی اور اسلام کے پیغام کو دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچایا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اسلامی فتوحات نے شام، عراق، مصر، فارس اور شمالی افریقہ تک اپنا اثر قائم کیا۔ ان فتوحات کے دوران، مسلمانوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا، جس کی وجہ سے لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ اسلامی فتوحات کے نتیجے میں اسلامی تہذیب و تمدن دنیا کے مختلف حصّوں میں پھیل گیا۔ اسلامی تعلیمات نے مختلف ثقافتوں اور قوموں کو متاثر کیا اور اسلامی ریاستیں دنیا کے لئےامن، انصاف اور علمی ترقی کی مثال بن گئیں۔اسلام کی یہ فتوحات تاریخ کا ایک اہم باب ہیں، جو نہ صرف عسکری کامیابیوں کی نشاندہی کرتی ہیں بلکہ ان میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن، عدل اور مساوات کا درس بھی دیا گیا۔ یہ فتوحات اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنیں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں اسلام کی روشنی کو پہنچانے کا سبب بنیں۔