فاضل شفیع بٹ
اکنگام، انت ناگ
موبائیل نمبر9971444589
بیڈ روم سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ پانچ سالہ ریحان شاید نیند سے جاگ چکا تھا ۔ اس کی ماں فرحین دوڑ کے بیڈ روم میں چلی گئی اور ریحان کو اپنے سینے سے لگایا۔ باپ کے لاڑ پیار کی وجہ سے ریحان کو موبائل فون چلانے کی لت لگ چکی تھی اور ریحان اپنی ماں سے موبائل فون سے کھلینے کی فرمائش کرنے لگا۔ فرحین نے پہلے صاف منع کیا لیکن بعد میں مجبور ہو کر ریحان کے ہاتھ میں اپنا موبائل فون تھما دیا۔
گرمیوں کا موسم تھا اور سورج کا سرخ گولہ آگ اُگل رہا تھا۔ فرحین کو اپنے کپڑے بدلنے کا خیال آیا چونکہ ریحان کھیل رہا تھا اور یہ کپڑے تبدیل کرنے کا صحیح موقع تھا۔
ریحان موبائل فون کے ساتھ کیا کر رہا تھا اس بات سے فرحین بالکل بے خبر تھی۔ اس نے الماری میں سے نئے کپڑوں کا جوڑا نکالا اور کپڑے بدلنے لگی۔ ریحان اپنی ماں کی فیس بک آئی ڈی دیکھ رہا تھا اور فون پہ مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہوتے ہوتے انجانے میں فیس بُک لائیو پر ننھے ریحان کی انگلی چلی گئی۔ کمرے کا سماں کیمرے میں قید ہو کر فرحین کی فیس بک آئی ڈی سے Live جاری ہوا۔ فرحین اپنے کپڑے بدل رہی تھی اور یہ سماں سارا جہاں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور کچھ ہی منٹوں میں یہ ویڈیو Viral ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فرحین کا یہ ویڈیو دیکھ چکے تھے اور فرحین اس بات سے بالکل بے خبر تھی۔
اچانک سے اس دوران فرحین کا فون بجتا ہے۔ فون ہاتھ میں لیتے ہی دوسری جانب سے آواز آئی:
“فرحین یہ کیا کیا تم نے؟ تم اس قدر گر سکتی ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا! میں کسی کے سامنے اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ اسی وقت میرے گھر سے دفع ہو جاؤ۔ ہمارا رشتہ اب ختم ہو چکا ہے اور میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔۔۔۔۔”فرحین کے بولنے سے پہلے ہی اس کے شوہر نے غصے میں فون کاٹ دیا۔
یہ گفتگو اور مابعد طلاق کی خبرفرحین کی سمجھ سے پرے تھی؟ یہ کس بات کی سزا مل رہی تھی اس کو؟
اسی بیچ اس کے بھائی کا بھی فون آیا:
‘فرحین یہ تم نے کیا کر دیا؟ کس چیز نے تمہیں یہ سب کرنے پر مجبور کیا؟ کیا تمہیں اپنے ماں باپ کی عزت کی کوئی فکر نہ تھی؟ تم نے آج ہماری عزت کو سرِبازار نیلام کر دیا! خود کو تمہارا بھائی کہتے مجھے شرم آ رہی ہے۔۔ اب جو بھی ہوا، یہ بات یاد رکھنا کہ آج کے بعد ہمارے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی ہمارے گھر میں آنے کی جرأت کرنا”
فرحین کا بھائی تند اور تلخ لہجے میں فرحین سے مخاطب تھا۔
فرحین کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھنے لگا اور سارے جسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو ٹپک رہے تھے۔ اس نے اپنی سہیلی عارفہ کو فون کیا اور عارفہ نے سارا ماجرہ فرحین کو سنا دیا کہ کس طرح اس کے کپڑے بدلنے کا سماں ابھی کچھ دیر پہلے اس کی فیس بک آئی ڈی سے لائیو جاری تھا۔
فرحین کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ گویا اس پر ایک طرح کی قیامت ٹوٹ پڑی۔ فرحین نے اپنی فیس بک آئی ڈی سے وہ ویڈیو حذف تو کردی لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ اس ویڈیو کی بدولت بہت سارے خودساختہ صحافیوں کا جنم ہوا تھا۔ جنہوں نے اپنی اپنی چینلوں کو فروغ دینے کے لیے فرحین کا یہ ویڈیو اپلوڈ کیا تھا۔ کچھ مولویوں نے بغیر تحقیق و صبر کے بھی اپنے اپنے فتوے جاری کئے اور فیس بک مولویوں کے اندھے مرید بھی زور زور سے چیخ رہے تھے۔ عام لوگوں نے اس ویڈیو کو آگ کی طرح پھیلانے میں اپنا کردار خوب اچھی طرح ادا کیا۔ کسی نے فرحین سے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ آخر ہوا کیا تھا؟ سب لوگ فرحین کو قصور وار ٹھہرا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر فرحین کی ویڈیو ایک موضوع بحث بن گئی۔ سوشل میڈیا ہینڈلرز نے ذاتی مفاد کے لئے فرحین کے ناکردہ گناہوں کا تماشہ بنا یا۔ فرحین کی عزت کو نیلام کر دیا گیا۔
فرحین کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا گیا۔ وہ اپنے سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی اس نازک موڑ پر فرحین کا ساتھ دینے کے لئے تیار تھا۔ فرحین کے لئے سب راستے بند ہو چکے تھے اور اسے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ فرحین اپنی آنکھوں میں آنسو لیے ریلؤے ٹریک پر لیٹ جاتی ہے اور یہ سوچ سوچ کر ادھ مری ہوچکی تھی کہ آخر غلطی کس کی تھی۔۔۔؟
ریحان کی، جس کی ننھی سی انگلی غلطی کر بیٹھی یا اس کے باپ کی جس نے ریحان کو موبائل فون کا عادی بنا دیا تھا۔۔۔؟
یا اس سماج کے لوگوں کی، جنہوں نے محض اپنے مفاد کے لیے میری ویڈیو کا غلط استعمال کیا۔۔ ؟
فرحین جب بھی کچھ صفائی دینے کی کوشش کرتی تو اسے رنڈی, بے غیرت, کمینی, جھوٹی اور مکار عورت کے خطابات سے نوازا گیا۔ وہ اپنی صفائی بھی نہ دے سکی۔
فرحین کا دماغ پھٹنے لگا۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنا سر پکڑ کر خود سے ہی سوال کر رہی تھی کہ لوگوں نے میری بات سننے سے انکار کیوں کیا؟
میں اپنی نظر میں بے قصور ہوں!۔۔۔ ہاں میں بے قصور ہوں۔۔۔۔!! میرے اللہ گواہ رہنا کہ میں بے قصور ہوں۔ مجھ سے اس بات کو لیکر میرا محاسبہ نہ کرنا کہ میں نے خود کشی کیوں کی۔
دور سے ریل کی سیٹی کی آواز نے فرحین کی بے تحاشا سوچوں کو یکدم ایک لمحے کے لئے ساکت کیا۔ فرحین نے ریلوے ٹریک پہ اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے بیٹے کی تصویر کو وجود میں اتارکر اس سے مخاطب ہوئی, “ریحان۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔میں تمہاری معصوم انگلیوں پہ قربان۔ مجھے تم۔سے کوئی شکایت نہیں۔”
ٹرین برق رفتاری سے فرحین کے جسم کے اوپر سے گذر گئی اور دور جاتی ہوئی ٹرین کی آواز پیچھے ٹریک پر کوؤں اور چیلوں کی آواز کے آگے مدھم پڑ نے لگی۔