انیسا گلزار وانی
ناول کو زندگی کی کتاب کہا گیا ہے۔ زندگی کی خارجی اور داخلی صورتوں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ یکجا کر کے دیکھنے کی آرزو کے طفیل ادب میں ناول کا ظہور ہوا۔ ’’ناول ‘‘ ادب کی دوسری اصناف کی طرح ایک ایسا فن ہے جو بہت سے اجزا اور عناصر سے مل کر وجود میں آتا ہے، ان اجزا میں ہر ایک کی اپنی اپنی حیثیت اور اہمیت ہے۔اردو ناول کی تاریخ کو کوئی ایک سو چوالیس سال ہوئے ہیں۔اس طویل عرصے میں سینکڑوں ناول منظر عام پر آئے ہیںاور ناول نگاری کی ایک مستحکم روایت دیکھنے کو ملتی ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ نئی صدی کی ناول نگاری کو جن خواتین نے پروان چڑھایا ہے، ان میں زیادہ تر کا تعلق سرحد پار سے ہے۔خاص طور پر سرحد پار کی نوجوان خواتین نے ناول کے تئیں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔اکیسویں صدی میں جن خواتین نے اردو ناول نگاری کو ترقی بخشی ہے، ان میں نمرہ احمد کا نام قابل تحسین ہے،ان کی ادبی زندگی کا آغاز 2007 میں ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘سے ہوااور اسی ناول نے انہیں کافی شہرت بخشی ،اس کے بعد سے لے کر اب تک ان کے کوئی سترہ ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں ’’جنت کے پتے‘‘، ’’نمل‘‘، ’’حالم‘‘، ’’پہاڑی کا قیدی ‘‘، ’’ قراقرم کا تاج محل‘‘،’’ مہرالنسا ‘‘،’’ مصحف‘‘ وغیرہ کافی مشہور ہوئے۔
نمرہ احمد کی ہر ایک ناول کا موضوع قرآن و احادیث پر مبنی ہوتا ہے۔زیر نظر ناول ’’جنت کے پتے‘‘ میں بھی اسی موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے،جیسے کہ اس ناول کے بارے میں خود مصنفہ رقم طراز ہے کہ’’جنت کے پتے‘‘ ایک حساس موضوع پر بہت دل سے لکھی جانے والی تحریر ہے، یہ کہانی ہے اذیت سہنے والوں کی، درد اٹھا کر صبر کرنے والوں کی، جہد کرنے والوں کی، کانٹوں پہ چل کر موتی بننے والوں کی، یہ کہانی ہے اپنے مسلے خود حل کرنے والوں کی، ہر مشکل میں عزم و ہمت سے راستہ نکالنے والوں کی اور یہ کہانی ہے ان لوگوں کی جو سیدھے راستے پر چلنا تو چاہتے ہیں مگر انہیں اپنے اردگرد کوئی حوصلہ افزا تحریک نہیں مل پاتی ،جو ان کی ہمت بڑھائیے۔یہ داستان کسی کو زبردستی کسی طرف رخ کرنے پہ کبھی مجبور نہیں کرے گی مگر یہ آپ سے صرف اتنا ضرور کہے گی کہ آپ خود بھلے یہ کام کریں یا نہ کریں، مگر جنت کے پتے تھامنے والوں کے لیے کبھی اذیت و رُسوائی کا سامان نہ بنیں۔جو لوگ ان احکامات پہ عمل کرتے ہیں، ان کی ہمت بندھائیں، توڑیں نہیں،ان کو اکیلا مت کریں۔اگر کوئی اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کا پورا ماننا چاہتا ہے، تو آپ خود بھلے وہ حکم نہ مانتے ہوں، مگر ایسے لوگوں کو تنہا نہ کریں۔
احزاب کی جنگ لڑ نے والوں کے لیے بنو قریظہ نہ بنیں،ناول ’’جنت کے پتے‘‘ میں حیا سلیمان نامی ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔حیا سلیمان اسلامک یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز کی طلبہ ہے،حیا کی زندگی نے اس وقت دلچسپ موڑ لیا جب اسے ترکی کی سبانجی یونیورسٹی میں پانچ ماہ کا سمسٹر پڑھنے کے لئے وظیفہ ملا،لیکن حالات اس وقت سنگین ہوگئے جب کسی نے ایک پارٹی میں اس کی بنائی گئی نجی ویڈیو لیک کی اور اس ویڈیو کو انٹرنیٹ سے ہٹانے کے لیے وہ اور اس کی چچی زاد بہن ارم کافی کاوشیں کرتے ہیں اور آخر کار کامیابی حاصل کرتے ہیں۔سبین حیا کی ایک ہی پھوپھی تھی، اس کا شوہر سکندر شاہ اور ان کا ایک بیٹا جہان سکندرجو ترکی میں ہی تھااورجس کا نکاح حیا سے بچپن میں ہی ہوگیا ہے۔حیا بے حد خوش تھی کیونکہ وہ ترکی جارہی ہےاور جہان سے مل بھی سکتی ہے۔حیا کی یونیورسٹی فیلو خدیجہ نامی لڑکی کو بھی اسکولر شپ کے لئے منتخب کیا گیا تھا،وہ اور حیا ساتھ میں ہی ترکی جارہے تھے، دونوں کا یہ پہلا ہوائی سفر تھا، ہوائی جہاز میں ان کی ملاقات عثمان شبیر نامی شخص سے ہوتی ہےاور وہ انہیں اپنا ایک کارڈ دے جاتا ہے، جس پر اس کا ذاتی فون نمبر لکھا ہوتا ہے، وہ انہیں بتاتا ہے کہ، نماز پڑھو، قرآن پڑھو، سچ بولو، پردہ کیا کروں۔استنبول کے ہوائی اڈے پر حیا اور خدیجہ کو سبانجی یونیورسٹی کی طرف سے احمد اور چغتائی نامی لڑکے لینے آتے ہیںاور آدھے راستے میں ہالے نور نامی دوسری لڑکی بھی لینے آتی ہیںاور تینوں یونیورسٹی پہنچ جاتے ہیں، آگے ان کی ملاقات انجم نامی انڈین مسلمان اور اس کے شوہر جاوید سے ہوتی ہے، دونوں سبانجی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہوتے ہیں۔حیا اپنی پھو پھو سے ملنے جاتی ہے اور وہاں اس کی ملاقات جہاں سے بھی ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور سبین کو بھی بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔آگے ملاقاتوں کا سفر جاری رہتا ہے،ایک دن جہاں حیا کو بتاتا ہے کہ وہ ایک امیر آدمی نہیں ہے، وہ ایک معمولی سا ریسٹورنٹ اونر ہے، لیکن حیا اسے آگے کچھ بھی نہیں بتانے دیتی ہے اور اسے دلاسہ دیتی ہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ کیا ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اس کا شوہر ہے، اتنا کافی ہے۔حیا اور جہاں ایک دوسرے سے کافی محبت کرنے لگے تھے، وقت گزرتا چلا گیا۔حیا چونکہ ایک عام سی لڑکی تھی، سادہ تھی،لیکن پردہ نہیں کرتی تھی، قرآن بچپن میں پڑھا تھا، ٹاپ اور جینز میں ملبوس رہتی تھی، لیکن فرمانبردار اور خاندان کی عزت کا خیال رکھنے والی لڑکی تھی ۔ایک دن خدیجہ کے سر میں تیز درد اٹھا اور اسے ہسپتال شفٹ کیا گیا، وہاں پتہ چلا کہ اس کے سر میں ٹومر (tumour) پھٹ گیا ہے اور خدیجہ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔یہ واقعہ حیا کی زندگی میں ایک انقلاب لاتا ہے۔ سب سے اہم بات وہ اللہ تعالیٰ کے قریب آگئی ،وہ جہاں سے کہتی ہے کہ انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لیں۔وقت بدلتا گیا، حیا جہاں کی وجہ سے اس صدمے سے باہر آرہی تھی، لیکن اس کہانی میں(turning point) تب آتا ہے، جب وہ سبین پھوپھی سے ملنے جاری ہوتی ہے اور اسے استنبول سے اغوا کرکے (smuggle) کیا جاتا ہے ، جہاں اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہوتا ہے، وہ جسمانی تشدد کی شکار بھی ہو جاتی ہے، لیکن خوش قسمتی سے جہاں اس کی جان بچا کر اسے (princess island) بھیجتا ہے،وہاں حیا کی ملاقات دو بہنوں عائشہ گل اور بہارے گل سے ہوتی ہے، عائشہ کی عمر سترہ سال کی اور بہارے کی عمر سات سال کی ہوتی ہے، اور یہاں حیا کو وہ سب کچھ ملتا ہے، جس کی بندے کو تلاش ہوتی ہے۔عائشہ کی صحبت میں وہ سب کچھ پالیتی ہے، جس کی اسے کمی ہوتی ہے، عائشہ کی ایک بہت ہی پیاری عادت ہوتی ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی اور اللہ تعالیٰ پر بے انتہا توکل رکھتی ہے، اس کی صحبت میں حیا کی زندگی بدلنے لگتی ہے، حیا اب پردے کی طرف مائل ہورہی ہوتی ہے، اب وہ گھر سے باہر نکلتی تو پردے میں ہوتی، خود کو پردے میں کافی اطمنان پاتی تھی ۔اُس نے حجاب کے ساتھ اب نقاب لینا بھی شروع کیا تھا، اس میں حیا کو کافی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کھبی میجر احمد کا سہارا اسے مضبوطی سے حجاب پر قائم رکھتا ہے، یہ وہی میجر احمد ہے، جس نے حیا کی نجی ویڈیو انٹرنیٹ سے ہٹائی تھی اور اس نے حیا سے کہا تھا کہ اگر آپ کو کوئی ’’جنت کے پتے‘‘ دے گا تو اس کی قدر کیجئے گا، لیکن وہ ان باتوں سے بے خبر تھی ۔عائشہ اسے کہتی تھی کہ، پردے کا ذکر سورۃ احزاب میں اس لئے آیا، کیونکہ خندق کا واقعہ اس میں آتا ہے، مطلب جب عورت پردہ کرتی ہے تو اسے اپنے ارد گرد بہت سارے خندق کھودنے پڑتے ہیںکیونکہ حجاب پہننا، جنگ خندق کو دعوت دینا ہے،جیسے کہ احزاب میں کوئی جنگ نہیں ہوئی بلکہ وہ آپکی persistency کی جنگ تھی ۔اسی طرح اس جنگ میں بھی آپ کے صبر اور ایثار کا امتحان لیا جاتا ہے اور ایک دن آپ بغیر کچھ کھویے، بغیر کسی محاذ پر لڑے، بغیر کسی نقصان کے یہ جنگ جیت جاتے ہیں۔ ایک آیت زندگی بدل دیتی ہے، بس ایک آیت۔جیسے کہ حیا کی زندگی بدل گئی ۔میجر احمد حیا سے کہتا ہے کہ ’’مجھے جنت کے ان پتوں نے دنیا والوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔‘‘ لیکن حیا اللہ تعالیٰ آپ کو کھبی رُسوا نہیں کرے گا! جنت کے پتے تھامنے والوں کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہیں کرتا۔کیا مطلب میجر احمد؟ آپ جنت کے پتے کسے کہتے ہیں۔
آپ جانتی ہیں، جب آدم علیہ السلام اور حوا جنت میں رہا کرتے تھے، اس جنت میں جہاں انہیں سب میسر تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ترغیب دلاتے درخت کے قریب جانے سے روکا تھا تاکہ وہ دونوں مصیبت میں نہ پڑ جائیں، اس وقت شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ اگر وہ اس درخت کو چکھ لے تو وہ فرشتے بن جائیںگے، انہیں کھبی نہ پرانی ہونے والی بادشاہت ملے گی ،سو انہوں نے درخت کو چکھ لیا، حد پار کر لی، تو ان کو فوراً بے لباس کر لیا گیا، اس پہلی رسوائی میں انسان نے خود کو جس چیز سے ڈھکا تھا وہ ’’جنت کے پتے ‘‘ تھے، ورق الجنتہ۔۔۔جنت کے پتے صرف اسی کو ملتے ہیں، جس نے ترغیب کو چھکنے کی کوشش کی ہوتی ہے اور ان کا سفر ان کو خود پہ لگا لینے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا ہے، کیونکہ ان کو تھامنے سے پہلے انسان جنت میں ہوتا ہے، تھامنے کے بعد وہ دنیا میں اُتار دیا جاتا ہے، اسے بخشش مل جاتی ہے، مگر دنیا شروع ہوجاتی ہےاور پھر۔حیا میجر احمد کی ان باتوں پہ غور و فکر کرنے لگتی ہے، وہ دین کے قریب تر ہو جاتی ہے، وہ اپنے مسائل خود حل کرتی ہے۔
ناول میں (climax) تب آتا ہے جب حیا کا بھائی روحیل امریکہ میں شادی کر لیتا ہے، وہ لڑکی بدھسٹ ہے اور اپنا مذہب نہیں چھوڑنا چاہتی اور روحیل اس کو نہیں چھوڑنا چاہتا، سلیمان صاحب کو یہ سب سن کر دل کا شدید ترین دورہ پڑتا ہےاور ان کی حالت تشویشناک ہوجاتی ہے ۔سلیمان صاحب رفتہ رفتہ صحت یاب ہورہے تھے، روحیل بھی اپنی بیوی کو گھر لے آیا تھا، گھر کا ماحول کافی حد تک خوش گوار ہوگیا تھا،اب حیا اور جہان کا نکاح ہونے والا تھا۔ایک دن جہان حیا سے کہتا ہے کہ، ’’تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ ‘‘حیا کہتی ہے یہ کہ ’’میں ایک کتاب لکھوں، جس میں قرآن کی آیات کے رموز پہ غور کروں،لفظوں میں چھپی پہیلیوں کو سلجھائوں،ان کے نئے نئے مطلب آشکار کروں،کہتےہے نا قرآن کہ اس میں نشانیاں ہیں، مگر ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں،میں بھی ان میں سے بننا چاہتی ہوں۔‘‘ان سب آزمائشوں کے بعد جہان حیا سے شادی کرلیتا ہے اور ان کی خوبصورت سی بیٹی ہوتی ہے، جس کا نام حیا اپنی کھوئی ہوئی سہیلی کے نام پر ’’خدیجہ‘‘ رکھتی ہے۔
الغرض 15 ابواب اور 568 صفحات پر مشتمل یہ بہترین ناول 2014 میں شائع ہوا اور اردو ادبی دنیا میں کافی مشہور ہوا۔’’جنت کے پتے ‘‘مشرقی اقدار کا ایسا گلستان ہے جس کی سیر کر کے ہماری نئی نسل اپنی زندگی کےگلستان کی زینت کو سنوار سکتے ہیں ۔یہ ناول نئی نسل بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے۔
(حبک نسیم باغ سرینگر )
[email protected]