شیخ عابد حسین
مرزا محمد ہادی رسوا اردو ناول نگاروں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں جس کی وجہ ان کی ایک شہکار ناول ’’ امراو جان ادا ‘‘ ہے جو انہوں نے 1899 میں لکھا ہے، یہ ایک نفسیاتی ناول ہے اور جسے اردو ادب کا مکمل ناول بھی مانا جاتا ہے۔ اس ناول کی انفرادیت کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ اس پر کئی فلمیں بھی بنی ہے جو کہ اس کی مقبولیت کی واضح مثال ہے۔ ہادی رسوا کا اصل نام محمد ہادی اور رسوا تخلص تھا 1858 میں لکھنومیں پیدا ہوئے والد کا نام محمد تقی تھا جو آصف الدولہ کی فوج میں اعلیٰ مقام پر مفائز تھے ،رسوا نے اپنی بنیادی تعلیم والد محمد تقی سے حاصل کی بعد میں محمد یحیٰ اور کماالدین سے بھی فیض یاب ہوئے۔1880 میں فلسفہ میں بی اے کیا اور پھراور نیٹل یونیورسٹی امریکہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔مرزا رسوا ایک مترجم بھی تھے اور انہوں نے دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں بحیثیت مترجم اپنے فرائض انجام بھی دئے۔ رسواؔ شاعری بھی کرتے تھے شاعری میں مرزا دبیر سے اصلاح لیتے تھے لیکن ناول نگاری کے میدان نے انہیں کافی مقبولیت دی، اگر چہ ان کی کئی ناولیں منظر عام پر آگئی ہیں لیکن ایک ناول ’’امراؤ جان ادا ‘‘ نے انہیں زندہ جاوید بنا دیا اس کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے۔’’امراو جان ادا‘‘ اُن کا لکھا ہوا ایک لازوال نفسیاتی ناول ہے جس میں لکھنوی تہذیب کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔یہ ایک بوڑھی عورت کی کہانی ہے جس نے آٹھ سال کی عمر سے بڑھاپے کی عمر تک اپنی زندگی طوائفوں اور کوٹھوں میں گزاری ہے، یہ عورت شاعرہ بھی ہے اور شاعرانہ لہجے میں اس بات کو تسلیم بھی کرتی ہے ۔
کس کو سنائیں حال دل زور اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
تنقیدی نقتہ نظر سے اس ناول کے بارے میں ناقدین نے مختلف خیالات پیش کئے ہیں جن میں اکثر کہا گیا ہے کہ یہ ایک رنڈی کی کہانی ہے جسے وہ خود اپنے منہ سے بیان کرتی ہے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کہانی مصنف نے اپنے تخیل کی مدد سے بنائی ہے جس میں سماجی عکاسی بڑے موثر طریقے سے کی گئی ہے اس پر تخیل کا نہیں بلکہ حقیقت کا شبہ ہوتا ہے۔علی عباس حسینی نے اپنی کتاب ’’ ناول کی تاریخ و تنقید ‘‘ میں امراو جان ادا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’کہ یہ ایک رنڑی کی کہانی اسی کی زبانی ہے ۔‘‘اختر انصاری اور خورشید الاسلام نے تقریباً ایک جیسا خیال پیش کیا ہے اور ” امراو جان ادا ” کا موضوع لکھنو کا معاشرتی زوال قرار دیا ہے ۔
ناول امراؤجان ادا کے موضوع کے حق میں ناقدین نے جو بیانات دئے ،وہ ٹھیک ہے اور مثبت بھی ہے البتہ امراو جان ادا کے بارے میں تقریباً تمام خیالات منفی ہیں۔ ناقدین نے امیرن نامی لڑکی کے ان تمام واقعات کو نظر انداز کیا ہے جن سے وہ اپنے بچن سے لے کر جوانی تک گزر چکی ہے اور اسے پیدایشی طوائف قرار دے کر اس کی کمزوی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ میرے فہم کے مطابق ’امراو جان ادا ‘ کی کہانی ایک باحیا عورت کی کہانی ہے، جسے اپنے ہی سماج نے کمزور سمجھ کر طوائفوں کے ساتھ جوانی گزارنے پر مجبور کیا ہے۔اگرچہ امراو جان خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ اس نے زندگی طوائفوں میں گزاری ہے پھر بھی پورے ناول میں خود کو طوائف ہونے کا اقرار نہیں کرتی ہے۔ اگر امراو جان واقعی طوائف ہوتی تو وہ مرزا ہادی رسوا کو یہ کہنے پر مجبور نہیں ہوجاتی؎
سن چکے حال دل تباہی کا میری اور سنو
اب تمہیں کچھ میری تقریر مزا دیتی ہے
یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر اسے کسی کام کے کرنے میں کوئی شوق نہیں ہوتا ہے پھر اسے وہی کام کرنے پر مجبور کیا جائے تو میرے نزدیک وہ انسان بے گناہ ہے ،کیوں کہ ہر وہ کام چاہے اچھا ہو یا برا، تب تک انسان نہیں کرتا جب تک کہ اس کام کے ساتھ اس کی دلی تمنا نہ ہو وہی معاملہ میرے نزدیک امراو جان ادا کا ہے۔
دراصل ناول ’امراو جان ادا‘ کا ماخذ 1857 کی جنگ آزادی سے پیدا شدہ صورتحال اور لکھنو کی بگڑی ہوئی تہذیب سے لیا گیا ہے اس کے دو وجوہات ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مصنف کی پیدائش 1857 کی جنگ آزادی کے ایک سال بعد یعنی 1858 میں ہوئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں مصنف نے لکھنؤ جیسی پر سکون جگہ میں عیش و عشرت دیکھا ہوگا وہیں 1857 کی جنگ آزادی سے دلی میں پر آشوب حالات کو کافی گہرائی سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہوگا ۔مصنف نے لکھنوی زندگی اور دلی کی ابتری کے زرے زرے پر بڑی باریکی سے سوچا ہوگا۔جہاں مصنف نے دلی کے سماجی ،سیاسی، تہذیبی ،معاشی صورتحال پر غور کیا ہوگا وہیں عورتوں کے ساتھ ہورہا استحصال پر بھی سوچا ہوگا ،کس طرح عورتوں کی عصمت دری کی گئی کس طرح انہیں حراساں گیا، ہزاروں عورتوں کو بے گھر کیا گیا۔دوسری جانب دلی کے اجڑنے سے اکثر لوگ لکھنؤ کوچ کرگئے جن میں ادب نواز لوگ بھی موجود تھے کیوں کہ لکھنؤ ان دنوں سب سے پرسکون جگہ سمجھی جاتی تھی۔ 1857 کی تباہی نے دوسرے شہروں کو ابھی تک متاثر نہیں کیا تھا تو لکھنؤ پر بھی اس کے اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے ،لکھنؤ میں بادشاہی نظام ان دنوں شباب پر تھا، بادشاہ لوگ بڑے بڑے دربار سجاتے تھے موسیقی ،رقص ،ناچ گانوں کے بڑے شوقین تھے شعرا حضرات بھی اپنا کلام ان محفلوں میں سناتے تھے۔ مصنف بھی ان ہی شعرا میں شمار تھے ،شعرا کی شاعری میں عورت ایک اہم موضوع تھا اتنا ہی نہیں وہ اپنے کلام میں عورتوں کے کسی بدن کے اجزا کو اجاگر کرتے تھے ،اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو دربار کا اہم جز سمجھا جاتا تھا، ان کے بدن کی نمائش مفت میں کی جاتی تھی، ان کی نظروں میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، کھلونا سمجھ کر انہیں تھوڑے پیسوں کے عوض خریدا جاتا تھا، انہیں عورت کم طوائف زیادہ سمجھا جاتا تھا،انہیں محض رقص و موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی اور آداب محفل سکھائے جاتے تھے جس کی مثال ناول میں اس طرح دی گئ۔
فیض آباد کے ایک نہایت شریف اور ایماندار جمعدار ایک نہایت شریر غنڈہ دلاور خان کے جرائم سے متعلق عدالت میں سچی گواہی دیتا ہے ،جس کے نتیجے میں غنڈہ دلاور خان کو بارہ سال کی قید ہوجاتی ہے۔ قید سے رہائی کے بعد دلاور خان جمعدار سے بدلہ لیتا ہے اور اس کی آٹھ سال کی بیٹی امیرن کو اغواء کرتا ہے ،دلاور خان امیرن کو قتل کرنے کے بجائے اپنے دوست پیر بخش کے کہنے پر امیرن کو لکھنؤ لے جا کر ایک نائکہ خانم جان سے سوا سو روپے میں بیچ دیتا ہے، خانم جان امیرن جیسی معصوم لڑکی کو رقص و موسیقی کی تعلیم دیتی ہے اور آداب محفل سکھاتی ہے، اس طرح امیرن نام کی معصوم لڑکی امراو جان ادا بن جاتی ہے۔
ناول میں امیرن نامی لڑکی کو مرزا رسوا نے عورتوں کی نمائندہ بنا کر پیش کیا ہے جو عورتوں کی بدحالی اپنی ہی زبان سے پیش کرتی ہے۔ امیرن کا جنم ایماندار جمعدار کے گھر میں ہوا تھا ظاہر ہے کہ والدین کی اس ایمانداری سے امیرن کو اچھی صحبت ملی ہو امیرن کی پرورش بڑے لاڈ و پیار سے ہوئی تھی، ماں باپ نے ہر طرح کی سہولیات میسر رکھی تھی وہ اپنی زندگی اسی پر سکون ماحول میں گزارنا چاہتی تھی لیکن والد کی ایمانداری کو سماج نے آڑے ہاتھوں لیا، اسے اغواء کر کے اسے تھوڑے پیسوں میں بیچ کر اسے طوائفوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کیا اور بعد میں اسی سماج نے امیرن کو پیدائشی طوائف قرار دیا جو کہ پورے سماج کے لئے کسی زلت سے کم نہیں ۔
ناول میں نائکہ خانم جان کی بیٹی بسم اللہ جان کا ذکر خود امیرن نے کیا ہے اور کہا کہ وہ ایک پیدائشی طوائف تھی جو ہر کسی کو اپنے عشق میں گرفتار کرتی تھی ،طوائف کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے مردوں کو آزما لیتی ہے۔ ناول میں امیرن نے تین بار عشق لڑانا چاہا، ویسے عشق لڑانا کوئی گنا نہیں ہے۔ قدرت نے عورتوں میں یہ خوبی رکھی ہے کہ یہ جسے چاہتے ہیں دل و جان سے چاہتے ہیں اس معاملے میں ہم کسی کو طوائف نہیں کہہ سکتے طوائفوں کا سچے عشق سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ امراو جان نے پہلے گوہر مرزا کو چاہا وہاں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا پھر سلطان مرزا کو چاہا وہ بھی کسی اور کے ہوگئے آخر پر جب ڈاکو فیضو کو چاہا وہا ںبھی ناکامی کا منہ دیکھا پڑا۔ امیرن کے عشق لڑانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سچی محبت کی طلب گار تھیں، وہ محض کسی ایک مرد کو خود کے لئے کافی سمجھتی تھی اور اپنی ایک الگ زندگی بسر کرنا چاہتی تھی، پر وہ اس معاملے میں ناکام رہی ۔آٹھ سال کی عمر سے جوانی تک کے سفر میں امیرن نے کبھی خود کو طوائف کے لائق نہیں سمجھا،سمجھتی بھی کیسے آٹھ سال کی عمر میں ایک لڑکی طوائف بننے کا کیسے سوچ سکتی۔
ناول نگار نے اس بات کے اور اشارہ کیا ہے کہ کس طرح دوسرے شہروں کے مقابلے میں لکھنؤی تہذیب بگڑی ہوئی تھی کس طرح عورتوں کو کم تر سجھ کر انہیں ہر ممکن رسوا کرنے کی کوششیں کی جاتی تھی جس کی مثال ناول میں اس طرح ہے۔
مرزا رسوا صاحب! جو باتیں آپ مجھ سے پوچھتے ہیں ان کا میری زبان سے نکلنا سخت مشکل ہے یہ سچ ہے کہ رنڈیا بہت بے باک ہوتی ہیں مگر زمانہ خاص ہوتا ہے۔
سنِ کا تقاضا بھی کوئی چیز ہے،جوش جوانی کی وجہ سے جو باتیں اپنی حد سے گزر جاتی ہیں سنِ اتر کر ان میں کمی ضرور ہونا چاہیے تاکہ اعتدال قائم رہے آخر رنڈیا عورت ذات ہے، ان باتوں کے پوچھنے سے آپ کو کیا فائدہ؟
1857 کی دلی کی تباہی سے بچنے کے لئے جو عورتیں لکھنؤ کوچ کر گئیں تو ان کو بھی لکھنؤ کی تہذیب کے رنگ میں رنگنا پڑا،آخر پر جب لکھنؤ شہر بھی 1857 کی بغاوت کا شکار ہوگیا تو یہی امیرن نامی لڑکی اپنے اصل وطن فیض آباد پہنچ گئی اور اپنی ماں سے ملی تو ماں نے گلے لاگایا کیوں کہ ماں سب جانتی تھی ،بھائی نے قتل کرنا چاہا پر حقیقت سن کر وہ بھی افسوس کرنے لگا۔
(ایم اے اردو کشمیر یونیورسٹی )