سیما کماری، بہار
’’دیدی، ہمیں بھی پڑھنا بہت پسند ہے، لیکن میری ماں اور پاپا مجھ اسکول نہیں جانے دیتے، وہ کہتے ہیں کہ پڑھ کر اچھا کرو گے، تم کھانا پکانا سیکھو گی تو تمہارے سسرال میں کام آئے گا۔ اگر تم گھر کے کام نہیں سیکھو گی تو تمہارے سسرال والے ہمیں برا کہیںگے، تم ہی بتاؤ دیدی کیا ہم لڑکیاں صرف سسرال کی خدمت کے لیے پیدا ہوتی ہیں کیا؟ہماری کوئی خواہش نہیں ہے؟ وہ میرے بھائی کو پرائیویٹ اسکول بھیجتے ہیں لیکن مجھے سرکاری اسکول جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں۔‘‘ یہ 16 سالہ سمن کے مشکل سوالات تھے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ سمن ایک نوعمر لڑکی ہے جو بہار میں گیا ؔضلع کے کیشاپی گاؤں میں رہتی ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 633 خاندان رہتے ہیں۔ جن کی کل آبادی 3900 کے لگ بھگ ہے۔ اتنی آبادی والا یہ گاؤں 11ٹولوں (بستی)میں تقسیم ہے۔ درج فہرست ذات کی اکثریت والے اس گاؤں میں تقریباً 1600 درج فہرست ذات اور دیگر پسماندہ طبقے کے خاندان رہتے ہیں۔ زیادہ تر خاندان کاشتکاری سے وابستہ ہیں۔ جن کے پاس قابل کاشت زمین نہیں ہے وہ روزگار کے دوسرے ذرائع پر منحصر ہیں۔ زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے دہلی، کولکتہ، ممبئی، سورت اور گروگرام چلے جاتے ہیں۔ کیشاپی ڈیہح گائوں میں خواندگی کی شرح تقریباً 58 فیصد ہے۔ اس میں خواتین کی شرح خواندگی 17 فیصد ہے۔ یہ فرق شرح خواندگی میں ہی نہیں سوچ میں بھی نظر آتا ہے۔ یہاں کا دیہی معاشرہ صنفی امتیاز سے پاک نہیں ہے۔ گاؤں سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ جیوتی کہتی ہے،’’ہم لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کا امتیازعام ہے۔ ہمارے والدین کو ہماری تعلیم سے زیادہ گھر کے کام سکھانے کی فکر ہوتی ہے۔ وہ تعلیم کی اہمیت نہیں جانتے، اسی لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں موقع ملے تو ہم لڑکیاں بھی دکھا سکتی ہیں کہ ہم لڑکوں سے کم نہیں ہیں۔‘‘
6ویں کلاس میں پڑھنے والی سونی پاسوان کہتی ہیں،’’میں نے اسکول میں داخلہ لیا ہے لیکن مجھے اسکول جانے کی اجازت کم ہی ملتی ہے۔ ماں کہتی ہے کہ تم اسکول جاؤ گی تو چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال کون رکھے گا؟ گھر کا کام کون کرے گا؟‘‘ وہ بتاتی ہے کہ اس کے والدین یومیہ اجرت پر مزدور ہیں۔ وہ روزانہ صبح کام پر جاتا ہے اور شام کو دیر سے واپس آتے ہیں۔ ایسے میں سونی پر اپنے چار چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور کھانا پکانے کی پوری ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب بھی اسے موقع ملتا ہے، سونی، جو بڑی ہو کر ٹیچر بننے کا خواب دیکھتی ہے، پڑھنے بیٹھ جاتی ہے۔ یہ صورتحال صرف سمن، جیوتی یا سونی کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ اس گاؤں کی تقریباً تمام نچلی ذات کی لڑکیوں کے ساتھ ہے۔ انہیں اسکول جانے کے بجائے گھر پر رہنا پڑتا ہے اور گھر کے کام کرنے اور اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ کئی بار والدین زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے انہیں مزدور کے طور پر کام پر بھی لے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف اسی کمیونیٹی میں لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے، انہیں مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جبکہ لڑکیوں کو کسی اور کی دولت سمجھ کر تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے وہیں دوسری طرف لڑکے کو نسل کا وارث سمجھا جاتا ہے۔
تاہم اسی گاؤں میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے کچھ گھر ہیں جہاں کی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ تقریباً تمام اونچی ذات کی لڑکیاں اسکول اور کالج جاتی ہیں۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ والدین انہیں لڑکوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ لیکن شعور کی کمی کی وجہ سے آج بھی نچلی ذات کے لوگوں میں تعلیم کے تئیں بے حسی پائی جاتی ہے۔ والدین کو لڑکیوں کو پڑھانے سے زیادہ گھر کے کام سکھانے کی فکر ہوتی ہے۔ نچلی برادریوں کی ان لڑکیوں کو دوہرے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 9ویں کلاس میں پڑھنے والی روشنی کہتی ہیں۔’’جب بھی ہم اسکول جاتے ہیں تو اونچی ذات کے اساتذہ نہ صرف ہمارا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک بھی کرتے ہیں۔ اساتذہ کہتے ہیں کہ تم لڑکیاں پڑھ کر کیا کرو گی؟ کون سے کلکٹر بنو گی؟‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اسکول میں ہمارے لیے پانی کا الگ انتظام کیا گیا ہے۔ ہمیں اونچی ذات کی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی مختلف ہے۔ ایک بار ایک لڑکی نے ضرورت کے لئے اعلیٰ ذات کے نل سے پانی نکالا تو ایک استاد نے اسے بُری طرح مارا، جس کے نتیجے میں اس کا بازو ٹوٹ گیا۔ لیکن اس کے غلبے کی وجہ سے کسی کو اس کے خلاف شکایت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔“
تاہم، بہار حکومت لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے بہت سی اسکیمیں چلا رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ درج فہرست ذات اور پسماندہ طبقے کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کئی طرح کی خصوصی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اس کمیونٹی میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے منفی رویہ اس کی اہمیت کو کمزور کرتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایسی سوچ دراصل شعور کی کمی کی وجہ سے ہے۔ ایسے میں اسکیموں کو چلانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو گاؤں میں والدین کے ساتھ بیداری مہم بھی چلانے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صنفی امتیاز نہ صرف لڑکیوں کی ہمہ جہت ترقی میں رکاوٹ ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی رکاوٹ ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ یا ملک آدھی آبادی کو نظر انداز کر کے ترقی یافتہ نہیں بن سکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)