افتخار اے درابو
کچھ عرصہ پہلے، میں نے سوشل میڈیا پر یوٹریکٹ (ہالینڈ) شہر میں ایک نہر کی تصویر شیئر کی تھی،جس کے کچھ حصوںکو 1970 کی دہائی میں پختہ ( کنکریٹ) کرنے کے بعد حال ہی میں بحال کیا گیا تھا۔اس نہر (دراصل ایک کھائی)کو Catharijnesingel کہا جاتا ہے، جو 11ویں صدی کی ہے۔اس نہر کو 70 کی دہائی میں شہر کے شاپنگ ڈسٹرکٹ تک بہتر رسائی فراہم کرنے کیلئے 12 لین والی موٹر وے کو کار آمد بنانے کے لئے پختہ کیا گیا تھا۔ 40 سال سے زائد عرصے کے بعد اس قصبے کے لوگوںنے ایک ریفرنڈم کے ذریعے سڑکوں کے بجائے آبی گزرگاہوں کو بحال کرنے کے حق میں ووٹ دیا جس کے نتیجے میں900 سال پرانی نہر کو بحال کیاگیا اور اب یوٹریکٹ کے قصبے نے نہر کی بحالی کا جشن منایا۔
چنانچہ مجھے اپنی پوسٹ بعنوان ’نالہ مار کی قیامت؟‘ کے فوراً بعد ’نالہ مار ایریا کی ترقی کی تکنیکی رپورٹ‘ نظر آئی،جو دستاویز انجینئر غلام حسن خان، ریٹائرڈ چیف انجینئر کے ذاتی خزانے میں محفوظ تھی۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ انجینئر خان وادیٔ کشمیر کے پہلے انجینئرنگ گریجویٹس میں سے تھے۔ اْنہیں اپنی انجینئرنگ ذہانت کے لئے جانا جاتا تھا اور اْن کاوادی کشمیر میں انجینئرنگ کے کچھ ممتاز پروجیکٹوں (بشمول ایس ایم ایچ ایس ہسپتال، سری نگر) کے ڈیزائن، انجینئرنگ اور عمل درآمد کے لئے اہم کردار تھا۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ لوگ اب بھی نالہ مار کے بارے میں مزید جاننے ، اس کی بھرائی کی وجوہات، نالہ مار سڑک کی تعمیر اورمتذکرہ بالااتریکٹ نہر (کھائی)کی طرح اس کے دوبارہ بحال ہونے کے امکانات میں دلچسپی رکھتے ہیں، میں نے نالہ مارپر سلسلہ وار مضمون کو تحریرکرنا مناسب سمجھا جو اس کے مختلف پہلوئوں کو گرفت میں لیتے ہوئے اس انتہائی زیر بحث منصوبے سے متعلق کچھ تنازعات کا جواب دینے کی بھی کوشش کریں گے۔
نالہ مار:۔ پرانے شہر کے بنیادی ڈھانچے میں ایک بڑی مداخلت جو خاص طور پر شہر خاص یعنی سری نگر کے بزرگ شہریوں تقریباً 50 سال گذر جانے کے بعد بھی پریشان کرتی ہے۔،وہ نالہ مار کی حکومت کی طرف سے بھرائی ہے ۔
مار، جیسا کہ اسے مقامی طور پر یاد کیا جاتا ہے، ایک آبی نہرتھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے زین العابدین(بڈشاہ) نے 1500 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا۔ یہ آبی گزرگاہ بابا ڈیمب کوخوشحال سر جھیل سے اور پْرانے شہر کے مغربی کنارے پر واقع نورباغ کے علاقہ وانی یار کے قریب جہلم سے ملاتی تھی۔ سری نگر کا پرانا شہر درحقیقت نالہ مار کے دونوں طرف چند میل کے فاصلے پر پروان چڑھا ہے۔
ان پچھلی چھ صدیوں میں نالہ مار شہر خاص میں زندگی کا جزو لاینفک بن چکاتھا۔ شہر میں گاڑیوں کی مناسب نقل و حمل کی عدم موجودگی میں نالہ مار کونہ صرف آبی نقل و حمل کیلئے استعمال کیا جاتا تھا بلکہ اناج کی پیدوار، ضروریات زندگی کی چیزوں اور تعمیراتی سامان وغیرہ کی گھاٹوں تک بہم رسائی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نقل و حرکت اور راحت و فرحت کیلئے استعمال کیاجاتا تھا۔ اسے ایک تیرتی سبزی منڈی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ڈل جھیل کی تازہ پیداوار کی خرید و فروخت نالہ مار میں تیرتی کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ مار کے پانی کو پینے، نہانے اور وضو کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ مار کے ساتھ والے گھاٹ گپ شپ کے مشہور مراکز تھے۔
نالہ مار غیر ملکی سیاحوں میں بھی بہت مقبول تھا جو پرانے شہر کو دیکھنے اور اپنی خریداری کرنے کیلئے کشتی پر سوار ہوتے تھے۔ سیاحوں سمیت لوگ براری نمبل جھیل سے گاندربل (اور یہاں تک کہ وْلر جھیل تک) آنچار جھیل کے راستے جاتے تھے۔ کشمیر کے پنڈت یاتری اسی آبی گزرگاہ کی نقل و حمل کو گاندربل میں کھیر بھوانی مندر جانے کے لئے استعمال کرتے تھے اور مسلمان زائرین اسے گاندربل کے قریب قمر صاحبؒ کے عرس میں شرکت کے لئے استعمال کرتے تھے۔
بہت سے سیاحوں نے نالہ مار کی تصویریں بنائی ہیں اور بعد میں 19ویں صدی میں کیمرے کی آمد کے بعد کشمیر کا دورہ کرنے والے یورپیوں نے مار کی تصاویر کھینچی تھیں۔ ہماری خاندانی کہانیوں میں سے ایک فرانسیسی سیاحوںکا ذکر ہے جو ایک کشتی میں عیدگاہ کے قریب ناروارہ تک پشمینہ خریدنے آتے تھے۔ لہٰذا، نالہ مار ایک طرح سے پائین شہر یا خود سری نگر کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ تھا کیونکہ اس وقت یہ شہر صرف پرانے شہر تک ہی محدود تھا۔
نالہ مار کے زوال کا آغاز:۔نالہ مار کے نابودہونے کی متعدد وجوہات ہیں جو کہ مختلف طریقوں سے نالہ مار کے زوال کا باعث بنی ہیں۔ 1950 کی دہائی کے اوائل تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا تو اسی اثناء میںاْسی دور کی حکومت میں ڈل جھیل کے پانی کو چھوڑنے کیلئے نالہ امیر خان میں بہت گہرا کٹ لگایاگیاتاکہ1950میں آئے سیلاب کے پانی کوڈل جھیل سے آنچار جھیل میں چھوڑا جاسکے۔ نالہ امیر خان میں اس گہرے کٹائو کے نتیجے میں ڈل جھیل میں پانی کی سطح اپنے معیاری آپریٹنگ لیول سے کافی نیچے گر گئی۔ اس کے نتیجے میں ڈل اور نگین جھیلوں کے اطراف میں زمین کے بڑے پیمانے پرخشکی نمودار ہوئی۔ اس اراضی پر فوری طور پر قبضہ کر لیا گیا اور اْس وقت کی حکومت نے ڈل میں پانی کی سطح سیلاب سے پہلے کی سطح تک لیجانے کیلئے نالہ امیر خان میں کٹ (کھدائی )کو واپس نہ بھرنے کے دبائوکے سامنے گھٹنے ٹیک دِیئے۔ اس طرح ڈل جھیل میں پانی کی سطح اس کی معیاری آپریٹنگ سطح سے بہت کم سطح پر برقرار رہی۔
ڈل جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے کے نتیجے میں ڈل جھیل، باب ڈیمب اور نالہ مار کے درمیان پانی کی سطح میں فرق کم ہوگیا۔ پانی کی سطح میں اس کمی کے ساتھ ڈل کے درمیان فرق آنے سے باب ڈیمب میں پانی کی رفتار اور باب ڈیمب جھیل میں پانی کے اخراج میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔ نتیجتاً نالہ مار میں پانی کا اخراج کم سے کم تر ہوا اور یہی نالہ مار کے سڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ڈل جھیل میں پانی کی کم سطح کو برقرار رکھ کر رائے دہندگان کے ایک مخصوص طبقے کو خوش کرنے کی اُس سیاست کو نالہ مار کے زوال کا سب سے زیادہ واحد اوراہم عنصر سمجھا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ، سڑک کے بہتر رابطے اور گاڑیوں کی نقل و حمل میں تیزی سے اضافے کے ساتھ، نالہ مار نے نقل و حمل کے ایک مقبول ذریعہ کے طور پر اپنی افادیت کھونا شروع کر دی۔ مار میں کم خارج ہونے والے پانی نے مار کے لئے معاملات کو مزید خراب کر دیا اور اس میں آبی نقل و حمل بہت مشکل ہو گئی۔ آخر کارمار کے ذریعے آبی ٹرانسپورٹ کو آہستہ آہستہ ترک کر دیا گیا۔
ایک اور ترقی جس نے مار کی صحت کو بْری طرح متاثر کیا، وہ جدید سینیٹری سسٹم کا تعارف تھا۔ پرانے شہر میں روایتی گڑھے والی لیٹرینیں تھیں جن میںانسانی فضلہ جمع رہتا تھا،جس میں غذائیت سے بھرپور مواد ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مانگ تھی،اس فضلہ کو ملیاری (سبزیاںاْگانے والے)بطور کھاد زمین میں استعمال کرنے کیلئے باقاعدگی کے ساتھ نکال کر لے جاتے تھے۔ رہائش کے لئے ملیاری کی زمین کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ سینیٹری ٹوائلٹس اور کھادوں کی آسان دستیابی کے نتیجہ میںانسانی فضلہ کی مانگ میں بھی کمی آئی۔ سیپٹک ٹینک اور گڑھوں کا تصور ابھی نہیں تھا اور اس کے بجائے یہ بیت الخلاء کھلے بہتے پانی کی نالیوں میں چھوڑ دی گئیں جو کہ سیوریج نیٹ ورک کی عدم موجودگی میں بالآخر نالہ مار میں جاگریں۔ مار جلد ہی کچرا ذخیرہ کرنے، کچے سیوریج اورفضلہ کو ٹھکانے لگانے کی پسندیدہ جگہ بن گئی۔ جلد ہی مار کے کناروں پر تجاوزات ہونے لگیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور لوگوں میں بے حسی،خود غرضی اور غفلت کے نتیجہ میںنالہ مار ایک میٹھے پانی کے نہر کی جائے کھلے گٹر میں تبدیل ہو گیا۔
دو دہائیوں میں، قریباً 1950 سے لے کر 1960 کی دہائی کے آخر تک، نالہ مار کی حالت تیزی کے ساتھ بگڑتی چلی گئی۔ ان دو دہائیوں کے دوران یہ میٹھے پانی کی ایک نہر،جسے لوگ بشمول سیاح پینے ، کشتی رانی اور آبی گذر گاہی کے لئے استعمال کرتے تھے، ایک بدبودار زہریلے گٹر میں تبدیل ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ نالہ مار اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لئے بدبو ناقابل برداشت تھی۔ خاص طور پر گرمیوں میں نالہ مار کے قریب رہنے والے رہائشی بدبو کے خوف سے اپنی کھڑکیاں بھی نہیں کھول سکتے تھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بدتر ہو رہی تھی۔ سنگین اندیشے پیدا ہوگئے تھے کہ اگر توجہ نہ دی گئی تو نالہ مارسے سر ینگر شہر میں وبا پھیل سکتی ہے۔
(مضمون جاری ہے۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلے ہفتہ شائع کی جائے گی۔)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)