ریٔس احمد کمار
شالیمار کرکٹ اسٹیڈیم میں میچ جیتنے کے بعد تینوں دوست خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک بہتے دریا کے کنارے پہنچ کر انہوں نے کچھ دیر سستانے کا ارادہ کیا اور گھاس پر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد سب سے چھوٹے دوست نے ایک تجویز پیش کی:
’’کیوں نہ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کا کوئی واقعہ سنائے —، چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔ باقی دو اسے سن کر فیصلہ کریں گے کہ وہ بات حقیقت کے قریب ہے یا نہیں۔‘‘
پہلا دوست بولا:
’’میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جس کے پاس نہ گھر تھا، نہ زمین جائیداد، لیکن قسمت نے ایسی کروٹ لی کہ آج وہ کروڑوں نہیں، اربوں کا مالک ہے۔‘‘
باقی دونوں ہنس پڑے۔
’’یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے — گداگر بادشاہ بنے ہیں!‘‘
دوسرا دوست بولا:
’’ایک بار میں جنگل سے گزر رہا تھا کہ ایک درجن درندوں نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں نے بہادری سے مقابلہ کیا اور آخرکار ایک ریچھ کو مار گرانے میں کامیاب ہوا۔‘‘
دوسرے دونوں نے قدرے سنجیدگی سے کہا:
’’مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔‘‘
اب تیسرا دوست بولا، جو کافی دیر سے مسکرا رہا تھا:
’’مجھے شادی کئے چھ سال ہو گئے ہیں، لیکن ان چھ سالوں میں نہ میں اور میری بیوی کے درمیان کبھی لڑائی ہوئی، نہ ہی کبھی نوک جھونک کی نوبت آئی۔‘‘
یہ سن کر دونوں دوست زور سے ہنس پڑے۔
ارے بھائی! یہ تو بالکل بھی سچ نہیں ہو سکتا۔ اگر تم یہ کہو کہ تم نے بغیر آکسیجن کے چاند پر ایک رات گزاری، تو شاید مان لیں، مگر یہ بات کہ میاں بیوی چھ سال تک لڑے نہ ہوں — یہ تو ناقابلِ یقین ہے!
���
قاضی گنڈ، کشمیر