Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

ناقابل مؤاخذہ ’’کوتاہیاںـ تبصرہ

Towseef
Last updated: July 12, 2024 10:09 pm
Towseef
Share
12 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

ادب یعنی لٹریچر عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور اس کے مختلف معنی ہیں۔ تاریخی طور پر یہ لفظ “ضیافت” اور “مہمانی” کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ آگے چل کر اس میں “شائستگی” کا مفہوم بھی پیدا ہوا۔ چونکہ عرب ثقافت میں “مہمان نوازی” کو لازمۂ شرافت سمجھا جاتا تھا، اس لئے شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ ظاہر ہے کہ مہمان داری میں شائستہ انسان عام معاملات میں بھی شائستہ ہی ہوگا، اس لئے ادب میں خوش بیانی کے ساتھ ساتھ نرمی اور گداز بھی شامل ہے۔
دراصل خواہش تخلیق انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اس طرح ادب زندگی کے حسن اظہار کا نام ہے، جو الفاظ کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے۔ جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے تو ان میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں، اس لئے ادب الفاظ کے پیرایے میں جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کا نام ہے۔ ادب کی یہی تفہیم نارمن جودک نے اپنے ان الفاظ میں بیاںن کی ہے کہ “ادب مراد ہے اس تمام سرمایۂ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔” غرض ادب نہ ہو تو انسان کے کلام و بیان کی کرخت اور خشکی انسان کے احساس جمالیات کو غارت کرسکتی ہے۔
ادب کی حصول مسرت کی اس بے غرض شاہراہ میں انشائیہ یعنی ایسٔے کا ایک خاص مقام ہے۔ وزیر آغا کے مطابق “انشائیہ کا غیر رسمی طریق کار اس کو ادب کی دوسری اصناف سے ممیز کرتا ہے۔” انشائیہ نگار کسی خاص مقصد کی آبیاری دلائل و براہین سے کرتا ہے اور نہ ہی وہ قاری یا ناظر کو رد و قبول کے لئے دعوت فکر دیتا ہے۔ انشائیہ کا خالق دراصل اپنی کئی باتوں میں سے کوئی بات یا چند باتیں قاری یا ناظر تک پہنچانے کی سعی کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی کسی “ذہنی کیفیت” پر سے نقاب اٹھاتا ہے اور زندگی کے نظائر کو نئے زاویے سے پیش کرکے قاری یا ناظر کو مسرت بہم پہنچاتا ہے۔
ترسیل مسرت کے اس انوکھے سفر میں “کوتاہیاں” ایس۔ معشوق احمد کے انشائیوں کا ایک مجموعہ ہے، جو ہماری مسرتوں کا سامان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ۲۱ انشائیوں پر مشتمل اس مجموعے میں مصنف کے اپنے تاثرات کے علاوہ ملک و بیرون کے مصنفین کے قلم سے چھ تبصرے شامل ہیں۔
ابتداء میں اپنے مختصر حالات و کوائف بیان کرتے ہوئے منصف خود کو “خوبصورتی کا پرستش” (ص، ۴) کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اس بات کا نرالا انداز ہے کہ مصنف کا حس جمالیات کافی شدید ہے، جو ایک ادیب کا ہونا ہی چاہئے، کیونکہ جب ادب کی تخلیق کا مقصد حصول مسرت ٹھہرا تو ادیب کا خوبصورتی کا دلدادہ ہونا لازمی ہے۔ “عرض یوں ہے” دراصل “عرض مصنف” ہے جس میں کئی اہم باتوں کے ساتھ ساتھ مصنف اپنے “مرزا” (جس کے توسط سے وہ ناظر سے ہمکلام ہوتے ہیں) کا تعارف یوں پیش کرتے ہیں: “مرزا کا پورا نام مرزا مشہور مشوری ہے۔ یہ مشورہ دینے میں مشہور ہیں۔” (ص، ۸) تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ مرزا کی شخصیت میں تضاد موجود ہے، کیونکہ مصنف کا بیان ہے کہ “مرزا کو نصیحت کرنے والوں سے نفرت اور ہنسی مذاق کرنے والوں سے الفت ہے لیکن خود لوگوں کو نصیحتیں کرتے پھرتے ہیں۔” (ص، ۹) ممکن ہے کہ مرزا ہر کسی کی طرح مصنف کا اندرونی وجود ہو کیونکہ ہر کوئی وعظ و نصیحت کی طرف اسی وقت راغب ہوتا ہے جب ناصح کا انداز ہلکا پھلکا ہو۔
جہاں تک کتاب پر تبصروں کی بات ہے تو پروفیسر خورشید احمد “معشوق احمد: ایک سحر بیان انشائیہ نگار” میں رقمطراز ہیں کہ “اسے حکمت اور حماقت کی باتوں کو لکھنے کا فطری ملکہ حاصل ہے۔” (ص، ۱۲) ڈاکٹر فریدہ تبسم “مرزا کہتے ہیں اور معشوق سنتے ہیں” میں لکھتی ہیں: “ان کے انشائیوں میں بعض بہت عمدہ ہیں اور بعض جگہ پر عام بات چیت اور تجربہ بیان ہوا ہے جو انشائیہ میں پورے طور پر تحلیل نہ ہوسکا۔” (ص، ۲۰-۲۱) ڈاکٹر مظفر نازنین “صنف انشائیہ کے عاشق: معشوق” میں تحریر کرتی ہیں کہ “ان انشائیوں میں طنز کی کڑواہٹ بھی ہے اور مزاح کی مٹھاس بھی۔” (ص، ۲۳) وقار احمد ملک “معشوق احمد: لفظوں کا ساحر” میں یوں رقمطراز ہیں: “جب میں ان کی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے بیکن کے مضامین یاد آتے ہیں کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے تھے۔” (ص، ۲۶) شمع اختر انصاری “یوسفی ثانی: معشوق” میں کہتی ہیں: “معشوق کے انشائیے انسان کے اندر سانس لیتے ہیں، خیال بن کر ساتھ چلتے ہیں، زندگی کو جیتے ہیں، قطرہ قطرہ زندگی کشید کرتے ہیں اور قاری کو معشوق سے عشق ہوجاتا ہے۔” (ص، ۲۹) اقراء یونس “سنگین کو رنگین کرنے والا انشائیہ نگار” میں تحریر کرتی ہیں: “ان کی چند تحریریں پڑھنے کے بعد میں ان کے فن کی معترف ہوگئی ہوں کیونکہ ان کی تحریرات کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ موصوف نے مزاح کو معتبر رکھا ہے اور ہنسنے ہنسانے کی خاطر قلم کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھا ہے۔” (ص، ۳۴)
کتاب کا پہلا انشائیہ، “عمر پوچھنا” اگرچہ اس بات کا برملا اظہار ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی عمر سے متعلق پوچھے گئے سوال کو اکثر اوقات ٹال ہی جاتا ہے، لیکن سوال بذات خود نہ صرف عقل و علم کی دلیل ہے، بلکہ اس سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے کو معاشرے کی “جوں کی توں حالت” (اسٹیٹس کو) قابل قبول نہیں ہوتی۔ مصنف لکھتے ہیں: “یوں تو سوال کرنا ہوشیار، ذہین اور خرد مند ہونے کی دلیل ہے۔ انسان چونکہ سوچتا سمجھتا ہے، غوروفکر کرتا ہے اس لئے سوالات پوچھتا ہے، کبھی خود سے، کبھی اپنی ذات سے، تو کبھی کائنات اور دنیا کے معاملات سے۔ سوال دبی بغاوت اور شک و شبہات کا دوسرا نام ہے۔” (ص، ۴۱)
“خوشامد” مجموعے کا دوسرا انشائیہ ہے۔ اس میں خوشامد کو ایک فن کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ خوشامد کی اس تعریف سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس فن کے لئے باضابطہ ریاضت کرنا پڑتی ہے، تب جاکر کوئی پکا خوشامدی کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس فن کی گہرائی اور گیرائی پر مصنف اس طرح روشنی ڈالتے ہیں: “خوشامد کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے وسیع مطالعہ، بلند تخیل، زبان و بیان پر قدرت، تشبیہ کا گہرا علم اور استعارے کی پہچان ہونی چاہئے۔ پرشکوہ الفاظ اور زبان کا چٹخارہ بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔ خوشامدی کو دوسروں کے مزاج کی خوب واقفیت ہونی چاہئے۔” (ص، ۴۴) ظاہر ہے کہ یہی خصوصیات خوشامد کو بڑی کار آمد تدبیر بناتی ہیں۔ (ص، ۴۴)
جہاں تک “دوست، دشمن اور بیوی” کا تعلق ہے تو اس انشائیے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بدی کے سامنے اسی طرح عدم مزاحمت کا رویہ اختیار کرنا چاہئے جس طرح ٹالسٹائی کا طریقہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مصنف بگڑے ہوئے دوست سے بھی کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف کا خیال ہے: “اس شخص پر خدا کا خاص کرم اور عنایت ہے جس سے ایسے دوست کی صحبت نصیب ہوئی جو واقعی بگڑا ہوا ہو۔ دوست بگڑا ہوا مل جائے تو ارمان ہی پورے نہیں ہوتے بلکہ ان سارے گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے اور انسان ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جن کے جوانی میں ارمان اور بڑھاپے میں حسرت ہوتی ہے۔” (ص، ۴۷) مصنف اس فتنہ و فساد سے بھی خوفزدہ نہیں جس سے حسد کی آگ ٹھنڈی ہو۔ کہتے ہیں: “لڑائی جھگڑے سے زندگی کی رونق ہے۔ اس سے انسان کے ذہن کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور دل میں حسد کی آگ اور جلن کے شعلے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ پر سکون زندگی گزارنے کے لئے فتنہ فساد اور بحثا بحثی سے آشنائی ضروری ہے۔ یہ آشنائی اور شناسائی صرف تین لوگ کراتے ہیں، دوست، دشمن اور بیوی۔” (ص، ۴۹)
“کیا کرتے ہو؟” میں مصنف اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ دوستوں یاروں کی نجی معاملات میں مداخلت بیجا سے خوش نہیں ہیں۔ کچھ سوالات سے ہمارے مصنف شاید چڑ بھی جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا کو بیچ میں لاکر کہلواتے ہیں کہ: “کچھ سوالات خالق و مالک، فرشتے، بیوی کے علاوہ بس نوکری دینے والے افراد ہی کرسکتے ہیں، جن میں کیا کیا ہے؟ کیا کرتے ہو؟ اور کیا کرسکتے ہو؟ شامل ہیں۔” (ص، ۵۴) “ادھار اور گالی” میں مصنف اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: “جو ادھار لیتا ہے اس کو گالی پڑنی ہے اور جو دے دیتا ہے یہ پکی گارنٹی ہے کہ اس کی خاطر مدارت بھی گالیوں سے ہی ہوگی۔” (ص، ۶۰) یہی وجہ ہے کہ مرزا کے توسط سے دوستی کے ثبات کے لئے یوں نصیحت کرتے ہیں: “دوستی تادیر قائم رکھنی ہو تو دوستوں کو چاہئے کہ وہ آپس میں ادھار دینے اور لینے سے پرہیز کریں۔” (ص، ۶۳) جیب کی تنگی کے باعث مصنف کا “بائیک خریدنے کا خواب” شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، کیونکہ مصنف کے بقول: “بعض دفعہ جیب کی تنگی بھی باعث رحمت ہے کہ انسان فضولیات سے ہی نہیں بچتا بلکہ قناعت پسند، صابر اور شاکر بھی بن جاتا ہے۔” (ص، ۶۷)اس طرح مجموعے کے غائر مطالعہ سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ مصنف نے اپنی کئی ذہنی کیفیات سے پردہ اٹھایا ہے اور مظاہر زندگی کو نئے زاویوں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ تاہم مصنف نے انشائیوں میں جو طنز و مزاح کا استعمال کیا ہے وہ ان کا لازمی جزو یا کوئی جوہری عنصر نہیں ہے۔ کتاب اگرچہ دیدہ زیب ہے، لیکن تصحیح (پروف ریڈنگ) میں شاید جلد بازی سے کام لیا گیا ہے، جس کے باعث املا کی اچھی خاصی غلطیاں باقی رہ گئیں ہیں۔
(رابطہ۔9858471965)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پاکستان کے ملی ٹینسی کی حمایت سے دستبردار نہ ہونے تک سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا : مرکزی جل شکتی وزارت
تازہ ترین
’’آپریشن سندھور ‘‘ :یہ تو صرف ٹریلر تھا اگر ضرورت پڑی تو ہم پوری تصویر دکھائیں گے: راجناتھ سنگھ
برصغیر
دوپروازوں کے ذریعے لداخ کے 240عازمین حج کی روانگی
تازہ ترین
نشہ آور ادویات کی غیر قانونی فروخت ،رام بن کے چندرکوٹ میں میڈیکل شاپ سربمہر، لائسنس معطل
تازہ ترین

Related

مضامین

امام ِمسجد۔عظمت، آزمائش اور ہمارے رویے ہمارا فریضہ

May 15, 2025
مضامین

زندگی بے بندگی شرمندگی غور طلب

May 15, 2025
مضامین

حشرات کُش دوائیوں کا چھڑکائو:پالیسی ایکشن کی ضرورت سیب کے باغات میں ایک سنگین بحران پک رہا ہے

May 15, 2025
مضامین

بندگی ۔ پیام حج بھی ہے اور متاعِ زندگی بھی فکروفہم

May 15, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?