ابراہیم آتش
اس بات سے شائدآپ بھی اتفاق کریں گے کہ پچھلے پچھتَرسال کے دوران ملک میں مسلمانوں کی قیادت نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ آج مسلمان جس مقام پر کھڑا ہے ،یہ اس بات کی گواہی ہے کہ مسلمانوں کے لیڈران ،مسلمانوں کے تئیںسنجیدہ نہیں ہیں،انہوں نےصرف اور صرف اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا، بے حساب دولت بٹوری اور اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے ولایت بھیجا ،تاکہ وہ اچھی اچھی یونیورسٹیوں میں تعلیم پا سکیںاور یہاں جو قوم کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کئے، اُن کو تجارت کا ذریعہ بنا لیا۔ مسلمانوں کے زیادہ تر لیڈر،مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلاتے رہے اور اپنا اُلو سیدھا کرتے رہے ،یہی کام کانگریس نے بھی کیا ۔بد قسمتی سے اتنے لمبے عرصہ کے دوران مسلمان کیوں ایک اچھے ایماندارلیڈر کو منتخب نہیں کر سکے، جو ایمانداری سے مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لئے کام کرے؟ اس میں کوئی شک نہیں مسلمانوں میں کچھ لیڈر ہیں،جو ایماندار ہیں مگر ان کے پاس اتنی دولت دولت نہیںجو آج کے انتخابات میں بے حد ضروری ہے۔ آج کے انتخابات میں روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، صرف روپیہ پیسے کی بات نہیں بلکہ کچھ ایسے لوگوں کو بھی ساتھ میں رکھنا پڑتا ہے جو مخالفین کی آواز کو دبا نے کی مہارت رکھتے ہوں ۔ظاہر ہےجو شخص ایماندار ہوگا، اس کے پاس دولت کے انبار ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جس کے پاس دولت نہیں ہوگی ،وہ ایسے ماہر لوگوں کو کہاں سے پالے گا۔
بغور دیکھا جائے تومسلمانوں میں سیاسی شعور کی بھی کمی ہے۔جب کسی علاقے میں کوئی قابل و من پسندمسلم امیدوار انتخاب میں کھڑا ہوتا ہےتو اُس کے مخالف میں بہت سے امیدوار میدان میں اترتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم ہو جاتی ہے،اور وہ امیدوار جیت جاتا ہے جس کو مسلمان پسند نہیں کرتے۔ ووٹوں کوتقسیم کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں،اور امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جا تا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمل حلقے کی عوام کے لئے بہتر ہو، مگر یہ عمل تو غیر قانونی ہے۔ کیونکہ جمہوریت میںہر کسی کو انتخابات میں شامل ہونے کا بنیادی حق ہے وہ انتخابات میں حصے لے ،عوام قبول کرے یا رَد کرے،یہ فیصلہ عوام کرے گا۔مگر اپنے یہاں بھی جسم فروشی کی طرح ایک طبقہ ضمیر فروشی کا دیکھا جاتا ہے، یہ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق کامیاب ہونے والے امیدوار سے کچھ رقم کے عوض اپنی امیدواری واپس لے لیتے ہیں۔اگر کوئی امیدوار پچاس ووٹ لینے والا ہے تو وہ بچاس ہزار میں سودا کر لیتا ہے اور اگر کوئی سو ووٹ لینے والا ہے، تو وہ ایک لاکھ میں سودا کرلیتا ہے اور اگر کوئی پانچ سو ووٹ لینے والا ہے تو وہ پانچ لاکھ میں اُس کا سودا ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ جیتنے والا امیدوار ایک ووٹ کے بدلے ایک ہزار دے گا تو پچاس ووٹ کے بدلے پچاس ہزار ۔ کامیاب ہونے والے امیدوارکا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی رہے گا ۔بعض دفعہ تو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کامیاب ہونے والے امیداوار اور ہارنے والے امیدوار، دونوں سے خفیہ طور پر سودا کر لیتے ہیں، جسم بیچنے والے صرف جسم ہی تو بیچتے ہیںباقی سب چیزیں سلامت رہتی ہے نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں نہ کسی کو دھوکہ دیتے ہیں نہ کسی کا مال ہڑپ کرتے ہیں۔لیکن جب انسان کا ضمیر بک جائے تو نہ اس کے جسم کی کوئی قیمت رہے گی نہ انسانی حیثیت سے اس کا کوئی وجود ہوگا، وہ قوم وہ معاشرے کے لئے سب سے خطرناک ثابت ہوگا۔ مسلمان جب ان جیسے لوگوں کو دور رہنے کے بجائے،ان کے ساتھ میں رہیں گے تو ان کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی، وہ مسلمانوں کا سودا کسی بھی قیمت پر کسی سے بھی کرنے کو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگر مسلمانوں میں سیاسی شعور آجائے تو نہ ان لوگوں کی چلے گی اور نہ ضمیر فروشوں کو کچھ حاصل ہو گا ۔حالانکہ مسلمانوں کو اپنی لیڈرشپ اُبھارنے کے کئی مواقع ملے، مگر انہوں نے حالات سے سبق نہیںسیکھا ،وہ صرف لیڈروں کے اِرد گرد گھوتے رہے اور جو باقی مسلمان ہیں، وہ ایک مخصوص پارٹی کو ہی اقتدار میں نہ آنے کی کوشش کرتے رہے، کبھی اپنے بل بوتے پر اپنی لیڈرشپ نہیں اُبھار سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور نہیں ہے جو اپنی خود کی لیڈرشپ یعنی عوام کا چنا ہوا لیڈر جو عوام کے لئے دستیاب رہے ۔مسلمانوں نے اس قدر بھی طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اگراُن کا کوئی اپنا لیڈر، اپنے راستے سے ہٹ جائے تو اس کی جگہ دوسرے لیڈر کو منتخب کریں،کہنے کا ہرگز یہ مطلب یہ نہیں کہ و ہ کسی مسلم سیاسی پارٹی کا ہو یا آزاد امیدوار ہو بلکہ وہ ملک کی کسی بھی سیکولر پارٹی کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے پارٹی مخصوص نہیں ہوگی عوام جس پارٹی کو چاہے ،وہ لیڈر اس پارٹی کا نمائندہ ہوگا۔مسلمانوں میںاس طرح کی بیداری ایک مشکل ترین کام ہے مگر نا ممکن نہیں ہے، اس کے لئے ہر شہر میں کمیٹیاں بنائی جائیں جس کی ذیلی کمیٹیاں بھی ہوں ،صحیح سوجھ بوجھ والے افراد ہوں، تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ہوجو قوم و ملت کے لئے وقت دے سکے ۔ آج کل ہمیں جو لیڈر نظر آتے ہیں،ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جو تعلیم میں نا کام ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سرکاری نوکری کرنے سے محروم رہ گئے، ان کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ سیاسی میدان میں کسی ڈگری کی ضرور ت نہیں ہوتی صرف لچھے دار باتیںاور مذہبی جذبات میں مسلمانوں کو جوش میں لانا ہوتا ہے جو شخص جائز اور حلال طریقے سے کمانے میں نا کام ہوا ہو، وہ مسلمانوں کی کس طرح نمائندگی کر سکتا ہے وہ تو بس نا جائز طریقے سے کمانے کے بارے میں سوچے گا اور اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں ۔کتنے ہی لیڈر اس طرح کروڑوں روپیے کمالیے ہیں مسلمانوں کی جائداد ہڑپ لیتے ہیںجیسے وقف کی جائداد مسلمانوں کی جائداد ہی تو ہے اور سرکاری زمینیں ہڑپ لیتے ہیںوہ تمام جو کبھی فٹ پات پر گھوتے ہوئے نظر آتے تھے۔ آج عمدہ کاروں میں پھرتے ہوئے نطر آتے ہیں اور ان کے عالیشان بنگلے کیا کہنے غرض ان کے پاس عیش و آرام کی تمام چیزیں موجودہوں گے عام مسلمانوں کویہ بات سمجھنی چاہئے، ان کا لیڈر پہلے کس طرح زندگی گذارتا تھا اور آج اس کی زندگی کس طرح گذر رہی ہے میں سمجھتا ہوں جب اتنا سمجھ جائے توپھر وہ ان لیڈروں کی باتوں میں نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کو سبق لینے کے لئے اس ملک میں بہت سے واقعات پیش آئے مگر مسلمانوں نے اس سے سبق نہیں لیا ہم صرف مسلم لیڈروں کو الزام دیں غلط ہوگا ملک کے تمام مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں،انھوں نے علاقائی سطح سے قومی سطح پر کوئی ایسی تنظیم نہیں بنائی، جس سے مسلما ن جڑ جائیں جس میں ملک کے تمام مسلمان شامل ہوںحالانکہ مسلمانوں کے بہت سے ادارے اور جماعتیںکام کر رہی ہیں مگر آج تک اس کا خاطر خواہ ہمیں فائدہ حاصل نہیں ہوا۔اب ضرورت ہے مسلم لیڈر شپ کو اُبھارا جائے ،ایسی لیڈر شپ جو ایماندارہو، مخلص ہو،حکمت اور دور اندیشی سے کام کرنے والے ہوں۔
(رابطہ۔ 9916729890 )
[email protected]