محمد امان اللہ
پتھر کے دور میں انسان خود سے زندہ رہنے کی جد وجہد کرتا تھا اور خود کے لئے زندہ رہتا تھا ۔ مگر جب سے انسانوں نے مل جل کر رہنا سیکھا خاندان ، قبائل اور معاشرہ وجود میں آیا ۔ ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مختلف پیشے وجود میں آئے ۔ خونی رشتوں کی بنیاد پر خاندان وجود میں آیا اور خاندان کا ہر فرد ایک دوسرے کے لئے جیتا اور مرتا رہا اور آج بھی جن ممالک میں خاندانی نظام موجود ہے اور مشترکہ خاندان یعنی تمام لوگ ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں اور ایک ساتھ کھاتے پکاتے ہیں وہاں حلم ، رواداری ، آپسی محبت ، والدین کی خدمت ، بڑے بوڑھوں کا احترام اور رشتوں کا تقدس نہ صرف قائم ہے بلکہ خوشحالی اور یگانگت موجود ہے ۔
یورپ کے صنعتی انقلاب اور مادیت پرستی نے ایک نئے کلچر اور تہذیب کو جنم دیا اور جدید فلسفہ حیات نے خود غرضی جیسی انسانیت سوز تہذیب و ثقافت کو اپنے لپیٹ میں لے کر پورا خاندانی نظام کٹ تار تار کر دیا بلکہ رشتوں کے تقدس بھی پامال ہوگئے ۔ یورپ ، امریکہ اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں joint family system کا کوئی تصور نہیں ۔ اگر میاں بیوی کچھ برسوں کے لئے ایک ساتھ رہ رہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانے کے روادار نہیں ہیں ۔ دونوں life partner بن کے رہتے ہیں اور یہ partner ship ذرا سے مفاد پر ضرب پڑتی ہے تو فورآ بریک اپ ہو جاتا ہے ۔ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کے مصداق یہ جا وہ جا ۔
گزشتہ تین سال پہلے نیو یارک ٹائمز میں ایک اسٹوری چھپی تھی وہ یہ کہ ایک نوجوان لڑکی ایک اپارٹمنٹ کے نیچے رو رہی تھی اخبار کے نمائندے نے اس سے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو، اس روتے ہوئے بتایا کہ یہ اپارٹمنٹ میرے باپ کا ہے میرے باپ نے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ دوسرا شخص مجھے زیادہ کرایہ دے رہا ہے جو تم نہیں دے سکتی ۔ یہ تو مادر پدر آزاد خود غرض معاشرے کی ایک جھلک ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خاندان کا تصور بالکل ختم ہو چکا ہے ۔ ہر شہر میں single parent کالونیاں بنائی گئی ہیں جہاں عورتیں تنہا اپنے بچوں کو پالنے یا لاوارث بچوں کے اداروں میں ڈال دینے پر مجبور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے حقیقی باپ کی شناخت نہیں ہے ۔ اگر گھر میں اتفاق سے دوچار لوگ ہیں تو ہر کسی کو کام کرنا لازمی ہے ورنہ اس کی کفالت ماں باپ کے ذمہ نہیں بلکہ ریاست نے لی ۔
بے روزگاروں کے لئے وظیفہ وغیرہ کا انتظام کر رکھا ہے ۔ سہولیات زندگی تو میسر ضرور ہے لیکن حقیقی خوشیاں میسر نہیں ۔
آسائش حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکون قلب مقدر کی بات ہے
یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ جاپان نے ہر لحاظ سے ہوش ربا ترقی کر لی ہے مگر سب سے زیادہ خود کشی جاپان میں ہوتی ہے ۔ جاپان بوڑھوں کا ملک بنتا جا رہا ہے، پیدائش کی شرح اس طرح کم ہوتی جا رہی ہے کہ آئندہ پچاس سال میں جاپان کی آبادی کم ترین سطح پر پہنچ جائے گی ۔
ترقی یافتہ ممالک کے منتشر خاندانی نظام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتوں کے بندھن کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا ہے حالانکہ آج بھی روایتی طور پر یہ چرچ یا اپنے مذہبی عبادت خانوں یا عدالتوں میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں مگر خود غرضی اور مادہ پرستی نے ان کو اپنی ذات میں محدود کر دیا ہے ۔ دیکھیں تو ترقی اور خوشحالی اوج ثریا پہ پہنچ چکی ہے مگر انسانی اقدار کو ذاتی مفادات نے کچل کر رکھ دیا ہے ۔ مشینی زندگی نے دلوں میں کثل پیدا کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام اور امریکہ، روس نے گزشتہ تین صدیوں سے دنیا میں انسانیت کش جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔
الحمد للّٰہ مسلم دنیا میں طاغوتی تہذیب کی تمام تر کوششوں اور جدید ابلاغی ذرائع ، حقوقی نسواں کے نام پر کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی مسلمان نکاح مسنونہ کے ذریعے ہی رشتہ ازدواج قائم کرتے ہیں اور ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے ۔ رشتوں کا تقدس آج بھی قائم ہے ۔ شریعت نے جن رشتوں کو حرام قرار دیا ہے اور جن رشتوں کو جائز قرار دیا ہے یہ سلسلہ قائم ہے ۔ مگر یہ بات بھی تیزی سے پھیل چکی ہے کہ مشترکہ خاندان اور ایک چھت کے نیچے رہنے والوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی جا رہی ۔ طلاق اور خلع کی شرح شہروں میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ شادی ہونے کے فوراً بعد علاحدہ رہنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بوڑھے والدین بے سہارا ہوتے جا رہے ہیں جو کہ شرعی اعتبار سے قابلِ سزا جرم دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ہے ۔ اسی لئے ہندوستان ، پاکستان اور دیگر ملکوں میں parents protections law بنائے گئے ہیں اور بیٹوں کو اس بات کا قانونی طور پر بوڑھے والدین کی کفالت کا پابند بنایا گیا ہے ۔ بچوں کی عدم توجہی کے باوجود اولاد کی محبت کی وجہ سے عدالت نہیں جاتے ۔
عرب دنیا میں دولت کی فراوانی کی وجہ سے ایک دوسرے کی محتاجی ختم ہو گئی ہے ،لہٰذا الگ الگ رہنے کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔ ساوتھ ایشین کے مسلم ممالک بھی جدیدیت کے لپیٹ میں ہیں اور خاندانی شیرازہ بکھر رہا ہے ۔ قبائل تو آج بھی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بھارت کے ہندو معاشرے میں شہری زندگی کے مقابلے میں دیہاتوں میں آج بھی مشترکہ خاندانی نظام موجود ہے ۔ چونکہ ہندوؤں میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں ہے اور نہ بیوہ و طلاق زدہ عورتوں کو شادی کی اجازت ہے جس کی وجہ سے دیگر اخلاقی برائیاں عام ہیں ۔ مشترکہ خاندانی نظام کو بکھیرنے میں آزاد شہوت رانی اور معاشرتی اور ملکی قوانین کی اجازت ہے ۔
نصف صدی سے پہلے تک مسلم معاشرے میں علحدہ رہنے کا رجحان خال خال ہی تھا مگر ریڈیو ، ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ کے اور اب سوشل میڈیا کے ایجاد کے بعد پوری دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے لہٰذا مشرق اور مغرب کے فاصلے مٹ چکے ہیں ۔ چند منٹوں کے اندر پوری دنیا کے واقعات اور حالات سے ہر کوئی واقف ہو جاتا ہے ۔ فلموں اور ڈراموں نے خاندانی تصور کو کچل کر رکھ دیا ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بے پردگی کا دور دور تک سائبہ نہیں ہوتا تھا ۔ مگر الیکٹرانی آلات اور اسمارٹ فون نے بے پردگی کے تمام حدود کو پامال کر دیا ہے ۔ بیجنگ پلس کانفرنس کے بعد حقوق نسواں کے نام پر عورت کی آزادی کو اقوام متحدہ کی حمایت کے بعد آج کی عورت نہ صرف اپنی نسوانی تقدس سے محروم ہو گئ ہے بلکہ میرا جسم میری مرضی کے عالمی تحریک نے خاندانی نظام کے تار پود کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ عورت ہی وہ قابلِ احترام ہستی ہے جس کے کردار و عمل سے خاندانوں نظام قائم رہتا ہے ۔