مختار احمد قریشی
اخلاقی تعلیم وتربیت کسی بھی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کوئی قوم اخلاقی قدروں کو اپناتی ہے تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے اور جب اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتی ہے تو انتشار اور زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کر لی ہے وہیں اخلاقی انحطاط بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نئی نسل جو کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل ہوتی ہے، اس کی اخلاقی تربیت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ ایک مہذب، باوقار اور باشعور شہری کے طور پر پروان چڑھے۔ اخلاقی تربیت صرف اچھے رویوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو فرد کو دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے، معاشرتی اقدار کا احترام کرنے اور انصاف و دیانت داری کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر ایک شخص انتہائی ذہین ہو مگر اخلاقی اصولوں سے محروم ہو تو وہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آج کی نوجوان نسل کئی اخلاقی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک رسائی کو آسان بنایا ہے، وہیں اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ آج کل نوجوان جھوٹ، دھوکہ دہی، حسد، تکبراور ناشکری جیسی اخلاقی برائیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو صحیح اور غلط کی پہچان سکھائیں تاکہ وہ اخلاقی گراوٹ سے محفوظ رہ سکیں۔بے شک بچوں کی پہلی درسگاہ ان کا گھر ہوتا ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے، بڑوں کا ادب کرنے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی عادت ڈالیں۔ بچے جو کچھ اپنے والدین کو کرتے دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود سچ بولیں، دوسروں کی مدد کریں اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں تو بچے بھی انہی اصولوں پر عمل کریں گے۔ اسکول اور تعلیمی ادارے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک اچھا استاد نہ صرف کتابی علم دیتا ہے بلکہ بچوں کے کردار کی تشکیل میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دیانت داری، محنت، صبر، رواداری، اور محبت کا درس دیں۔
معاشرہ بھی فرد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ہر طرف ایمانداری، انصاف اور محبت کا ماحول ملے گا تو وہ بھی انہی خوبیوں کو اپنائے گا۔ لیکن اگر ایک بچہ بددیانتی، بدتمیزی، اور نفرت کے ماحول میں پرورش پائے گا تو اس کا رویہ بھی اسی کے مطابق ہوگا۔ اسلام نے اخلاق کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ نبی کریمؐ کی سیرت میں ہمیں بہترین اخلاقی تعلیمات ملتی ہیں۔ سچائی، دیانت داری، عدل، رواداری، عفو و درگزر اور حسنِ سلوک جیسے اوصاف اسلامی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہیں۔ اگر ہم اپنی نسل کو اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت دیں تو معاشرے میں امن، محبت اور بھائی چارہ پیدا ہوگا۔ اگر ہم نئی نسل کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہ دیں تو اس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے آئیں گے۔ جب کسی معاشرے میں اخلاقی اقدار ختم ہونے لگتی ہیں تو وہاں بدعنوانی، جھوٹ، دھوکہ دہی، ناانصافی اور بےحسی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر نوجوان نسل کو سچائی، دیانت داری، عزت و احترام اور انصاف کے اصول نہ سکھائے جائیں تو وہ صرف ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگے گی اور اجتماعی ترقی رک جائے گی۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوانوں میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے اور وہ تنقید سننے کے بجائے جلد مشتعل ہو جاتے ہیں۔ یہ سب اخلاقی تربیت کی کمی کے اثرات ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کا سدباب نہیں کرتے تو معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں محض باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے اخلاقی تربیت پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کرنا ضروری ہے:
گھریلو ماحول کو مثالی بنائیں اور – والدین کو چاہیے کہ وہ خود اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ بچے ان سے سیکھیں۔تعلیمی نصاب میں اخلاقیات شامل کریں – ،اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ بچے شروع ہی سے اچھے رویے سیکھیں۔مساجد اور مدارس کا کردار – علماء اور خطباء کو چاہیے کہ وہ اپنے خطبات میں اخلاقی تربیت پر زیادہ زور دیں۔
سوشل میڈیا پر مثبت مواد کی ترویج – نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے مواد سے دور رہیں جو ان کے اخلاق کو خراب کرے اور مثبت چیزوں کو فروغ دیں۔معاشرتی مہمات کا آغاز – حکومت اور سماجی تنظیموں کو مل کر ایسی مہمات شروع کرنی چاہئیں جو نئی نسل میں اخلاقی شعور بیدار کریں۔اساتذہ کو کردار سازی پر توجہ دینی چاہیے – تعلیمی اداروں میں صرف نمبروں کی دوڑ نہیں ہونی چاہیے بلکہ بچوں کے اخلاق و کردار کو بھی سنوارنا چاہیے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے تو ہمیں ان کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ محض دنیاوی ترقی کافی نہیں بلکہ اصل کامیابی اخلاقی بلندی میں ہے۔ اگر ہم آج سے اپنی نسل کو اچھے اخلاق سکھانا شروع کر دیں تو آنے والا کل روشن اور خوشحال ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ہم صرف ترقی کے خواب دیکھتے رہ جائیں گے اور حقیقت میں زوال کا شکار ہو جائیں گے۔
(کالم نگار پیشہ سےاُستاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]