سبدر شبیر
سری نگر کی یخ بستہ راتوں میںجب برف کے گالے آسمان سے خاموشی سے گرتے اور شہر کی گلیاں کسی ویران خواب کی مانند لگتیں، ایک نحیف و نزار شخص کسی گلی کے کنارے سمٹ کر بیٹھا رہتا تھا۔ اُس کا نام کسی کو معلوم نہ تھا، لیکن لوگ اُسے “بڈھا فقیر” کہہ کر پکارتے تھے۔ اُس کی داڑھی الجھی ہوئی، کپڑے پھٹے ہوئے اور آنکھیں کسی گزرے ہوئے زمانے کی گواہ لگتی تھیں۔ کوئی اُس پر ترس کھاتا تو کوئی مذاق اُڑاتا۔ مگر وہ خاموش رہتا، بس کبھی کبھار آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ بڑبڑاتا، جیسے کسی انجانے خدا سے بات کر رہا ہو۔
یہ اس کے معمولات میں شامل تھا کہ وہ دن بھر شہر کے مختلف کونوں میں بھٹکتا، کبھی کسی درگاہ کے دروازے پر بیٹھا ملتا، تو کبھی کسی دکان کے باہر، جہاں شاید کوئی مہربان اسے ایک وقت کا کھانا دے دے۔ اس کی زندگی کا ہر دن ایک جیسا تھا، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
ایک دن ایک نوجوان، جس کا نام زبیر تھا، اُس فقیر کے پاس آیا۔ زبیر “کشمیر یوتھ کریج (KYC) فاؤنڈیشن” کے شیلٹر ہوم میں کام کرتا تھا۔ اُس نے غور سے بڈھے فقیر کو دیکھا۔ وہ ایک کہانی لگ رہا تھا ـ ایک ایسی کہانی جو ابھی لکھی جانی باقی تھی۔
“چاچا، یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ آئیں، آپ کو ایک اچھی جگہ لے چلوں۔ وہاں کھانے کو ملے گا، گرم بستر ہوگا، لوگ آپ سے محبت سے پیش آئیں گے۔” زبیر نے نرمی سے کہا۔
فقیر نے اپنی میلی آنکھوں سے اُسے دیکھا، جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو، پھر دھیرے سے بولا، “میری کوئی جگہ نہیں، بیٹا۔ یہاں رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ یہاں لوگ میرے اپنے ہیں، گلیاں مجھے جانتی ہیں، آسمان میرا ساتھی ہے۔”
زبیر مسکرایا، “اور اگر ہم آپ کو ایک نیا گھر دے دیں؟ جہاں کوئی آپ کو دھتکارے نہیں، جہاں آپ کو عزت ملے؟ جہاں آپ کو اپنا کہنے والے لوگ ہوں؟”
فقیر کچھ دیر خاموش رہا، پھر اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شاید برسوں بعد کسی نے اُس سے اپنے ہونے کا سوال کیا تھا۔ زبیر نے اُس کا ہاتھ تھاما اور اُسے شیلٹر ہوم لے آیا۔
شیلٹر ہوم کا ماحول اُس فقیر کے لیے اجنبی تھا۔ گرم کمرے، صاف ستھرے بستر، دیواروں پر چسپاں رنگین پوسٹرز، کھڑکیوں سے چھن کر آتی نرم دھوپ ـ یہ سب کچھ اُس کے لیے خواب سا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ عجیب چیز وہ لوگ تھے جو اُسے اپنے جیسا سمجھ رہے تھے۔ یہاں اور بھی کئی افراد تھے جو زندگی کے کسی موڑ پر بے سہارا ہو گئے تھے۔ کوئی اپنے ماضی کو بھولنا چاہتا تھا، تو کوئی اپنوں کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔
مصدق بشیر، جو KYC شیلٹر ہوم کے بانی ہیں ہر نئے آنے والے کو اپنا سمجھ کر گلے لگاتے۔ وہ جانتے تھے کہ جسمانی پناہ سے زیادہ، ان لوگوں کو جذباتی سہارا درکار ہوتا ہے۔ وہ ان کے زخموں کو مرہم لگاتے، ان سے کہانیاں سنتے اور ان کے اندر زندگی کی چنگاری دوبارہ روشن کرنے کی کوشش کرتے۔
ایک رات، جب باہر برفباری ہو رہی تھی، زبیر اور فقیر آتش دان کے پاس بیٹھے تھے۔ “چاچا، تمہاری زندگی کی کہانی کیا ہے؟” زبیر نے پوچھا۔
فقیر نے ایک طویل سانس لی۔ “کبھی میرا بھی ایک گھر تھا، ایک خاندان تھا۔ بیوی تھی، بیٹا تھا۔ مگر قسمت نے مجھے تنہا کر دیا۔ بیوی بیمار تھی، دوائی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ بیٹا چھوٹا تھا، اسے کھلونے چاہیے تھے، مگر میں کچھ بھی نہ دے سکا۔ ایک دن سب کچھ ختم ہو گیا۔ بیوی بستر پر دم توڑ گئی، اور میرا بیٹا…” وہ یک دم خاموش ہو گیا۔ آنکھوں میں درد کا ایک سمندر تیرنے لگا۔
زبیر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “زندگی ہمیشہ دوسرا موقع دیتی ہے، چاچا۔ بس کبھی کبھی ہمیں وہ موقع دیکھنے میں دیر لگتی ہے۔”
دن گزرتے گئے اور فقیر، جسے اب سب “چاچا جان” کہنے لگے تھے، دھیرے دھیرے زندگی کی روشنی کی طرف لوٹنے لگا۔ وہ کہانیاں سناتا، دعائیں دیتا، اور سب سے زیادہ، وہ اب تنہائی محسوس نہیں کرتا تھا۔ اُس کی خالی آنکھوں میں امید کے دیئے جلنے لگے تھے۔
شیلٹر ہوم نے نہ صرف اُسے پناہ دی بلکہ ایک نئی شناخت بھی دی۔ وہ جان چکا تھا کہ کچھ لوگ ابھی بھی انسانیت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایک دن، ایک نوجوان، جو اپنے والد کو تلاش کر رہا تھا، شیلٹر ہوم آیا۔ اُس نے اپنے والد کی پرانی تصویر دکھائی۔ تصویر دیکھتے ہی چاچا جان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ لرزتے ہاتھوں سے تصویر کو چھونے لگے۔ اُن کے ہونٹ کپکپائے اور وہ بس ایک ہی لفظ کہہ پائے: “بیٹا…؟”
یہ لمحہ سب کے لیے جذباتی تھا۔ برسوں بعد، ایک بچھڑا ہوا خاندان پھر سے جُڑ گیا۔ زبیر، مصدق بشیر، اور KYC فاؤنڈیشن کے سبھی رضاکاروں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے ایک اور زندگی کو سنوار دیا تھا۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ KYC فاؤنڈیشن کا شیلٹر ہوم ایسے بے شمار افراد کے لیے روشنی کی کرن بنا رہا ہے، جو تاریکی میں بھٹک رہے تھے۔ یہ محض ایک چھت نہیں ہے، یہ امید کا وہ چراغ ہے جو ہر بے سہارا دل کو ایک نئی صبح کی نوید دیتا ہے۔
چاچا جان نے اب شیلٹر ہوم میں ایک نیا کام سنبھال لیا تھا۔ وہ نئے آنے والوں کو اپنی کہانیاں سناتے، انہیں حوصلہ دیتے اور ان کی زندگی میں امید کے بیج بوتے۔ اس کے الفاظ میں وہ درد اور سچائی تھی جو صرف وہی سمجھ سکتا تھا جو اس راہ سے گزرا ہو۔
ایک شام، جب سورج ڈوب رہا تھا اور آسمان سنہری روشنی میں نہا رہا تھا، چاچا جان شیلٹر ہوم کے صحن میں بیٹھے ایک بچے کو کہانی سنا رہے تھے۔ بچہ دلچسپی سے سن رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اچانک، بچے نے پوچھا، “چاچا جان، کیا سب کہانیوں کا انجام خوشگوار ہوتا ہے؟”
چاچا جان مسکرائے اور بولے، “نہیں بیٹا، لیکن ہر کہانی میں ایک نیا سبق ہوتا ہے، اور ہر رات کے بعد ایک نئی صبح آتی ہے۔”
اَوٹو اہربل کولگام کشمیر
[email protected]