ہلال بخاری
نئی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کا نفاذ ہمارے تعلیمی نظام میں ایک نئی روح اور مقصد پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ انقلابی پالیسی تعلیم کے مقاصد کی نئی تعریف متعین کرتی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ اور والدین اسے پوری طرح اپنائیں۔ ایسا کرنے سے، ہم طلبہ ،جو حقیقی اسٹیک ہولڈرز ہیںکو اس کے فوائد پہنچا سکتے ہیں اور بنیادی سطح پر مثبت تبدیلیاں دیکھ سکتے ہیں۔
NEP تعلیم کو ایک ایسے ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہے جو متوازن شخصیت کے حامل افراد کو پروان چڑھائے،ایسے افراد جو عقلی سوچ، ہمدردی، جرأت، حوصلہ، سائنسی مزاج اور تخلیقی تخیل کے ساتھ مضبوط اخلاقی اقدار کے حامل ہوں۔ اس کا مقصد ایسے باشعور، متحرک اور کارآمد شہری پیدا کرنا ہے جو مساوات، شمولیت اور تکثیریت پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکیں، جیسا کہ ہمارے آئین میں تصور کیا گیا ہے۔
اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پالیسی کے اہداف کو گہرائی سے سمجھنا اور ایمانداری سے نافذ کرنا ضروری ہے۔ تعلیم اب محض مادی فوائد یا تعلیمی کامیابیوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا بنیادی مقصد سیکھنے والوں کی ہمہ جہت ترقی—عقلی، جسمانی، ذہنی اور جذباتی بھی ہے۔ یہ انسانیت کی پرورش اور طلبہ میں زیادہ انسانی رویہ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔لہٰذا تعلیم صرف ڈگریوں، نمبروں اور گریڈز تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا اصل مقصد ایسے افراد کی تشکیل کرنا ہے جو منطقی، ہمدرد، اور ثابت قدم ہوں، جو بامقصد زندگی گزار سکیں۔ ایسے افراد جو مسائل کو عقلی انداز میں حل کریں، علم کو سائنسی نقطۂ نظر سے حاصل کریں اور تخلیقی انداز میں سوچیں۔ رَٹنے اور نقل پر انحصار کرنے کے بجائے، انہیں نئے خیالات تخلیق کرنے اور روایتی تصورات کو جدید طریقوں سے بہتر بنانے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہیے۔NEP کا ایک اور بنیادی ستون اخلاقی اقدار کا فروغ ہے، تاکہ طلبہ بہترین معاشروں کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ابراہم لنکن کے ایک مشہور خط، جو ان کے بیٹے کے اُستاد کے نام منسوب ہے، میں تعلیم کے ان ہی اصولوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس خط میں وہ اُستاد کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے کو خاموش مسکراہٹ کی خوشی اور عاجزی کی طاقت سکھائیں، اُسے سمجھائیں کہ بدمعاشوں کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے اور کتابیں دانشمندی کے خزانے ہیں۔ بچے کو سکھایا جائے کہ وہ فطرت کے عجائبات پر حیران ہو، کامیابی پر دیانت کو ترجیح دے اور اپنے خیالات پر یقین رکھے، چاہے دنیا ان کے خلاف ہو۔ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھے، انفرادیت میں مضبوطی تلاش کرے اور یہ سمجھے کہ آنسو بہانے میں کوئی شرمندگی نہیں۔اسی طرح، ولیم مارٹن کی ایک نظم میں زندگی کی سادہ خوشیوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے: اس کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔
’’اپنے بچوں سے یہ نہ کہوکہ وہ غیرمعمولی زندگی کے لیے جدوجہد کریں۔ایسی کوششیں قابلِ ستائش ہو سکتی ہیںلیکن یہ نادانی کی راہ ہے۔انہیں سکھائیں کہ وہ ایک عام زندگی کے حسن اور حیرت کو تلاش کریں۔انہیں دکھائیں کہ ٹماٹر، سیب، اور ناشپاتی کا مزہ لینا کتنا خوش کن ہے۔انہیں سکھائیں کہ وہ رونا جانیںجب پالتو جانور اور لوگ مر جائیں۔
انہیں یہ سکھائیں کہ ہاتھ کا لمس لازوال خوشی دے سکتا ہے،اور عام چیزوں کو ان کے لیے زندہ کر دیں۔غیرمعمولی چیزیں خود ہی اپنی جگہ بنا لیں گی۔‘‘
بدقسمتی سے موجودہ تعلیمی نظام نے مقابلہ بازی کو بہت زیادہ ترجیح دی ہے، جس نے بچوں کو ایک بے مقصد دوڑ میں دھکیل دیا ہے۔ اس رجحان نے طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے، جہاں جیتنے کی دوڑ نے ذاتی ترقی اور فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال دیا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ اساتذہ اور والدین یہ سمجھیں کہ نئی نسل میں انسانیت اور اخلاقی اقدار کی پرورش کرنا، انہیں محض مسابقتی مشینوں میں تبدیل کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہم NEP کے وژن کو بنیادی سطح پر پوری دیانتداری سے نافذ کریں، تو ہم ایک ایسا مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں جو نہ صرف کامیاب بلکہ حقیقی معنوں میں انسانی اقدار سے بھرپور ہو۔
(مضمون نگار معلم ہیں اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں)
[email protected]