رحیم رہبر
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ
بڈگام کشمیر۔9906534724
میں تنہایوں کے جنگل میں اکیلا خود کو لکیروں میں تلاش کر رہا تھا کہ اچانک میرا فون بجا’’ہیلو۔۔۔۔
جی۔۔۔ کون؟میں نےپوچھا ۔۔۔
’’ میں ۔۔۔۔‘‘ یہ نسوانی آواز تھی۔۔۔
’’ جی میں سمجھا نہیں ‘‘ میں نے جواب دیا۔۔۔
’’میں تمہاری مسکان ہوں‘‘۔۔۔
’’مسکان ۔۔۔!‘‘ میں چونک گیا۔۔۔
’’جی میں تمہار مسکان ‘‘ہوں اُس نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’آپ نے غلط نمبر ڈائیل کیا‘‘ میں نے فون کاٹ دیا۔ مُسکان اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ دو سال قبل کچھ نامعلوم درندہ صفت افراد نے اس کے ساتھ زیادتی کی پھر وہ شرمیلی دو شیزہ اُن کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مُسکان نے جہلم میں چھلانگ لگائی تھی! کچھ کا کہنا ہے وہ اپنا دماغی توازنُ کھوبیٹھی! کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ شہر کے بڑے ڈسٹ بنِ میں سے وہ خون آلودہ کپڑے،جو میونسپلٹی کے خاکروبوں نے نکالے تھے، اُسی مسکان کے تھے! میں تصورات کی دُنیا میں کھوگیا۔ میرا فون دوبارہ بجنے لگا۔ ’’ہیلو۔۔۔‘‘
’’فون مت کاٹیئے گا۔۔۔ میری پوری بات سُنیۓ میں تمہاری مسکان ہوں۔ مجھے تمہاری یہ کہانی اچھی لگی۔ اس کہانی کا محوّرNarative میں ہی ہوں۔ تمہاری مسکان‘‘
’’میں سمجھا نہیں!‘‘ میں نے انہماک سے کہا۔
’’اُس کربناک واقع کے بعد سارا شہر لرزاُٹھا۔ پولیس نے تفتیش شروع کی جسکا( نامعلوم) پہ اختتام ہوا۔ لیکن میں زندہ ہوں!‘‘ مسکان نے رورو کر کہا
’’آخر ہوا کیا؟‘‘
’’اُس دن میں یونیورسٹی سے گھر آرہی تھی۔ راستے میں مجھے اپنے ہی گائوں کے ایک پڑوسی نے اپنی کار میں لفٹ دی لیکن گھر پہچانے کی بجائے اخلاص مجھے ایک انجان بستی میں لے آیا جہاں دوسرا جوان عادل پہلے سے ہی موجود تھا۔‘‘
’’تم مجھے یہاں کیوں لے آئے‘‘ میں نے اخلاص سے پوچھا ’’تم نے میرے ساتھ شادی کرنے سے انکار کیوں کیا‘‘ ’’یہ میرا حق بنتا ہے۔۔۔‘‘ میں نےجواب دیا ۔اس کے بعد اخلاص نے میرے ساتھ زیادتی کی۔ مجھے بس اتنا معلوم ہے۔‘‘
’’دو سال سے تم کہاں تھی!؟ میںنے تعجب سے پوچھا ، ’’میں مرگئی ہوں!‘‘ پھر تم زندہ کیسے ہوئی؟‘‘’’میں آتما ہوںُ۔۔۔ مُسکان بول رہی ہوں۔ ‘‘
’’خیر ۔۔۔ بتائو میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’مجھے تمہاری کہانی (میں مسکان ہوں) اچھی لگی۔ اس میں مزاحمت ہے۔۔۔ احتجاج ہے اور بغاوت ہے۔ اُن درندوں نے میری لاش کو جہلم میں پھینک دیا تھا۔ میں مرگئی تھی۔ لیکن تُم نے ’میں مسکان ہوں‘ کہانی لکھ کر مجھے زندہ کردیا ۔ تمہاری کہانی نے میرا کرب ان ایوانوں تک پہنچایا جہاں انصاف بکتا ہے! تمہاری اس کہانی کی وجہ سے بنتِ حواّ کھویا ہوا اعتماد واپس ملا۔ تم نے بنت حواّ کو جنسی استحصال سے بچایا۔ اس کہانی نے ادراک کے در بچے کو واکیا۔۔۔‘‘
’’لیکن اُس درندے کا کیا ہوا؟‘‘
’’اللہ کے دربار میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اس غمناک واقع کے ٹھیک دو سال بعد اخلاص کو اپنے ہی دوست عادل نے پولیس سے پکڑوایا۔
اُس کے کالے کرتوت پولیس کے سامنے رکھے۔ یہ تو ہو ناہی تھا۔ ہر مجرم گہنگار کو اپنے کئے ہوئے کی سزا اسی دُنیا میں ملتی ہے‘‘۔
’’لیکن تُم بول رہی ہو‘‘ میں حیرت سے پوچھا۔
’’جی یہ میں نہیں تمہاری کہانی’ میں مُسکان ہوں‘ بول رہی ہے۔ تمہاری کہانی نے مجھے نامعلوم سے معلّوم کردیا۔ میں مسکان ہوں!!‘‘