مختار احمد قریشی
دنیاکا ہر انسان کسی نہ کسی رشتے سے جُڑا ہوتا ہے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو بے حد محبت، عزت اور تحفظ دیتے ہیں کیونکہ وہ ہماری زندگی کی رونق ہوتی ہیں۔ لیکن جب وہ کسی اور گھر کی بہو بنتی ہیں تو معاشرتی رویے اکثر بدل جاتے ہیں۔ جو بیٹی ماں باپ کے گھر میں پیار کا مرکز تھی، وہ شوہر کے گھر میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی نظر آتی ہے۔ اس بدلاؤ کی بنیادی وجہ وہ رویے ہیں جو ہمارے معاشرے نے اپنائے ہیں۔ یہ رویے اس وقت بہتر ہو سکتے ہیں، جب ہم اپنی بہوؤں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھنا شروع کریں۔
ماں باپ اپنی بیٹیوں کی تمام خامیوں کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ان کی اصلاح بھی محبت اور صبر سے کرتے ہیں۔ وہ ان کی ہر چھوٹی بڑی غلطی کو معاف کر کے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن جب بات بہو کی آتی ہے تو ہم اس پر جلدی تنقید کرتے ہیں۔ ہم اس کی خامیوں کو معاف کرنے کے بجائے انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ رویہ ایک نئے رشتے میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اگر ہم بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھنے لگیں تو معاشرے میں محبت، عزت اور سکون کا ماحول پیدا ہوگا۔ بہو کو بیٹی سمجھنے کا مطلب ہےکہ اس کے جذبات اور احساسات کی قدر کرنا،اس کی غلطیوں کو برداشت کر کے اسے رہنمائی فراہم کرنا،اس کی کامیابیوں پر خوشی منانا،اس کے ساتھ مشورے اور مدد کے تعلقات قائم کرنا ہے۔
جب ہم بہو کو بیٹی سمجھیں گے تو خاندان کے دیگر افراد بھی اس مثبت رویے کو اپنائیں گے۔ ساس اور سسر بہو کے لیے سپورٹ سسٹم بن سکتے ہیں اور یوں ایک مضبوط خاندانی نظام تشکیل پائے گا۔ ایسے خاندان میں بچے بھی محبت اور سکون کے ماحول میں پروان چڑھیں گے جو ایک کامیاب نسل کی بنیاد بنے گا۔ایک بیٹی جب اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر جاتی ہے تو وہ بے حد جذباتی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے ماحول، عادات اور روایات کو چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ اس کے لیے یہ تبدیلی آسان نہیں ہوتی۔ ایسے میں اگر سسرال کے افراد اسے محبت اور عزت دیں تو وہ خود کو اس خاندان کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔اگر ہر گھر یہ عزم کرے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح رکھے گا تو معاشرے میں خوشحالی اور محبت کا پیغام پھیلے گا۔ خاندانوں میں جھگڑوں اور نفرتوں کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے علاوہ خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں مدد ملے گی، وہ اپنے کردار کو زیادہ اعتماد اور خوشی سے نبھائیں گی۔
اسلام ہمیں انصاف، محبت، اور برابری کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم ؐ نے خواتین کو بلند مقام دیا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی۔ ساس اور سسر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بہو کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو وہ اپنی بیٹی کے لیے چاہتے ہیں۔بہو کو بیٹی کا درجہ دینے کے لیے صرف سوچ کا بدلنا کافی نہیں بلکہ عمل میں بھی یہ تبدیلی نظر آنا ضروری ہے۔ ساس اور سسر کو چاہیے کہ وہ بہو کے جذبات اور خیالات کو عزت دیں۔ اگر وہ اپنی رائے پیش کرے تو اُسے سنیں اور سمجھیں۔ یہ رویہ بہو کو یہ احساس دلائے گا کہ وہ خاندان کا ایک اہم حصہ ہے۔ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں، جیسے ہم اپنی بیٹی کی غلطیوں کو معاف کر کے اسے سمجھاتے ہیں، ویسے ہی بہو کی غلطیوں پر بھی صبر کا مظاہرہ کریں۔ غصے یا طنز کے بجائے محبت سے رہنمائی کریں۔بہو کو گھریلو معاملات اور فیصلوں میں شامل کریں۔ اس سے نہ صرف اسے خود اعتمادی ملے گی بلکہ خاندان کے اندر ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی۔بیٹی اور بہو کے ساتھ برابری کا برتاؤ کریں۔ جیسے آپ اپنی بیٹی کی خوشیوں اور ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، ویسے ہی بہو کے لیے بھی کریں۔ اگر بیٹی کو تحائف دیتے ہیں تو بہو کو بھی دیں تاکہ کسی قسم کا احساسِ کمتری پیدا نہ ہو۔اگر بہو کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی یا وہ کوئی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کی حمایت کریں۔ اس سے نہ صرف وہ خود مضبوط ہوگی بلکہ پورا خاندان اس کی کامیابی سے فائدہ اٹھائے گا۔
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی بھی رشتے کو مضبوط اور خوشگوار بنا سکتا ہے۔ اگر سسرال کے افراد بہو کو محبت دیں تو وہ بھی ان کے لیے عزت اور محبت کے جذبات رکھے گی۔ محبت کا یہ سلسلہ نہ صرف دو خاندانوں کو قریب لائے گا بلکہ بچوں کے لیے بھی ایک پرامن ماحول فراہم کرے گا۔ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ایک مضبوط روایت ہے۔ اگر ہم اپنی بہو کو بیٹی کی طرح اپنائیں گے تو اس نظام میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس سے نہ صرف خاندان مضبوط ہوگا بلکہ معاشرتی مسائل جیسے طلاق اور علیحدگی کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر عورت کو اپنی عزت، آزادی اور خوشی کا حق حاصل ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بہو کو گھر میں اپنے حقوق ملیں اور اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔اگر ہم بہو کے ساتھ برابری اور محبت کا رویہ اپنائیں گے تو نئی نسل کے لیے ایک مثبت مثال قائم کریں گے۔ ہماری بیٹیاں اور بیٹے بھی یہ سیکھیں گے کہ رشتوں کو محبت اور صبر سے نبھانا ضروری ہے۔
بہو کو بیٹی سمجھنے سے خاندان کا ماحول خوشگوار ہوگا اور اس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ بچے ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے جہاں محبت، عزت اور سکون کی فضاء ہو۔ یہ بچے مستقبل میں بھی انہی اقدار کو آگے لے کر جائیں گے۔آخر میں یہ کہنا کافی نہیں کہ ’’میں بھی کسی کی بیٹی ہوں‘‘ بلکہ ہمیں اس سوچ کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا۔ اگر ہم بہو کو اپنی بیٹی کی طرح عزت دیں، اس کی خوشیوں کا خیال رکھیں اور اس کے جذبات کی قدر کریں تو ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر عورت خود کو محفوظ اور عزت دار محسوس کرے۔یہ سوچ اور عمل نہ صرف خاندانوں بلکہ پورے معاشرے میں امن، محبت اور خوشحالی کا باعث بنے گا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسے اصول اور روایات قائم کریں جو ان کی زندگیوں کو بہتر بنائیں۔آئیے،!یہ عزم کریں کہ ہم اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح اپنائیں گے اور اس کی زندگی میں محبت اور سکون کے چراغ روشن کریں گے۔
رابطہ۔8082403001