سرینگر //کشمیر کو بھارت کی میوہ صنعت کا منبع کہا جاتا ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ صنعت اب کشمیر میں ہر گزرتے سال کے ساتھ زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔بادام جسے میوہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے،بھارت میں صرف کشمیر میں پایا جاتا ہے ۔لیکن بادام کی صنعت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا انداہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل تک وادی میں 18ہزار ہیکٹر اراضی پر بادام کے درخت پائے جاتے تھے لیکن اب یہ صرف 6977ہیکٹر پر پائے جاتے ہیں ۔پہلے 10ہزار میٹرک ٹن تک بادام کی فصل حاصل کی جاتی تھی لیکن اب گھٹ کر بادام کی پیداواری صلاحیت صرف 6355میٹرک ٹن تک رہ گئی ہے ۔محکمہ ہاٹی کلچر کیلئے یہ بات چشم کشا ہونی چاہئے کہ 2015میں وادی میں بڑے پیمانے پر بادام کے درخت کاٹے گئے اور صرف ایک سال میں 5665ہیکٹر اراضی کو ختم کیا گیا اور اس اراضی پر یا تو سیب کے درخت لگائے گئے یا پھر تعمیرات کھڑا کی گئیں ۔سرینگر ،گاندربل اور بڈگام میں 48فیصد بادام کی اراضی کو ختم کیا گیا ہے اور اب ان تین اضلاع میں بادام کی صرف 58میٹرک ٹن کی پیداوار نکل رہی ہے ۔وادی میں بادام کے درخت دس سال قبل 15350ہیکٹر زمین پر پائے جاتے تھے اور یہ صورتحال 2014تک رہی لیکن اب 2016-17 میں بادام کے درختوں کی اراضی صرف 6977ہیکٹر رہ گئی ہے ۔ 2010میں بادام کی پیداوار سب سے زیادہ رہی جو حالیہ برسوں میں ریکارڈ پیدا وار تھی ۔اُس برس بادام کی پیداوار 12497کی حد تک چھو گئی ۔لیکن 2011میں پیداوار کم ہو کر 3243میٹرک ٹن تک رہ گئی ۔وادی کشمیر میں سب سے زیادہ بادام کے باغات ضلع پلوامہ اور ضلع بڈگام میں پائے جاتے تھے ،اس کے علاوہ اننت ناگ ، بارہمولہ ،اور گاندربل میں بھی بادام کی اراضی کہیں کہیں پائی جاتی ہے ۔لیکن حالیہ برسوں میں جب بادام کی فصل غیر مواقف موسمی صوتحال کی وجہ سے نقصانات کے دوچار ہوئی تو مقامی لوگوں نے بادام کے درخت کاٹ کر اُن کی جگہ سیب کے درخت لگائے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ وادی میں سردی کے موسم کے بعد مارچ کے مہینے سے ہی بادام کے شگوفے نکلتے ہیں اور موسم ذرا سا بھی سرد ہونے کے ساتھ ہی شگوفے گرجاتے ہیں جس کی وجہ سے بادام کی پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ۔خشک میوہ میں بادا م کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ سب سے زیادہ لذیز ہوتا ہے لیکن موسمی صورتحال کی وجہ سے کشمیری بادام کا سائز چھوٹا رہتا ہے اور بادام کی گری کا رنگ بھی پھیکا رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے بادام کا سائز بڑا ہوتا ہے اور اس کا رنگ بھی کشمیری بادام سے منفرد رہتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں کشمیر ی بادام کا اگر کسی ملک سے مقابلہ ہے تو وہ صرف کیلیفورنیا کا بادام ہے ۔ڈرائی فروٹ ڈیلرس ایسوی ایشن کے صدر حاجی بہادر خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جی ایس ٹی سے میوہ صنعت مزید زوال پذیر ہو گئی۔ اُن کا کہنا ہے کہ ریاستی وزیر خزانہ نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ کشمیری خشک میوہ پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا ،لیکن جہاں اخروٹ پر 5فیصد ٹیکس لگایا گیا جو پہلے 12فیصد تھا ، وہیں بادام پر 12فیصد کا ٹیکس برقرار رکھا گیا ۔انہوں نے کہا ’’ اگر سرکار میوہ صنعت کو تباہی کی دہلیز پر لانے میں پیش پیش ہے تو اس بات کا اندازہ مشکل نہیں کہ اخروٹ اور بادام کی صنعت کو کون بچا سکتا ہے ۔‘‘خان نے کہا کہ 50فیصد بادام کی اراضی کو ختم کیا گیا ہے ،اس کی وجہ یا تو حکومت کی بے توجہی ہے یا پھر لوگوں نے سیب کے درخت اگانے کو ترجہی دی ۔سرینگر میں خوش میوہ کے ایک سرکرہ تاجر حاجی محمد مقبول نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ کشمیری کاغذی بادام کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب یہ ناپید ہو رہا ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں کشمیر میں بادام کی ایک لاکھ بوریاں نکلتی تھی لیکن اب صرف 30بوریاں نکلتی ہیں اور ہر بوری میں 60کلو بادام ہوتے ہیں ۔محکمہ ہارٹیکلچر کے ڈپٹی ڈائریکٹر سنٹر ل کشمیر محمد یوسف ڈار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ محکمہ کی جانب سے اس بات کی پوری کوشش ہو رہی ہے کہ بادام کے درختوں کو بچایا جا سکے اور اس کیلئے جو میکانزم تیار کیا گیا ہے اُس کے تحت بادا م کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ڈیمانسڑیشن کے ذریعے مدد کی جاتی ہے ‘‘۔اُن کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بادام کشمیر کی ایک شناخت رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں لوگوں نے اپنی زمینوں پر دیگر میوہ کے درخت اگائے جس کی وجہ سے بادام کی اراضی سکڑ رہی ہے اور نتیجے کے طور پر اس کی فصل بھی ہر سال گھٹ رہی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر سنٹرل کے مطابق اس وقت ضلع اننت ناگ میں 30ہیکٹر، کولگام میں 2، پلوامہ میں 4668، شوپیان میں 15، سرینگر میں 469، گاندربل میں 43، بڈگام میں 1469، بارہمولہ میں 258، بانڈی پورہ میں8، کپوارہ میں 13اور لیہہ و کرگل میں 2دوہیکٹر اراضی پر بادام کے درخت پائے جارہے ہیں۔