بلال فرقانی
سرینگر//حریت(ع) چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے جمعہ کو جامع مسجد سرینگر میں کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی کیلئے علاقائی مسئلہ ہوسکتا ہے مگر جموں و کشمیر کے عوام کیلئے سب سے پہلے یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کی جمعہ کو4سال سے زائد عرصے کے بعد خانہ نظر بندی کو ختم کیا گیا،جس کے بعد وہ جامع مسجد سرینگر پہنچے جہاں212ہفتوں کے بعد انہوں نے نماز جمعہ پر خطبہ دیا۔میر واعظ جونہی جامع مسجد پہنچے تو قطاروں میں انکے رفقاء اور ہمدردوں نے انہیں ہار پہنائے اور استقبال کیا۔جونہی وہ منبر پر خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے اور جامع مسجد میں رقعت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے اور کافی دیر تک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے کھڑے ہوکر نعرے بازی کی۔ اس موقعہ پر میر واعظ انتہائی جذباتی ہوئے اور انکے آنکھوں میں آنسو آئے۔بعد میں انہوں نے تقریر کے دوران کہا کہ امن کی وکالت کرنے کے باوجود، انہیں ملک دشمن، علیحدگی پسند اور امن مخالف قرار دیا گیا، جس پر انہیں افسوس ہے۔یاد رہے کہ میرواعظ کو4 اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے تناظر میں نظربند کیے جانے کے چار سال بعد جمعہ کو رہا کیا گیا۔انجمن اوقاف جامع مسجد کے عہدیداروں نے بتایا “سینئر پولیس حکام نے جمعرات کو میرواعظ کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور انہیں بتایا کہ حکام نے انہیں گھر کی نظربندی سے رہا کرنے اور جمعہ کی نماز کے لیے جامع مسجد جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے”۔میرواعظ کی رہائی، جو مختلف مذہبی تنظیموں کے سربراہ ہیں اور علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے چیئرمین ہیں، جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیے جانے کے چند دن بعد ہوئی ہے۔عدالت نے 15 ستمبر کو جموں و کشمیر انتظامیہ کو میر واعظ کی عرضی پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا۔
حریت کا موقف
حریت کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’میں اور حریت کانفرنس کے ساتھی ہمیشہ سمجھتے ہیں کہ جموں کشمیر کا جو حصہ بھارت میں ہے، ایک حصہ جو پاکستان میں ہے اور وہ حصہ جو چین میں ہے ،کو ملا کر اصل جموں کشمیر بنتا ہے، جو کہ اگست1947میں قائم تھا اور جموں و کشمیر کے منقسم ہونے کی رو سے یہ مسئلہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کو حل ہونا چاہئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی تصدیق بین الاقوامی برادری بھی کرچْکی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حریت کا مقصد جموں و کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل ہے، ذاتی عزائم نہیں، اور کشمیری تارکین وطن کی واپسی کے لیے ان کی مسلسل اپیل رہی ہے۔
وزیر اعظم
انہوںنے وزیر اعظم نریند مودی کے حالیہ بیان کہ یہ دور جنگ کا نہیں ہے۔ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم نے ہمیشہ ہر اْس طریقہ کار، جو تشدد کے بر خلاف تھا، کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ عملی طور پر اْس میں شریک بھی ہوئے تاکہ مسائل کا حل مذاکراتی اور مفاہمتی کاوشوں سے نکالا جائے‘‘۔ انہوں نے کہ اْن راستوں پر چلنا ان کے لئے آسان نہیں تھا اور اْس راستے کو اختیار کرنے سے انہیں نقصانات بھی اْٹھانے پڑے تاہم’’ افسوس کہ ہمیں علیحدگی پسند اور امن دشمن تک قرار دیا گیا اور نہ معلوم کیا کیا نام دیئے گئے۔ ‘‘ہم عالمی اور علاقائی سماج میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہر سطح پر پْرامن ہم آہنگی چاہتے ہیںاور کشمیر کی تاریخ اِس کی مثال پیش کرتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ رواداری کے ماحول کو قائم رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا اسی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوںنے ہمیشہ اپنے پنڈت بھائیوں کو واپسی کی دعوت دی اور اِس بات پر زور دیا کہ اِسے کسی سیاسی مسئلے کے طور پر پیش نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔
۔5اگست 2019
انہوں نے کہا کہ5اگست2019کے بعدجو وقت گذرا وہ آسان نہیں تھا اور انہیں اس بات کا ادراک ہے۔میر واعظ کا کہنا تھا’’۔ دفعات کو ختم کیا گیا، جموں کشمیر کی انفرادی حیثیت کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کیا گیا بلکہ اس ریاست کو ریاستی درجے سے بھی محروم کیا گیا اور تقسیم کیا گیا، خطہ لداخ کو جموں و کشمیر سے جدا کیا گیا اور عوامی رائے کے برخلاف نئے حکم ناموں کو جموں و کشمیر کے تنظیمِ نو قانون کے تحت یک طرفہ فیصلوں کی آڑ میں یہاں کے لوگوں کو کمزور اور بے اختیار بنایا گیا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی حالات مختلف نہیں ہیں، تاہم یہ وقت صبر اور تحمل کا ہے کیونکہ ان حالات میںہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں اور ہمارے لئے کوئی مکانیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصبِ میرواعظ دعوت مکالمے اور دلیل میں یقین رکھتا ہے اور یہ منصب جہاںلوگوں تک حقیقت پہنچانے کا امین ہے وہیں پر ارباب اقتدار حق بات کہنے کا پابند ہے۔ میر واعظ نے کہا’’کوئی ثابت کرکے دکھائے کہ یہ منصب کسی بھی دور میں کبھی بھی مکالمے یا مذاکرات سے انکاری رہا ہو بلکہ اِس منصب نے ہر ایک کو برابر کا درجہ دیا اور مکالمے اور مذاکرات کے ماحول کو پروان چڑھانے کیلئے کڑوے گھونٹ پیئے ، صعوبتیں اور تکالیف برداشت کئے، عظیم قربانیاں پیش کیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ روشن تواریخ ہے‘۔
نظر بند
نظر بندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سیاسی رہنما، مرد اور خواتین مختلف مقامات پر سالوں سے پابند سلاسل ہیں ۔ان کا کہنا تھا’’ بچے،صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، وکلاء وغیرہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور جتنا جلد ہو سکے اْن کو رہا کیا جانا چاہئے جبکہ اْنکے گھر والے اْنکی بگڑتی صحت کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔اپنی نظر بندی کا ذکر کرتے ہوئے میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ جمعہ کو انہیں4سال2ماہ کے بعد رہا کیا گیا اور انہیں4اگست 2019سے اپنے گھر میر واعظ منزل نگین میں خانہ نظر بند رکھا گیا تھا،جس کے نتیجے میں وہ میر واعظ کے طور پر اپنے فرض منصبی سے بھی دور رہیں۔انہوں نے کہا’’گھر میں نظر بند ہونے اور مشکل ترین حالات کے باوجود،2019کے بعد جب 2020کے اوائل میں میڈیا اور نشرواشاعت پر آہستہ آہستہ پابندیوں میں کْچھ نرمی لائی گئی حْریت کانفرنس نے تب سے لیکر آج تک حالات پر اپنے تشویش کا اظہار مختلف مواقعوں پہ برملا طور پر کیا، مگر حریت کے بیانات شائع کرنے سے ہر ایک خصوصاً مقامی میڈیا کو روکا گیا تاکہ عوام تک ہماری بات نہ پہنچے۔اپنا خطبہ دینے کے بعد، میرواعظ نے اجتماع پر زور دیا کہ وہ جامع مسجد سے پرامن طور پر منتشر ہو جائیں۔