یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صدیوں کے دامن میں پھیلی ہوئی انسانیت کی تاریخ میں ایسی عظیم معتبر،محترم ، معزز، مقدس اور حرکت و عمل سے عبارت مجسم اسلامی شخصیات نے اپنے کردار و عمل اور پاکیزہ خوبیوں سے تاریخ انسانیت کو خوبصورت اور درخشندہ بنایا ۔تاریخ کے آئینے میں ان حوالوں سے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں ابتدائی دور سے ہی تین گروہ سرگرم عمل رہے ہیں ۔
پہلا گروہ اصحاب ِرسول کریم ﷺ کا پاکیزہ گروہ بشمول اصحابِ صفہ کا کردار مرکزی رہا جو مسجد نبوی ؐ میں ہمہ وقت قیام کرتے تاکہ دین متین کی خدمت رات دن انجام دے سکیں۔ شان بے نیازی سے متصف یہ عاشقان مصطفی ؐ قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرکے معلمین ِ دین کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے ۔
دوسرا گروہ مجاہدین حق کا تھا جو محض اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے میدان جہاد کا رُخ کرتے ،اُن کی مقدس زندگیوں کا ماحصل شہادت کا حصول تھی ۔ یہ غازیانِ اسلام اور شہدائے حق اسلام کی بالادستی اور اس کے سرحدوں کی وسعت وحفاظت کے لئے اپنی عزیز جانیں تک نچھاور کر تے۔ اُن کی انمول قربانیوں سے چمنستان ِ اسلام نہایت شاداب اورسدا بہار فصلیں عالم ِانسانیت کے سامنے پیش کرتیں۔
تیسرا گروہ علمائے حق اور داعیانِ دین کا تھا، اس گروہ نے تعلیمی ماحول اور تدریسی فصل کی آبیاری کی تاکہ علم وعمل کی فصلِ بہاراں سے حاصل شدہ سرمایہ سے ایمان کی علمی اور عرفانی سیرتوں کی تعمیر کی جاسکے ۔ اس تناظر میں برصغیر اور کشمیر میں مسلمان مبلغین، فاتح، تاجراور درویش خدامست حیثیتوں سے آئے اور اپنی اپنی سطح پر تبلیغی اور اصلاحی خدمات انجام دیں۔
مورخین کی رائے میں عرب تاجر مالدیپ اور جنوبی ہند میں مختلف علاقوں میں ظہور اسلام سے قبل کاروباری مقصد سے آتے جاتے رہتے تھے ۔ پھر جب ظہور آفتاب جناب رسالت مآب ؐ کی اطلاع دنیا میں پھیل گئی تو جنوبی ہند سے ایک وفد مدینہ منورہ بھیجا گیا ۔ اس وقت سرکار دو عالم ؐ اور خلیفہ رسول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ظاہری نگاہوں سے پردہ فرما چکے تھے اور مسند خلافت پر سیدنا فاروق اعظمؓ جلوہ افروز تھے ۔ وفد کے اراکین نے ان سے اسلام کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کی اور قبول اسلام کے بعد واپس آگئے ۔ اس کے بعد چند صحابی رسول اکرم ؐ بھی تبلیغ واشاعت اسلام کے لئے جنوبی ہند تشریف لائے اور پھر انہی کی کامیاب دعوتی اور اصلاحی کوششوں سے یہ خطۂ ارض ایمان سے منور ہوا۔جناب سید سالار مسعود غازی ؒ نے شمالی ہند تک دین ِ حق کی آواز پہنچائی۔ سلطان ہند خواجہ معین الدیشن چشتی سنجری ؒ نے فروغ اسلام کے لئے ہندوستان کو اپنا مرکز بنایا اور حضرت ؒ کی پرجوش اور ولولہ انگیز کوششوں کے ساتھ ساتھ دیگر اولیائے کرام اور بزرگان دین نے برصغیر کی فضا میں اسلام اور ایمان کی بہاریں لاکر بندگان ِ خدا کی ایک بڑی تعداد کو دامنِ اسلام سے وابستہ کردیا۔ عالمی شہرت یافتہ مورخ پروفیسر آرنلڈ کے بقول حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے ہاتھوں ۹۰ ؍لاکھ لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
کشمیر میں اولاً حضرت شیخ شرف الدین عبدالرحمن بلبل شاہ صاحبؒ نے شجر اسلام کی آبیاری کی ۔ آپؒ کے بعد جس عظیم ہستی کے ہاتھوں اہل کشمیر کا مقدر بدلنا اللہ نے طے کیا تھا ،وہ حضرت سید السادات سالار عجم امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کی ذات گرامی اور آپ کے مخلص رفقائے کرام ہیں۔ برصغیر کی اسلامی تاریخ کے برعکس کشمیر میں اسلام کی دعوت کا آغاز نسبتاً دیر سے ہوا ۔ساتویں صدی ہجری میں عظیم روحانی شخصیت حضرت شیخ عبدالرحمن بلبل شاہؒ نے یہاں تبلیغ اسلام کی طرح ڈالی۔آپؒ کے بعد خطہ کشمیر میں دین اسلام کی مکمل آبیاری اور پورے خطے کو ایمان اور اسلام کی دولت سے سرفراز کرنے میں ہمدان ختلان سے تشریف لانے والی عبقری شخصیت اورداعیٔ بے بدل حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی ؒ سر فہرست ہے ،جنہوں نے ۷۰۰؍ سادات اور اپنے رفقائے کرام کے ساتھ کشمیر کو دولت اسلام سے آراستہ و پیراستہ کیا۔حضرت امیر کبیرؒ اور آپ کے ساتھ وارد ِ کشمیر ہونے والے جو رفقائے حق کشمیر آئے انہوں نے یہاں دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرتے ہوئے، روحانیت کو فروغ دیتے ہوئے اور اعلیٰ اسلامی اصولوں کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے نومسلم کشمیریوں کو ساتھ ہی ساتھ دست کاریوں کی وساطت سے معاشی طور خود کفیل بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ تاریخ کشمیر کا ایک سنہرا باب ہے ۔
حضرت امیر کبیر کے ساتھ کشمیر آنے والے خانوادوں میں میرواعظین کشمیر کا خاندان بھی شامل تھا جس کے جد امجد سب سے پہلے ترال میں قیام پذیر ہوئے پھر بعد میں دعوت وتبلیغ کے لئے شہر خاص سرینگر منتقل ہوئے اور میرواعظ کشمیر کی حیثیت سے کشمیر کی مرکزی جامع مسجد سے اپنی دینی ،ملی ، سماجی اور تبلیغی و دعوتی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرکزی جامع مسجد سرینگر کا منبر و محراب صدیوں سے جہاں قال اللہ قال رسول ؐ کا مرکز و منبع رہا ہے، وہاں اس عوامی سٹیج سے بے تحاشہ رُکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود کشمیری عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہوتی رہی ہے ۔ دعوت اسلام ، اشاعت اسلام ، حفاظت اسلام اور کشمیری معاشرہ اور سماج کی ہمہ جہت اصلاح کے حوالے سے میرواعظین کشمیر کا رول انتہائی اہمیت اور قدر و منزلت کا حامل رہا ہے ۔اس کا اعتراف مخالف ، موافق سبھی حلقے کرنے پر مجبور ہیں۔اسی اسٹیج سے کشمیری عوام کے دینی، ملی ، سماجی اور سیاسی مسائل کی بھر پور ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا رہا اور حق و صداقت کی آواز ہمیشہ بلند کی جاتی رہی ۔
گوکہ میرواعظ کا منصب اور جامع مسجد سرینگر لازم و ملزوم ہے ۔ تاہم کشمیری عوام کے بہتر مستقبل اور انہیں زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھانے کیلئے وقت کے میرواعظ علامہ رسول شاہ صاحب نے آج سے تقریباًسوا سو سال پہلے ملت کشمیر کی غربت، جہالت اور مظلومیت کا علاج تعلیم کو بروقت سمجھ کر یہاں پہلی بار ۱۸۹۹ء میں انجمن نصرۃ الاسلام کی داغ بیل ڈالی اور پھر بعد میں اس کی شاخیں شہر سرینگر کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ، بجبہاڑہ، سوپور وغیرہ علاقوں میں پھیلائی گئیں۔ تعلیم کے نور کو عام کرنے کی وجہ سے ہی کشمیری عوام خاص طور پر یہاں کے مسلمان ہر میدان میں آگے بڑھنے لگے ۔ایک انگریز مورخ کے بقول کہ کشمیر میں انجمن نصرۃ الاسلام کی بنیاد ڈالنے سے ہی یہاں کے لوگوں کو اپنے سیاسی حقوق کی جانکاری اور آگاہی حاصل ہوئی۔مورخین کے مطابق میرواعظ کا اعزازی لقب مولوی خاندان (یعنی میرواعظ خاندان) کے سرکردہ واعظین کو اُن کے غیر معمولی قوت بیان ، تاثیر ، اثر پذیری اور بے انتہا عوامی اثر و نفوذ کی بنیاد پر صدیوں قبل افغانوں کے دور حکومت میں دیا گیا تھااور تب سے لے کر آج تک یہ لقب ایک تقدس مآب علامت اور نشان کے طور پر مرکزی جامع مسجد سرینگر کے خطیب اور واعظ کو دیا جاتا ہے ۔میرواعظ کشمیرکا مقام اور اس کی عظمت اور حیثیت کیا ہے، اس ضمن میں مفکر اسلام علامہ سید ابو الحسن علی ندویؒ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ’’اسلام کا آفاقی پیغام‘‘ کے مقدمہ میں اپنے وقت کے معرکتہ الآرا میرواعظ میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحبؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرواعظین کے قدیم و معروف خاندان میں ان ہستیوں کو پیدا کیا جنہوں نے کشمیر میں دین کی صحیح تبلیغ اور مسلمانوں کے اعتقادات اور اعمال کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا۔ ان میں میرواعظ مولانا محمد یحییٰ صاحب اور خصوصیت کے ساتھ میرواعظ رسول شاہ صاحب متوفی ۱۳۳۷ھ قابل ذکر اور مستحق شکر ہیں جنہوں نے انجمن نصرۃ الاسلام جیسے مبارک ادارے کی بنیاد رکھی ۔ ان کے بعد میرواعظ احمد اللہ صاحب، میرواعظ مولانا عتیق اللہ صاحب، پھر میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحب متوفی ۱۳۸۹ھ کا نام جلّی اور زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ان کے بعد یہ منصب جلیل عزیز گرامی منزلت مولانا محمد فاروق صاحب میرواعظ کے حصے میں آیا اور خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے اس کی روایات کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ بدلے ہوئے زمانہ ، نازک سیاسی صورتحال اور عصر حاضر کے پیچیدہ معاشرہ اور تمدن کے مطابق اس میں نئے فکر و نظر ، جدید مطالعہ ، حقیقت پسندی اور کشمیر سے باہر ملک کے ملی مسائل و مصائب کا علم و احساس ، مختلف مسلم جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل اور عالم اسلام کے ساتھ وابستگی اور ربط و تعلق کا اضافہ کیا(بحوالۂ اسلام کا آفاقی پیغام صفحہ ۱۲)
افسوس میرواعظ کشمیر کے تقدس مآب منصب کی قبولیت عامہ کے پیش نظر اب ایک عرصے سے بعض مفاد پرست قوتوں اور ایجنسیوں کی جانب سے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے ساتھ میرواعظ لقب کا لاحقہ اور منصب جوڑ کر عوامی ذہنوں میں شکوک و شبہات اور انتشار پیدا کرنے کی مذموم کوششیں جا ری ہیں ۔ یہ امر غور طلب ہے ۔ اس طرح کی حرکت کا آغازمرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحبؒ کے عین عروج اور شہرت کے دور میں اُس وقت کیا گیا جب مرکزی جامع مسجد سرینگر سے محض آدھے کلو میٹر کی دور ی پر ملہ کھا سرینگر(مسلمانان کشمیر کا آبائی قبرستان جسے کشمیر میں داعی ٔاسلام حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنی ذاتی ر قم سے خرید کر مسلمانان ِ شہر کی تدفین کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر وقف کیا تھا) وہاں ایک واعظ نے اپنے سادہ لوح مریدین و متعقدین کو مسجد میں جمع کر کے اپنے آپ کو میرواعظ کشمیر کہلوانے کی ناکام کوششیں کیں۔اس ضمن میں موصوف کو بعض مقامی اخبارات کی تائید و حمایت بھی حاصل رہی لیکن وقت کی گردش کے ساتھ یہ انتشاری کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں اور آج فراموشی کی گرد میں غائب ومعدوم ہیں۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے قصبہ اسلام آباد میںایک اور صاحب نے اپنے آپ کو جنوبی کشمیر کا میرواعظ کہنا شروع کیا ۔ ۱۹۹۰ء میں میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحبؒ کے وصال کے فوراً بعد کشمیری عوام کی شدید خواہش اور اصرار پر میرواعظ موصوف کے کمسن اور اکلوتے فرزند مولوی محمد عمر فاروق کو مرکزی جامع مسجد سرینگر کے اندر حسب روایت بحیثیت میرواعظ کشمیر دستار بندی عمل میں لائی گئی ۔ اس منصب جلیلہ پر آپ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کے لئے کوشاںہیں۔
الحمد للہ کشمیری عوام ہر لحاظ سے بالغ نظر ہیں، سیاسی بصیرت کے مالک ہیں اور وہ میرواعظ کشمیر کے خلاف ان سازشوں سے خبردار ہیں۔ دراصل میرواعظین کشمیر کو قول و عمل میں یکسانیت اور جو کچھ وہ عوام کے سامنے کہتے پہلے خود اس معیار پر پورا اُترنے کی کوشش کرتے رہتے تبھی تو انہیں عوامی قبولیت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔اب پھر سے گزشتہ پانچ سات برسوں میں ایجنسیاں اور مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر متحرک ہیں اور موجودہ ناک وقتوں میں میرواعظ کشمیراپنے اسلاف کی طرح جس طرح قوم و ملت کے مسائل کی بے باک ترجمانی کررہے ہیں ،اس بے باکانہ عمل کو زک پہنچانے کیلئے یہ ایجنسیاں متحرک ہو گئی ہیں اور جگہ جگہ فرضی میرواعظ کھڑے کرکے اس منصب کے تقدس اور اہمیت کو پامال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مختلف مقامات پر اس طرح کے چھچھوندروں کے نام کو پبلسٹی اورتشہیر دی جارہی ہے اور شہر ودیہات میں نام نہادمیرواعظین کا جال پھیلادیا گیا ہے ۔ صورتحال کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ جو بھی شخص دوچار حرف پڑھ کر واعظ ، خطیب ، امام اور مقرر بن کر منبر و محراب کا استعمال اپنی ذاتی پروجیکشن پر کر نے کا جرم کرتا ہے وہ اپنے کو میرواعظ اور رائیس الواعظین کہلوانے اک نیا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ظاہر ہے یہ نہ صرف ایک گہری سازش ہے مرکزی جامع مسجد سری نگر اور منصب میرواعظ کے خلاف بلکہ اہل کشمیر کے اتحاد ویکانگت کے لئے بھی ایک بہت بڑا صدمہ خیز المیہ ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ کشمیر کے میرواعظ خاندان کو اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص اور للہیت کے پیش نظر اپنے خصوصی افضال اور عنایات سے نوازا ہے اور اس خانوادہ کو آج بھی وہی قبولیت ِعامہ عطا فرمائی ہے جو روزاول سے دینی اخلاق کے حاملین ، اصلاحی اورتعمیری جذبہ رکھنے والوں اور بے لوث کام کر نے کا صلہ ہوتا ہے ؎
یہ منصب بلند ملا ، جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
مر سلہ: عوامی مجلس عمل جموں وکشمیر