محمد ہاشم القاسمی
شریعت مطہرہ کے تمام شعبہ جات کی خوبیاں کتابوں میں پڑھنے کے مقابلے اس پر عمل کرنے سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، کسی بھی شٔے کی تھیوری جاننا ضروری ہے تا ہم جب تک وہ پریکٹیکل مرحلہ سے نہ گزر جائے ،اس کی افادیت سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لئے ہمیں اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت و صداقت واضح کرنا چاہئے، مثلاً میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے۔ حدیث پاک میں اسے نصف علم قرار دیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے لوگو! فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو، اور اِسے لوگوں کو سکھاؤ بے شک وہ نصف علم ہے اور وہ سب سے پہلے بھلا یا جائے گا اور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔ ‘‘(دارقطنی کتاب الفرائض )حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا’’میراث کے مسائل کو سیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا ایک حصہ ہے۔‘‘(الدارمی )۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’جو شخص قرآن کریم کو سیکھے اس کو چاہئے کہ وہ علمِ میراث کو بھی سیکھے‘‘۔(البیہقی و طبرانی )
بہت سارے دین دار کہلانے والے لوگ جو نماز، روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں، اُن کو اِدھر اُدھر کی باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں، لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ہوتا، یہ انتہائی غفلت کی بات ہے۔علم فرائض کی تعریف یہ ہے کہ وہ علم، جس کے ذریعہ میت کے غیروارثین اور وارثین اوران کے حصوں کی جانکاری حاصل ہو ۔ علم فرائض کی غرض وغایت یہ ہے کہ میت کی میراث کو وارثین میں ان کے حقوق کے مطابق تقسیم کرنا ہے اور علم فرائض کا موضوع’’ترکہ‘‘ ہے، یعنی وہ جائداد جسے میت نے بوقت وفات چھوڑی ہو۔علم فرائض کو جملہ تفصیلات کے ساتھ جاننا فرض کفایہ ہے ، لیکن کم از کم اتنا جاننا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ میت کی جائداد کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے مستحقین تک پہنچ جائے ۔ لہٰذا سب سے پہلے یہ سمجھئے کہ علمِ میراث کے تین اجزاء ہیں۔ (۱) مُوَرَّث: وہ میت جس کا ساز وسامان وجائیداد دوسروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ (۲)وَارِثْ: وہ شخص جس کی طرف میت کا ساز وسامان وجائیداد منتقل ہورہی ہو، وارث کی جمع ورثاء آتی ہے۔(۳)مَوْرُوْث:ترکہ یعنی وہ جائیداد یا ساز وسامان جو مرنے والا چھوڑ کر مرا ہے۔
مرنے والا تو مر گیا لیکن اس نے اپنے پیچھے جو مال و جائیداد چھوڑا ہے، وہ تمام مال وجائیداد میں کُل چار حقوق وابستہ ہوتے ہیں۔(۱)میت کے مال وجائیداد میں سب سے پہلے اس کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے، اگر کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے کفن و دفن کا انتظام کر دے تو ترکہ سے یہ رقم نہیں لی جائے گی۔(۲) میت کے ذمہ اگر کوئی قرض ہے اس کو ادا کیا جائے، چاہے قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال خرچ کرنا پڑ جائے۔ اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو یہ بھی قرضہ ہے، اسے ادا کرنا ضروری ہے اور بیوی کو یہ مہر میراث کے علاوہ ملے گا۔ مہر کا بیوی کے میراث کے حصہ سے کوئی تعلق نہیں، مہر الگ دیا جائے گا اور میراث کا حصہ الگ دیا جائے گا۔ (۳)تیسرا حق یہ ہے کہ اگر قرض ادا کرنے کے بعد مال بچا ہے، تب اگر مرنے والے نے کوئی وصیت کی ہے تو ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا واجب ہے۔مثلاً اگر کسی شخص کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد 9 لاکھ روپے کی جائیداد بچتی ہے تو 3 لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کیلئے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ایک وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کیلئے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا‘‘۔ (ابن ماجہ،باب الحیف فی الوصیہ)(۴)چوتھا حق یہ ہے کہ پھر باقی مال اور جائیداد کو شریعت کے مطابق وارثین میں تقسیم کردیا جائے۔ اس چوتھے حق کے بارے میں آج کل ہمارے معاشرے میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ مرنے والے کے مال کو ورثاء میں تقسیم کرنا چاہیے اور جو لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک اہم فریضہ ہے ،اُن میں بھی بہت سے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ شریعتِ مطہرہ کے احکام میں سے وراثت تقسیم کرنے کا حکم ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور وراثت تقسیم نہ کرنا اور دوسروں کا حصہ اپنے قبضہ میں رکھ کر استعمال کرنا نہایت سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنے اکثر احکامِ شرعیہ کے صرف اصول بیان کئے ہیں اور تفصیلات نبی کریم صلیﷲ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے مسلمانوں کو سمجھائی ہیں، لیکن بعض احکام کی اہمیت کے پیشِ نظر ان کی تمام تفصیلات کو بھی قرآن کریم نے خود پوری تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ وراثت کی تقسیم کا حکم بھی اُنہی احکام میں سے ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کا پورا قانون تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔اسی لیے میراث کو شریعت کے مطابق انصاف سے تقسیم کرنا جنت کے اعمال میں سے ہے اور ایک حدیث شریف میں وراثت کی تقسیم میں ظلم اور ناانصافی سے بچنے پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’تم اچھے چیزوں کی ضمانت لے لو، میں تمھارے لیے جنت کا ضامن ہو جاؤں گا۔ ان چھے چیزوں میں سے آپ صلیﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا: وراثت کی تقسیم میں ناانصافی مت کرو، اپنی طرف سے انصاف کرو‘‘۔ (مجمع الزوائد)میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ جو مال بچ گیا وہ میت کے ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا ،مثلاً میت کی بیوی (بیوہ) کو آٹھواں حصہ، بیٹیوں کو دو تہائی اور بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے۔ والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا خود تن ِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز، حرام اور سخت گناہ ہے۔ بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا۔ حدیثِ پاک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہے۔ حضرت سعید بن زیدؓ فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین بھی زبردستی لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی، ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
شریعتِ مطہرہ نے جس طرح بیٹوں کو میراث میں حصہ دیا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْن(سورۃ النساء)۔ لہٰذا کسی بھائی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ بہنوں کو میراث سے محروم کردے۔ واضح رہے کہ عورت چار حیثیتوں سے وارث بنتی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، ہر صورت میں حق اور حصہ الگ الگ ہوگا۔(مضمون جاری ہے)