آہ برماکے مظلومین!!!دنیا تماشہ بین!!!انسانیت دم بخود!!!مسلمانان عالم کے پٹھوحکمران خاموش!!!اپنی اپنی راجدھانیوں میں تخت و تاج سے چمٹے ہوئے !!! فکریں عارضی دنیا میں اونچی سے اونچی عمارت تعمیر کرنے پرمرکوز!!!اس لئے مظلوم مسلمانوں سے ان کی لاتعلقی اوربے گانگی حیران کن نہیں!!! اُن کے ہونٹوں پر ثبت مہر بھی نئی نہیں!!! تمام مسلمان اغیارکی ریشہ دوانیوں کے شکار!!!عالمی امن اور حقوق البشر کے بے ضمیر ٹھیکیدارخاموش ہیں !!!موم بتی بریگیڈپرمرونی چھائی ہے!!!یورپ میں کسی حادثے کے پیش آنے پراپنے پروفائل پراس ملک کاجھنڈانصب کرنے والے مدہوش ہیں!!!انسانی حقوق کے علمبرداران خوابِ خرگوش میں مست !!!ہرطرف خاموشی اور بے حسی کا عالم ہے!!!۔۔۔مگرکیوں؟؟؟کیونکہ روہنگیا مسلمان اور کلمہ خوان ہیں۔آج برما مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے۔برما لہو لہو ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہؐ کا حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی وغیرہ ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی جنگی سازوسامان لئے برماپہنچ جاتیں، امریکی قیادت پر اعصاب شکن دورے ختم ہی نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً سے بیشتر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی بڑی رقومات پیش کرتے کہ ان کی ریاکارانہ دریا دلی پرآنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیںلیکن افسوس ایسا برمی مسلمان بودھ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوتے جارہے ہیں اور کوئی اُف بھی نہیں کرتا کیوں کہ برمی مقتولین بے چارے غریب اورمفلوک الحال مسلمان ہیں۔تادم تحریرتین دنوں میں برماکی سفاک فوج اوربدھ بھکشوؤں نے مل کربلالحاظ عمروجنس تین ہزارسے زائدروہنگیامسلمانوں کوشہیدکرڈالا ہے ،جن میںشیرخواربچے ،عورتیں،معمرین اورنوجوان سب شامل ہیں۔ مقتولین کے لئے کوئی آواز اٹھ رہی ہے اورنہ ہی ان غریب الوطن اورمظلومین کو کوئی سر چھپانے کی جگہ دینے پرآمادہ ہے۔ افسوس صد افسوس! آج کا انسان کتناسنگ دل اور کتنا تنگ دل ہو گیا ہے کہ اس کے دل میں رحم کھانے کے لئے کوئی گوشہ نہیں ۔سوشل میڈیاپربرمائی مسلمانوں کی مظلومیت اورانہیں بے رحمی کے ساتھ قتل کئے جانے کی خوفناک تصاویروائرل ہیں مگر انہیں دیکھانہیں جاتا۔روہنگیامسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی پوری کی پوری اورمکمل ویڈیوز کسی بھی حساس دل ا نسان سے نہیں دیکھی جارہی ،نا ہی کوئی دردِ دل رکھنے والا انسان ان کوبرداشت کر سکتا ہے کیونکہ ان پرپہلی نظرپڑتے ہی دل دہل جاتے ہیں اوراشکوں سے آنکھیں سوجھ ہوجاتی ہیں ۔
یہ سطورلکھتے ہوئے،میرے ہاتھ کپکپارہے ہیں۔کس طرح انسانوں کی بستیوں کی بستیاں آگ زنی کر کے سوختہ کی جارہی ہیں اورروہنگیاکو زندہ آگ میں بھسم کیاجارہاہے۔کیسے عورتوں کو ننگا کر کہ درختوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے اورپھرانہیں چیرا پھاڑا جاتا ہے۔ کیسے بچوں کے اعضا ء چیرے پھاڑے جاتے ہیں۔ کیسے نوجوانوں کو زندہ دفن کیا جاتا ہے، ہزاروں عورتوں، بوڑھوں، بچوں کے قتل ِ عام سے دیہات کے دیہات،سڑکیں، ویرانے اورجنگل برمی مسلمانوں کی لاشوں سے بھرے پڑے ہیں، ندی نالوں میں برما کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ درندگی کے ان تازہ واقعات میں محکوم مسلمانوں کی بستیاں اور دیہات جلا کر مکینوں کوصفحہ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا ہے۔ اس ظلم اور بربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج تو دور کی بات ، نرم وملائم الفاظ میں بھی کہیں سے رسمی طور مذمتی الفاظ تک ادا نہیں کئے جا رہے ہیں۔ خاص کر بے مقصد چیخنے چلانے والے اور بریکنگ نیوز کے لئے ہر وقت مضطرب وبے چین رہنے والے میڈیا نے برما کے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظام پر دانستہ طور اور مصلحتا خاموشی اور بے حسی کی انتہا کر دی ہے اور ساری دنیا ان بے یار ویاور مظلومین کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کوئی ان کا غمگسار نہیں۔ 57؍مسلم ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جوتادم تحریرکھڑاہوا ہو، اور نہ ہی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے ان کی کوئی بات کی ہو۔ بکھری ہوئی منتشر اُمت کے حکمران سوائے ایک ترکی کے ائمہ کفر کے ہاتھوں اس قدر بک چکے ہیں کہ وہ روہنگیاکے لئے ہمدردی کاایک بول بولنے کے لئے بھی تیارنہیں۔ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان حکمران کلمہ طیبہ کی بنیاد پرکرہ ارض کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پرہورہے ظلم وستم اوربربریت کے خلاف نہ صرف آواز اٹھاتے تھے بلکہ عملی اقدام کرتے تھے اور دو ٹوک اور ایمان افروز موقف یہ رکھتے تھے ؎
گردن کٹے کسی کی تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
برما میں مظلوم اور نہتے مسلمان جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر طرف موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دکھ، مصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پوری دنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لے کر مذہبی اور سیاسی رہنما ؤںتک ان انسانیت سوز واقعات پر خاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکم سے ہمیں روشناس کرایا تھا :’’ اُمہ ایک انسانی جسد کی طرح ہے ،کسی بھی حصے میں تکلیف ہو ،سارے جسم کو اس کااحساس ہوتا ہے ‘‘۔ یہی جذبہ تھا کہ جب راجہ داہر کے زمانے میں ایک مسلم خاتون نے وقت کے مسلمان حکمران کو مدد کے لئے پکارا تو اس وقت کے مسلمان حکمران حجاج بن یوسف نے باوجود متنازعہ فیہ امور میں ملوث ہونے کے ،اس خاتون کی آواز پر صاد کیا اور محمد بن قاسم شہید کو دیبل سے ٹکرانے کو بھیج دیا مگر صد حیف کہ اب مسلمانانِ عالم اگر ایک جانب مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہو رہا ہو تو محض یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے سیاسی طور پر ان کے اپنے ملک وقوم کا مفاد وابستہ ہے یا نہیں اور مسلم جینوسائیڈ کے تمام معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔
میانمار میں مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی جا رہی ہے ،جس منظم انداز میں ریاستی سطح پربے دردی سے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے ، جس بے دردی اور سفاکی سے برماکے مسلمان زندہ جلا رہے ہیں، اس ظلم وستم پر نظر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار سب کے سب صم بکم عمی کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں ۔ویسے بھی ہمیں ان سے کیا گلہ وہ ہمیں اپنی مخصوص تعصب زدہ عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں ، گلہ توہمیں گلہ اپنوں سے ہے کہ نیل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر کسی مسلمان حکمران کے منہ میں زبان نہیں اور ان کے لبوں کو اظہارِ جرأت نہیںیہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ وہ اس بدترین نسل کشی کو رکوانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے ۔آج جوکچھ برمامیں ہورہاہے وہ برماکی صدر آنگ سان سونچی جسے نام نہاد’’ عالمی امن کاایوارڈ‘‘مل چکاہے، کروارہی ہے ،اس ڈائن کو شایداسی درندگی کوقائم رکھنے کے لئے نوبل ایواڈدیاگیا۔اسی کے خونی ہاتھوں روہنگیاکے مسلمانوں کے موت کے پروانے لکھے جارہے ہیں۔ بدھ بھکشو آکین اوربرمی آرمی کے ہاتھوں برمی مسلمانوں قتل ِعام اوران کاجلائواورگھیرائو اسی ڈھیٹ عورت کے آڈرپرہورہاہے جسے امن اور حقوق انسانی کی دیوی ہونے کاانعام دیا جا چکاہے ۔ اس کے قاتلانہ طرز عمل سے خوب پتہ چلتا ہے کہ دنیائے کفر کے یہاں امن کے کیا معنی و مفہوم ہیں ۔
بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاس اور چین کی سرحدوں سے لگتا ہے۔ برما کی تاریخ بھی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے زیادہ فرق نہیں۔ کالونیل دور میں بننے والی فوج، آج بھی اپنی سرحدوں میں بسنے والوں پر ریاست کے نام پر ظلم کرنے میں ماہر ہے۔روہنگیا، سابق ارکان اور موجودہ رخائن میں موجود مسلمان گروہ ہے جو خود کو عرب جہاز رانوں کی نسل سے بتاتا ہے۔ ان کی تعداد اتقریباََ 10 لاکھ سے زائد ہے۔ 1982 ء کے برمی شہریت کے قانون کے مطابق، وہ لوگ جو 1823 ء کے بعد برٹش انڈیا کے کسی علاقے سے یہاں آئے، برما کے شہری نہیں ہیں۔ 1982ء کا شہریت کا قانون ایک فوجی جرنیل ہی کا بنایا ہوا ہے اور وہ روہنگیا کو میانمار کی باقی دس نسلوں میں شامل نہیں کرتے۔اس طرح یہ دس لاکھ لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہے، جو کسی ریاست کے رہائشی نہیں۔ان کو نہ تو سرکاری تعلیم کی سہولت مل سکتی ہے، نہ ہی سرکاری نوکری اور نہ ہی یہ عام شہری کی طرح آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ان کو بنگلہ دیشی مہاجر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ، ان کے ثقہ ،معتبراورمضبوط حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ 15 ؍ویں صدی سے یہاں آباد ہیںمگر اندھ کار کے تراشیدہ بدھ نیشنلسٹ انہیں جان بوجھ کرغیرریاستی باشندے کہہ کرمار رہے ہیں۔
میانمار میں 1962 ء سے 2010 ء تک مارشل لا لگا رہا اور اس دوران کئی بار روہنگیا کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا۔ نوے کی دہائی میں کئے جانے والے کریک ڈائون کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔بنگلہ دیش کے علاوہ یہ لوگ، پاکستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی پناہ گزین ہیں۔میانمار کی حکومت ’’روہنگیا‘‘کے بجائے انہیں بنگالی کہتی ہے اور وہاں یہ مختلف بدحال کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ بدھ قوم پرستوں کے خوفناک رویے کے ساتھ ساتھ انھیں برمی فوج کی طرف سے، قتل و غارت، قید، بدسلوکی اور دیگر مظالم کا بھی سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی انجمنیں ان مظالم کو’’انسانیت کے خلاف مظالم‘‘قرار دے رہی ہیں۔جب کہ اکتوبر 2015 میں لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے کچھ محققوں نے ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں بتایاگیاکہ میانمار حکومت کے زیرِ سر پرستی، روہنگیا کی باضابطہ نسل کشی آخری مراحل میں ہے۔
جن نا گفتہ بہ حالات میں روہنگیا، برسوںسے رہ رہے ہیں، ایسے میں ان کی طرف سے جواب ملناکوئی حیرت انگیز بات نہیںکیوںکہ بدھسٹ سفاکوں،برما کی قاتل فوج اوربرمی جابرحکومت کی مسلسل قتل وغارت گری کے ردعمل میںبالآخر روہنگیا نوجوان مرنے سے قبل اپنے قاتل کوگریبان پکڑ کرجھٹک سکتے ہیں ،یہ فطری امر ہے۔ کسی جانورکوبھی جب یہ لگتاہے کہ اسے مارنے کی کوشش کی جارہی ہے تووہ بھی جوابی حملہ بول دیتاہے ،چہ جائیکہ کہ انسان ہوں۔اپنی تازہ بربریت کوجوازبخشنے کے لئے برما کی سفاک حکومت یہ حیلہ تراشتی ہے کہ 25اگست 2017جمعہ کو ریاست رخائن میں پولیس سٹیشنوں، سرحدی چوکیوں اور فوجی اڈوں پر روہنگیانے حملے کئے اوران حملوں میں 70 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔حملوں کابہانہ تراشتے ہوئے میانمار کی قاتل فوج میں اورز یادہ بربریت بھڑک گئی اوراس کی بربریت سے ایک خوفناک انسانی المیہ نے جنم لیا ۔اس بربریت کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ ہرطرف روہنگیالاشیںبکھیردی گئی ہیںورانہیںان کی جھوپڑیوں میںجلاکرراکھ بنادیا جارہاہے۔ میانمار کی قاتل فوج نے اپنی بربریت کس قدرتیزکردی، اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ صرف ایک دن میں برماکی سفاک آرمی نے2600 سے زیادہ گھر جلا دیے۔اقوام متحدہ کی ایک اعلی اہلکار ینگہی لی کاکہناہے کہ میانمار میں فوج اور پولیس ملک کی روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف’’انسانیت سوز جرائم‘‘کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
اس تازہ خون آشام بربریت کے باعث ایک بار پھر روہنگیا کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش میں پناہ لینے پہ مجبور ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ ریاست رخائن میں تقریبا 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ بودھوں کی اکثریتی آبادی جنہیں قتل کررہی ہے ،اس کے باعث برسوں سے اب تک دسیوں ہزاروں روہنگیا جبراًبنگلہ دیش نقل مکانی کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش میں بلاکھلی کے علاقے میں قائم عارضی کیمپ میں آنے والے روہنگیا اپنے ساتھ دل دہلا دینے والی کہانیاں لائے ہیں۔پناہ گزینوں کی عالمی ایجنسی آئی او ایم کا کہنا ہے کہ میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے رخائن میں پرتشدد واقعات کے بعد ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں 18 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان علاقے سے نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش میں آنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ ہزاروں دیگرایسے افرادبنگلہ دیش کی سرحد پر موجود ہیں جنہیں بنگلہ دیش اندرآنے کی اجازت نہیں دے رہا،اوروہ بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔وہ پکاررہے ہیں کہ ہمیں بچا لو، ورنہ ہمیں مار دیا جائے گا۔واضح رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر سے اب تک ایک لاکھ روہنگیا مسلمان نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔
آج تمام اقوام غیر آپس کے اختلافات بھلا کر اسلام کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ یہود ونصاری،ہنود،بودھسٹ اور تمام غیر مسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ پڑے ہیں۔ غیر مسلم طاقتیں ایک طرف تمام مسلم ممالک کی بے وقوف اور خود غرض وانا پرست قیادت کے باعث ان کے وسائل کو لوٹ رہی ہیں ، دوسری جانب انہیں وسائل کو امت مسلمہ کے چھوٹے اور معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل ِ عام کرنے سمیت امت مسلمہ کے درمیان مزید اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ اور ہم ہیں کہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ آج دنیا کی محبت اور چاہ نے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلا دیا ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال ؎
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدریؓ فقر ہے ، نے دولت عثمانیؓ ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت ِروحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
کیا! آج پوری امت مسلمہ میں کوئی ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسا نہیں، جو اللہ سے ڈرنے والا، قانون، انصاف کا پابند اور صاحب کردار ہو جو مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار دوبارہ واپس دلا سکے اور جو پوری دنیا میں پھیلے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے، برما سمیت دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل ِ عام کے خلاف آواز اٹھا سکے؟