یواین آئی
نئی دہلی// کانگریس نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن 23 جولائی کو اپنا ساتواں بجٹ پیش کریں گی اور انہوں نے اس سلسلے میں صنعت کاروں، بینکروں اور کسان تنظیموں سے بات کی ہے، لیکن ملک میں سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری، اور مہنگائی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور اسے کم کرنے کے ان کے ارادے واضح نہیں ہیں کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے جمعہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بڑا بحران یہ ہے کہ ملک کی ایک فیصد آبادی کے پاس تقریباً نصف دولت ہے، جس کی وجہ سے غریبی اور دولت کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں نوکریاں نہیں ہیں اور نوکریاں صرف کنٹریکٹ کی بنیاد پر بن گئی ہیں۔ کنٹریکٹ ملازمتوں کی شرح دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ فی الحال حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی قدم اٹھاتی نظر نہیں آتی۔انہوں نے کہا کہ آج ملک میں معاشی عدم مساوات کی شرح برطانوی راج سے بھی بدتر ہے۔ اس ملک کی ایک فیصد آبادی ملک کی 40 فیصد دولت پر قابض ہے۔ جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ کیا یہ بجٹ اس خلا کو پر کرنے کے لیے کچھ کرے گا؟ ملک کے 48 فیصد خاندان مالی بحران کا شکار ہیں۔ لوگوں کی آمدنی کم ہو گئی ہے اور وہ بچت کے سہارے گزارہ کر رہے ہیں۔ آج ملک کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ’’آمدنی اٹھنی اور خرچ ایک روپیہ‘‘۔ترجمان نے کہاکہ ‘‘وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اپنا ساتواں بجٹ پیش کریں گی۔ یہ بجٹ بنانے سے پہلے وہ کچھ صنعت کاروں، بینکروں اور کسان تنظیموں سے ملاقاتیں اور بات چیت کر چکی ہیں، لیکن کیا وہ ان خاندانوں سے ملی ہیں جو تین وقت کا کھانا نہیں کھا پاتے؟ کیا وہ ان خواتین سے ملی ہیں جو مہنگائی سے نبرد آزما ہیں؟ کیا وہ ان کسانوں سے ملی ہے جو اپنی فصلوں کی صحیح قیمت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؟ کیا وہ ان نوجوانوں سے ملی ہے جو پیپر لیک سے پریشان ہیں؟ کیا وہ حقیقی ہندوستان سے ملی ہیں؟ یہ واضح ہے کہ وہ اس سے نہیں ملی ہیں۔ یہ بجٹ چند سرمایہ داروں کو امیر بنانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔کسانوں کی حالت کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ‘‘مارچ 2024 میں جھانسی، اتر پردیش کے رہنے والے کسان پشپندرا اپنی چھوٹی زمین پر مٹر اور گیہوں کاشت کرتے تھے۔ ہر کسان کی طرح اسے بھی مسلسل خسارے کا سامنا تھا، آمدنی مسلسل کم ہو رہی تھی اور اخراجات بڑھ رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ان پر تقریباً 1 لاکھ 4 ہزار روپے کا قرض چڑھ گیا۔ وہ یہ قرضہ واپس نہ کرسکے اور آخرکار مالی تنگی کے باعث خودکشی کر لی، لیکن وزیر خزانہ یا وزیر اعظم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے ان کے لیے بجٹ نہیں بنایا گیا۔