اٹھارویں ، انیسویں اور بیسویں صدی میں استعماری قوتیں پوری شدت کے ساتھ مسلم دنیا پر قابض ہونے لگیں۔ جس کی وجہ سے عالم اسلام نے نہ صرف اپنی غیرت اور اعتماد کو کھو دیا بلکہ وہ خود بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر بھی رضا مند ہو گئے۔لیکن اس کے باوجود مسلم دنیا کے ہر کونے سے غیرت مند نفوس نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ جنہوں نے استعماری قوتوں اور طاغوتی نظام کے ناپاک عزائم اور منصوبوں پر پانی پھیر دینا شروع کیا۔ سب سے پہلے جامعۃ الازہرکے علماء نے مصر میں استعماری قوتوں کا نشہ چکنا چور کرنے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ اسلامی تحریکوں کو نہ صرف ان کی سرپرستی بلکہ قیادت وسیادت بھی حاصل تھی۔ ۱۸۳۰ء میں امیر عبدالقادر الجزائری کی قیادت میں اٹھنے والی تحریک نے استعمار کا زور توڑنے میں قابل داد کوششیں کیں۔ ۱۸۴۲ء محمد علی السنوسی کی تحریک نے فرانس اور اٹلی کو منہ توڑ جواب دیا۔ ۱۹۱۱ء میں بطل جلیل عمر مختار کی قیادت لیبیا میں اطالوی استعمار کے لیے درد سر بن گئی۔۱۹۵۷ء میں فرانس کے ظلم و تشدد کے خلاف انتھک جدوجہد کی۔ایران میں استاذ محمد باقر الصدر ، ڈاکٹر علی شریعتی اور امام خمینی بیرونی سازشوں کے خلاف نبرد آما ہوئے نیز مراکش میں عبد الکریم خطابی نے ہسپانوی اور فرانسیسی سامراجیت کے خلاف محاذ سنبھالا۔ یہ سارے بطلان جلیل اور ان کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکوں نے اسلامی دنیا کو بیرونی مداخلت اور قبضوں سے آزاد کرانے کے لیے سعی بلیغ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ آج بھی فلسطین،، الجزائر، بنگلہ دیش اور مصر جیسے مسلم ممالک نہ صرف بیرونی قوتوں کے ہتھکنڈوں اور سازشوں کی شکار ہیں بلکہ نام نہاد اور عیاش اور نااہل مسلم حکمرانوں کی وجہ سے بھی یہ ممالک مشکلات میں ہے اس کے علاوہ ان سفاک ، ظالم اور عیاش حکمرانوں نے اسلامی تحریکوں کے لئے جینا حرام کردیا ۔ان تحریکوں میں عالم عرب کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز تحریک اخوان المسلمون بھی ہے ۔اس تحریک نے عالم اسلام میں قربانیوں اور آزمائشوں کی ایک طویل تاریخ مرتب کی ہے۔ یہ دعوت و جہاد کی ایک عظیم نشانی ہے۔اخوان نے جس صبر و استقامت اور استقلال و پامردی کا ثبوت دیا جدید تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے ۔
اخوان المسلمون کو ۱۹۴۰ء سے لے کر آج تک مفاد پرست ،عیاش اور اغیار کے اشاروں پر ناچنے والے حکمرانوں نے اس کے وابستگان،ارکان اور قائدین کو ظلم و جبر کا نشانہ بنائے رکھاہے ۔ برسر اقتدار فوجی حکومت اخوان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے اور اس کے بالمقابل سیکولرزم کے جڑوں اور بنیادوں کو توانا کررہا ہے۔ اس سفاک اورظالم حکومت نے ہر طرف فساد اور قتل وغارت گری کا ماحول گرم کر رکھا ہے اور اسلام کے علمبرداروں اور اسلام پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون اس وقت بھی جاری ہے۔ عرب حکمرانوں کی پشت پناہی سے فوجی حکمران جنرل السیسی نے اخوان المسلمون سے وابستہ ہزاروں لوگوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کروایا اور ہزاروں کی تعداد میں (ایون ریڈلی کے مطابق ۲۰؍ ہزار) جیلوں میں قید ہیں۔ان میں اساتذہ، مبلغین ،مصنفین،علماء ،مفکرین اور قائدین بھی شامل ہیں ۔ان ہی قائدین میں ایک بڑا نام مہدی محمد عاکف ہیں ۔ مہدی محمد عاکف ایک مخلص داعی ، ہر دلعزیز مربی ، بہترین مفکر اور ایک ممتاز قائد تھے ۔موصوف اخوان کے ساتویںمرشد عام بھی تھے ان کے پیشرو مامون الہضیبی تھے اورجانشین ڈاکٹر محمد بدیع ہیں ۔مہدی عاکف نہایت متحرک داعی تھے ان کا داعیانہ کردار ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید رہے گا ۔وہ ایک تابندہ ستارہ تھے اور ہمیشہ تابندہ رہیںگے۔ انھوں نے سعودی عرب ، اردن ، بنگلہ دیش ، ملائشیا ، آسٹریلیا ، ترکی اور یورپ و امریکہ میں نوجوانان عالم کے لیے بہت سی بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کئںاورمنظم اعلیٰ پیمانے کے تربیتی کمپوں کا انعقاد کیا ۔ ( ملاحظہ فرمائیے مرشد عام کے انٹریوز)ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں اور طلبا نے ان تربیتی کمپوں سے فیض حاصل کیا جو آج بھی اپنے اپنے میدانوں میں ملت اسلامیہ کی خدمت کر رہے ہیں ان میں سے ایک بڑا نام اور عالم اسلام کا نمائندہ قائد طیب اردگان بھی ہیں ۔مہدی عاکف متنوع خوبیوںکے مالک تھے ۔ وہ کبھی مصری طلباو نوجوانوں میںدینی فکر پیدا کرنے میں مصروف دکھائی دے رہے تھے تو کبھی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کی طرف بلاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ وہ کبھی فکری جولاں گاہوں کی آبیاری میں محو جدوجہد رہتے تھے تو کبھی جیل کی کال کوٹھری میں اللہ کی بارگاہ میں سربسجود رہتے تھے، وہ کبھی باطل کے ایوانوں کو للکارہے تھے تو کبھی مظلوموں اور غریبوں کی خدمت اور ان کے دکھ درد باٹنے میں کھڑے نظر آرہے تھے غرض کہ قائد محترم ’ہر وقت جواں ہے زندگی ‘کے مصداق تھے ۔ انھوں نے صیہونیت کے خلاف جنگ زندگی کے آخری لمحہ تک جاری رکھی اور باطل کا کوئی بھی کارندہ ان کے مقاصد اور عزائم کو متزلزل نہ کرسکا۔
ابتدائی احوال :مہدی محمد عاکف۱۲ جولائی ۱۹۲۸ء میں مصر کے ایک صوبے دقہلیہ میں پیدا ہوئے ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم ایک پرائمری اسکول سے حاصل کی اور سکنڈری سطح کی تعلیم قاہرہ فواد اول سکنڈری اسکول میں حاصل کی ۔ اس کے بعد انھوں نے ۱۹۵۰ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد ان کا گھر قاہرہ منتقل ہوگیا اور وہیں پر ان کا اخوان المسلمون سے تعارف ہوا ۔ اس کے فورا بعد تحریک اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کر لی اور اس وقت ان کی عمر بارہ سال تھی۔وہ اخوان کے تربیتی اجتماعات میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔بانی تحریک حسن البنا ء شہید سے بے حد انسیت پیدا ہوگئی اور بانی تحریک نے بھی نہ صرف ان کے جوش و جزبے اور ان کے عزائم کومہمیز کیا بلکہ ان کو آگے بڑھنے میں بھی اہم کردار ادا کیاہے ۔بیسویں صدی میں افراد سازی کا جو کام حسن البنا شہید نے کیا ، اس میں ان کا ثانی نہیں تھا ۔ ان سے ایک مرتبہ کہا گیا تھا کہ آپ کتابیں کیوں نہیں لکھتے ہیں تو اس مرد حر نے جواب دیا کہ’’ انا اصنف الرجال ‘‘یعنی میں کتابیں نہیں لکھتا ہوں بلکہ افراد کو تیار کرتا ہوں ‘‘۔ ان ہی کے تربیت یافتہ افراد میں سے بطل جلیل مہدی محمد عاکف بھی ہیں ۔مہدی محمد عاکفؒ امام حسن البنا شہید ؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ’’ انہیں کی شخصیت نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم دی اور اس کی ہمہ گیری اور اور کمال سے روشناس کرایا ۔جب وہ ہم سے بات کرتے تھے تو ہم ان کے ایک ایک لفظ کو ایسا پکڑتے تھے جیسے ان کو ابھی نافذہونا ہے ‘‘
زنداں کے شب و روز : مہدی محمد عاکف نے زندگی کا ایک طویل حصہ جیل میں گزارا یعنی انھوں نے تیس سال جیل کی کال کوٹھریوں میںگزارا اور جیل میں انہیں طرح طرح کی اذیتیں بھی پہنچائی گئیں ۔وہ معروف مفکر اور استاذ مصطفیٰ مشہور ؒ کے اس قول سے ان کی ثابت قدمی اور ان کے عزائم توانا ں ہوجایا کرتے تھے کہ’’ اپنی جیل کے لئے کام کرو گویا کہ ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور اپنی رہائی کے لئے کام کرو گویا کہ کل تم کو یہاں رہنا ہے ‘‘اور اسی وجہ سے انہیں’’ سجین کل العصور‘‘(ہر زمانہ کے قیدی )کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے الحاد اور سیکولرازم کے پرستاروں سے نہ صرف مفاہمت اور مصلحت کی راہ اختیار کرنے سے گریز کیا بلکہ وہ ظلمات کے ساتھ ہمیشہ سر پیکار رہے ۔ایک دن جیل کے سپر انٹنڈنٹ نے ان سے کہا کہ’’ مہدی محمد عاکف! یہ بات یاد رکھو کہ آپ اس وقت تک جیل سے کبھی نہیں نکل سکتے جب تک صد ر جمہوریہ انور السادات سے رحم کی اپیل نہیں کروگے ‘‘مہدی محمد عاکف نے جیل کے سپر انٹنڈنٹ کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا : جاکے انور السادات کو بتا دو کہ مہدی محمد عاکف کو اللہ تعالیٰ نے ایک آزاد انسان کی حیثیت سے پیدا کیا تھا ،وہ دنیا کی کسی مخلوق سے آذادی کی بھیک نہیں مانگے گا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے عقل اور دیا ہے اور ایک عظیم مقصد کی خاطر میں نے اپنے آ پ کو وقف کر رکھا ہے ‘‘۔ حفیظ میرٹھیؒ کی زبان میں :
ہار مانی ہی نہیں میں نے اندھیروں سے کبھی
آج تک برسر پیکار ہوں ظلمات کے ساتھ
شہادت : مہدی محمد عاکف پیرانہ سالی کے علاوہ کئی بیماریوں میں مبتلا تھے جن میں سے ایک کنسر بھی ہے ۔اس کے باوجود درندہ صفات انسانوں اور ظالموں نے انہیں جیل کی کال کوٹھریوں میںانہیںمسلسل چار برس سے نہ صرف جسمانی تشدد بلکہ ذہنی طور سے بھی ہراساں کیا اور طبی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت گرتی چلی گئی اور اسی حال میں یہ مرد قلندر۲۲ ستمبر ۲۰۱۷ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔بقول حفیظ مرٹھی :
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پائوں پھلا کر
جنرل السیسی نے ان کے جنازے پر پابندی لگا دی تھی ، مرحوم کے دو تین رشتہ دار ہی ان کی تدفین میں میں شرکت کرنے کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح انھوں نے تاریخ کے ان سنہرے لمحات کو پھر سے دہرایا جب بانی تحریک حسن البناءؒ کو جب سرکاری اہل کاروں نے شہید کیا تو ان کے جنازے میں بھی چندہی رشتہ داروں کو اجازت دی گئی ہے اور اتنی پابندی عائد کی گئی تھی کہ سڑکوں پر فوج اور ان کی گاڑیوں کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی ۔
مہدی محمد عاکف ایک بین الاقوامی داعی تھے انھوں نے اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کرنے میں اپنی پوری زندگی وقف کررکھی تھی۔ وہ دوسرے کاموں کے مقابلے میں دعوت کو اولین ترجیح دیتے تھے اور اس امانت کو وہ دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اس دعوت دین کی راہ میں اپنی تمام قوتیں اور وسائل صرف کریں اور دشمنوں کی سازشوںپر کڑی نگاہ رکھیںاور جب ان کے ناپاک عزائم سے خطرہ لاحق ہو تو اس کے مقابلے میں سیسی پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن جائیں ‘‘۔ان کے نذدیک اسلامی تحریک ایک منظم جدوجہد کا نام ہے جس کا مقصد دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنا اور اس کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں نافذ کرنا ہے ۔ اس نظریہ کا بنیادی اور مرکزی محور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا تصور ہے اور اس تحریک کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہوگا ۔ وہ اسلامی نظام حیات کو نوع انسانیت کے لیے واحد متبادل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک نعرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ عوام کے اس عالمگیر ایمان و ایقان کا اعلان ہے کہ اسلام کے سوا مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ۔ وہ بر ملا اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ اسلام نہ صرف عقیدہ ،سیاسی اور معاشرتی نظام کا نظریہ فراہم کرتا ہے بلکہ قانون ، اخلاقیات، تعلیم اور عدلیہ کا بھی نظام ہے ۔ انھوں نے استدلال کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ’’ اسلام محض عقیدہ نہیں ،یہ تو ایک برتر شناخت اور عالمگیر نظریہ ہے ۔چناچہ مرشد عام لکھتے ہیں کہ :اسلام ہی واحد حل ہے تو اس سے ہماری مراد ہوتی ہے کی تمام مسلمانوں کو اسی حل کی طرف رجوع کرنا چائیے ۔ہم اسلام پر کسی اجارہ داری کے قائل نہیں ہیں نہ اس کی بے روح تشریحات کو صحیح سمجھتے ہیں ‘‘
اللہ تعالی ان کی قبر کو پر نور کرے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین ۔
رابطہ 9045105059