ڈاکٹر گلزار احمد وانی
مکھی اور گرمی دونوں ابن آدم کے لئے پریشانی کے باعث ہیں۔گرمی سے انسان جہاں بے حال ہے تو وہیں اس پر اور ستم پروری کرنے کے لئے مکھی اس پر نمک پاشی کا کام کرتی ہے۔ کبھی ناک، کبھی آنکھ تو کبھی کان پر اس کی تشریف آوری دیکھ کر انسان کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ نہ جانے اس کم ذات مخلوق نے کون سی چکی کا آٹا کھایا ہے کہ ملیں ٹن جراثیم کے ڈھیر سے جیسے خالی پیٹ آکر ابن آدم سے نبرد آزما ہو کر اسے خود سے مروانے پر قائل اور مائل کر دیتی ہے۔ اور اس پربھی طرہ یہ کہ ایک ہزار جگہوں سے اس کی اٹھک بیٹھک ہو کر بھی تساہل پسند نہ ہو کر تھکنے کا بالکل بھی نام نہیں لیتی ہے۔ کبھی کبھار جب اس کی تخلیق اور خصائل پر لوگ سوچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نرم طبیعت بچے کی طرح برتاؤ کرتی ہے کہ چاہے دروازے سے رفع کردو تو کھڑکیوں سے جھانک کر یہ اعلان کرتی ہے کہ ابھی میں جالیوں سے وارد ہوکر ہی رہوں گی۔ اور بااعین اسے بھی ناک سے ہٹاؤ تو آنکھ پر غالیچہ بٹھا کر تشریف آور ہو جاتی ہے۔اور آنکھ سے ہٹاؤ تو کان پر دستک دیتی ہے۔
کبھی کبھی میں جب سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک مکھی پولیس والے کا کردار بھی بخوب نبھاتی ہے ، کہ جس طرح چور اپنی چوری کا اقبال جرم آسانی سے نہیں کرتا ہے پھر اسے انٹرو گیشن سینٹر میں لے جاکر اقبال جرم کرنا ہی پڑتا ہے۔بالکل اسی کے عین یہ کئی راز ابن آدم سے اگلواتی ہے وہ اس طرح کہ اگر انسان کیا کسی جانور کے اندر کھانے والے نوالے کے سنگ یہ مخلوق وارد شکم گئی تو تو الٹیوں پہ الٹیاں لگاکر باہر نکل آ ہی جاتی ہے یوں مر کر بھی اس کے کرشمے اور حرکات ساکن نہیں رہتے ہیں ۔اور یہ وہ واحد مخلوق ہے جو ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کا متقاضی بھی ہے ۔ اس کے نزدیک کیا مہمان و کیامیزبان ،یہ بلا رنگ و نسل ، قوم و ملت ، غرض ہر ایک کو یہ گرم جوشی کے ساتھ استقبال کرتی ہے ۔یہ جتنی میزبان کے لئے درد سر بنتی ہے اتنی ہی مہمان کے لئے باعث تشویش ہے۔اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ انسان نے اس سے بچنے کے لئے یہ بولئے کیا کیا نہ کیا ۔اس نے بچوں کو سونے کے لئے مچھر دانی کا ایجاد کروایا۔ مکانوں و دکانوں کو جالیوں سے آراستہ کرکے ان سے چھٹکارہ پانے کی خاطر اپنے طور پر بہت کچھ کیا۔ مگر یہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح انسانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر وادر مکان ہو جاتی ہے۔ اندر آکر پھر اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔ یہ مخلوق اپنی چالبازی سے سب کو چقمہ دیتی ہے ۔ اور مکان کے تمام در و دیوار پر نوشتہ تحریر کرکے اس پر نت نئے پرنٹ اور روغن بھی لگا دیتی ہے۔
مکھی نے کبھی بھی اس بات میں تخصیص نہیں کی جہاں اس کی مرضی ہو وہاں بیٹھ جاتی ہے البتہ کچھ مقامات پر اس کا مائکہ اور ڈھیرہ ضرور نظر آتا ہے جیسے جانور یا،انسان کے بدن پر اگر کہیں پر کوئی زخم لگا ہو تو بن دعوت کے بھی آجاتی ہیں ۔گندگی کے ڈھیر اس کا اپنا مائکہ ہے۔ویسے بھی مکھی اگر بلا ناغہ چائے کی پیالی میں ڈوب جاۓ تو کسی کی مجال نہیں کہ اسے پئے ، مگر وہاں بھی مکھی کی مثال قائم ہے کہ مکھی چوس اسے بھی بغیر چوسے نہیں چھوڑ سکتا ہے۔
یوں تو مکھی سونگھ سے نہیں بلکہ اونگھ سے ضرور عاری ہے، تبھی یہ صبح و شام ،دن اور رات بہت ہی متحرک اور فعال رہتی ہے۔اور اپنے کام میں سرعت سے جٹ جاتی ہے ۔ایسے میں اللہ کو نہ جانے کیا سوجھی کہ مکھی کی تخلیق کی ہے جو یہاں سے وہاں ،ادھر سے ادھر اور اندر سے باہر پھرتی سے پھرتی ہے اور نہ جانے کون سی تشفی اسے اس عمل سے مل جاتی ہے کہ ذرا بھر بھی چوک اس سے سر زد نہیں ہوتی ہے۔اور تھکاوٹ ، غم و حزن اور رنج و ملال اور ہنسی مذاق جیسی لازوال نعمتوں سے محروم ہے ۔اور اس پر بھی حیف یہ ہے کہ جہاں بوئے آدم ، وہاں خوئے مکھی نہ ہو ایسا بھلا ممکن ہی نہیں ہے ۔ویسے بھی یہ کہنے کی کئی صدیوں سے جرات ہی کسی نے نہیں کی کہ کیا صرف روئے زمین ہی اس کے رہنے کے لئے موزوں تھی اس کے لئے اور بھی لامکاں تھے اگر وہیں پہ بس جاتی تو خوب ہنس جاتی، اگر وہیں پہ رہ لیتی تو خوب کہہ اور سہہ لیتی ۔چلو اللہ کو یہی منظور ہے تو یہی ہونا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ آدمی کھلونا ہے ،اور اسے اس مخلوق نے بھی کھلونا ہی سمجھ لیا ہے ۔
کہتے ہیں نا کہ بد کی بدی دیکھ کر اچھے انسان کے کرم یاد آتے ہیں ۔یہی بات مکھی پر بھی صادق آتی ہے وہ اس لئے کیونکہ ہم درختوں میں بنائے ہوئے ایک گھر والے کے پاس کسی کام کی غرض سے گئے تو ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ مچھروں نے زور دار فائر اینڈ ایمرجینسی والی سائرن بجادی کہ آپ کا استقبال ہے۔اور جب انہوں نے اصرار تشریف آوری کا کیا تو چند ایک مچھر میرے پاؤں دبانے جیسے آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کئی پوائنٹ خون بھی چوس لیا جیسے کسی اسپتال میں کسی کو خون کی اشد ضرورت تھی ، تو مجھے مکھی کے کرم یاد آنے لگے کہ وہ تو عادتا ایسے ہی اٹھک بیٹھک کرتی ہے بھلا ایسے میں وہ کسی کا کیا بگھاڑ سکتی ہے ۔مگر ان مچھروں سے کوئی تو بچائے۔
اس دنیا میں کون دھوکے کی چال نہیں چلتا ہے جو یہ مکھی نہیں چل سکتی ،اس کے خوشنما پر ،سیاہ پوشاک ،اور اس کی قوت و حرکت کا ہر کوئی رینگتا ہوا کیڑا اس کی تعریفوں کے پل باندھتے لگتا ہے۔ مگر کبھی کبھار یہ خود دوسروں کے چال اور چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ جیسے عنکبوت اسے اس کے خوشنما پر اور سیاہ لباس کی تعریف میں اسے اپنا شکار بنا دیتا ہے۔یوں تو مکھی سے وابستہ یا غیر وابستہ کئی کہانیاں منسوب کی گئی ہیں اور یہ تاثر بچوں کو اکثر دیتا جاتا ہے کہ جس کو امتحاں میں ایک نمبر آیا اسی کو اسی مکھی نے گول گول چکروں سے دو صفر جوڑ کر سو بنایا اور اسے پھر زیرو سے ہیرو بنا دیا ۔ اس طرح بچے اسے ہمدردی اور مسیحائی کی نظروں سے بھی دیکھا کرتی ہے۔ ویسے بھی یہ انسان کے ساتھ دکھ سکھ میں ساتھ چھوڑنے والی نہیں ،اگر بیوی بچے ساتھ چھوڑ بھی دیں مگر یہ سدا نکیر و منکر کے ساتھ ساتھ انسان کے دوش بہ دوش ہے۔ اور جہاں جہاں ابن آدم کی حاضری ہے وہاں وہاں یہ بوئے آوارہ بن کر چلی آتی ہے۔
���
پلوامہ کشمیر
7006057853