Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

مکھوٹا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 9, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
اولڈ ایج ہوم کے ریکریشن ہال کی دیوار پر آویزاں بڑے ایل سی ڈی پر اُس کا بَدھا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔
ہال میں بیٹھی ہوئی بہت ساری بزرگ عورتیں اُس کی تقریر ہمہ تن گوش سُن رہی تھیں، شانتی نے اپنی آنکھوں پر نظر کی عینک چڑھائی اور غور سے ایل سی ڈی کو دیکھنے لگی۔
وہ کہہ رہا تھا…
’’منش کے جیون میں ماں دشبد کا مہتو کیا ہے۔ یہ بتانے کی کدا آوشکتا نہیں ہے۔ پرنتو میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ماں سنسار کا وہ پوتر شبد ہے جس پر انسانی وجود کا دارومدار ہے۔ یہی وہ دیوی ہے جس نے بڑے بڑے رشی منیوں اور اوتاروں کو جنم دیاہے۔ بدنصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر مائوں کی چھایا موجودہے، انہیں چاہئے کہ اِس موقع کا لابھ اُٹھا کر اپنی مائوں کی خوب سیوا کریں…‘‘
’’پری جنو! آپ سوچ رہے ہوں گے میں ماں شبد پر ہی کیوں زور دے رہا ہوں۔ واستو میں میرے کہنے کا ارتھ یہ ہے کہ ہمارے مذہب کے انوسار گئو کو ماتا کا ستھان دیا گیا ہے اور ماں کی رکھشا کرنا ہر بیٹے کا کرتویہ تھا۔ جو لوگ میری اِس بات سے سہمت ہیں وہ ہاتھ اوپر اُٹھائیں‘‘۔
مجمع میں ایک شور کے ساتھ بہت سارے ہاتھ ہوا میں بلند ہوئے تو شرون کی بانچھیںکھل گئیں…
’’شاباش! مجھے گرو ہے اپنے اِن گئو سیوکوں پر جو میرے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل رہے ہیں۔اگر آپ کا ساتھ ایسے ہی مجھے ملتا رہا تو مجھے آشا ہے کہ ہم اس دیش سے گئو ہتیا کرنے والوں کا صفایا کردیںگے۔‘‘
’’میرے سیوک بھائیو!آئو ہم سب مل کر آج عہد کریں کہ گئو ماتا کی رکھشا کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے اور اس بے زبان کی ہتیا کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریںگے۔ ‘‘
’’گئو ہتیا بند کرو…گئو ہتیا بند کرو… بھارت ماتا کی جئے… وندے ماترم‘‘ جیسے فلک شگاف نعروں سے ساری فضا گونج رہی تھی اور چند نوجوان اپنے سروں پر بھگوا رنگ کی پٹیاں باندھے لاٹھیاں ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اُن کا جوش اور جذبہ دیکھ کر شرون پھولے نہیں سما رہا تھا اب اُسے اپنی منزل بہت ہی قریب نظر آرہی تھی۔
لوگوں میں گئو رکھشا کے مدعے کو لے کر اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُسے یقین ہوچلا تھا کہ رفتہ رفتہ اُس کا شمار سیاست دانوں میں ہونے لگا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے شرون گئو رکھشا کے ابھیان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا، اُس سے پہلے وہ ایک سیاسی پارٹی کے پوسٹر چسپاں کرنے پر مامور تھا جہاں سے اُسے دو وقت کی روٹی اور شراب ملتی تھی، لیکن سیاسی شخصیات کے آگے پیچھے حفاظتی حسار دیکھ اور عزت شہرت اور آئو بھگت دیکھ کر اُس کے دل میں بھی یہ خواہش انگڑائی لینے لگی کہ کاش وہ بھی لیڈر بن سکتا لیکن پارٹی میں شامل شاطر اور تجربہ کار لوگ اُسے اپنے جوتوں میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے وہ اُسے پنپنے نہیں دیتے تھے، لیکن شائد اوپر والے نے اُس کی سن لی تھی،دیکھتے ہی دیکھتے دیش میں گئو رکھشا کی تازہ لہر چل پڑی تو اُس نے اِس کا فائدہ اُٹھا کر ’’گئو رکھشا دَل‘‘ بنا یا اور خود ہی اِس کا صدر بند گیا۔ پھر کئی علاقوں میں گئو رکھشا کی آڑ میں اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے علاوہ اپنی تقاریر میں اُن پر زہر آلودہ نشتر برسا کر راتوں رات اخبارات کی زینت بن کرمشہور ہوگیا۔ پھر گھر گھر جاکر اُس نے چندہ اکھٹا کیا جس سے اُس نے ایک وسیع گئو شالہ تعمیر کر ڈالی، جس میں شہر کی سڑکوں سے آوارہ گئووں کو پکڑ لاتا انہیں نہلا دھلا کر اُن کی دیکھ بھال کرتا۔ اس کام میں اُسے نے اپنے چند ہم خیال لڑکوں کو ساتھ رکھا تھا جو اس کی تشہیر کرنے میں اہم رول ادا کررہے تھے۔ اب تو شہر کے بچے بچے کی زبان پر گئو سیوک شرون کا نام تھا۔ لوگ بھی اِس کام کے لئے اُسے دل کھول کر دان دے رہے تھے۔
اُس کا پس منظر کچھ خاص نہیں تھا… باپ ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتا تھا اور ماں دن بھر لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گھر کے خرچہ میں مدد کرنے کے علاوہ اُس کے سکول کی فیس اور چول میں کھولی کا کرایہ ادا کرتی تھی۔
وہ اُس وقت دسویں جماعت میں زہر تعلیم تھا جب طلبا کے مسائل کو لے کر شہر کے بیچوں بیچ جلوس نکال کر انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔ اس دوران طلباء مشتعل ہوگئے اور انہوں نے سنگ بازی اور آگ زنی سے سرکاری املاک کو بے حد نقصان پہنچایا جسمیں شرون پیش پیش تھا۔ پولیس نے حرکت میں آکر چند لڑکوں کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا۔ دوسرے روز شہر کے ایک معروف سیاست دان نے اُسے ضمانت دے کر رہا کرادیا، دراصل دوران جلوس اُس نے شرون کو پُرجوش نعرے لگاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور یہ سوچ کر کہ مستقبل میں یہ کام آئے گا ، اُسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اس طرح وہ اپنے تمام نا جائزہ کاروبار میں اُس کا خوب استعمال کرنے لگا۔
باپ کے مرنے کے بعد شرون نے ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنا اپنی شان کے خلاف سمجھا، وہ گھر بار بھول کر ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے اسی پارٹی میں کام کرنے لگ گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سیاست دانوں میں پائی جانے والی تمام صفات سے واقف ہوچکا تھا۔ اب تک تو اُس میں سیاست دانوں کے تمام خصائل سرایت کر چکے تھے۔
اب وہ سفید پوشاک، کھادی واسکٹ اور گاندھی ٹوپی میں اکثر نظر آٹا۔ اس کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ایک بڑی سیاسی پارٹی نے آنے والے الیکشن میں اُسے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اِس بات کے مد نظر وہ اور بھی سرگرم ہوگیا تھا۔
ہال میں بیٹھی ہوئی بزرگ عورتیں شرون کی تقریر پر تبصرہ کررہی تھیں ایک عوت بولی، ’’دھنیہ ہے وہ ماں جس نے اِس ہیرے کو جنم دیا ہے اور نام بھی کیا خوب رکھا ہے شرون آہاہاہاہا…‘‘
دوسری کہنے لگی ’’کاش ہمارے بیٹے اِس کے نقش قدم پر چلتے، آج ہم اس آشرم میں نہ ہوتے۔ سوچنے کی بات ہے جو گائے کی اتنی سیوا کرتا ہے وہ اپنی ماں کی کتنی سیوا کرتا ہوگا، کیوں بہن ؟‘‘اُس نے شانتی سے کہا،’’ ارے تو رو رہی ہے‘‘۔
’’ لگتا ہے تقریر سن کر جذباتی ہوگئی‘‘ دوسری بولی۔
شانتی نے اپنے آنکھوں سے موٹے شیشوں والی عینک اُتار کر آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’اے بہنو! جس ماں کی آپ اتنی تعریفیں کررہی ہیں دراصل وہ ابھاگن ماں میں ہی ہوں…‘‘
رابطہ؛نٹی پورہ، سرینگر،9419463487
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا کوئی امکان نہیں
برصغیر
پہلگام حملے کے بعد کھیر بھوانی میلہ میں عقیدت مندوں کی شرکت ملی ٹینٹوں کے عزائم کی شکست : ڈاکٹر فاروق عبداللہ
تازہ ترین
کشمیر:حضرت شاہ ہمدان(رح) کا 660واں عرس مبارک عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا
برصغیر
انڈیا گروپ نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا مطالبہ دہرایا، مودی کو خط لکھا
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?