ندیم خان۔ بارہمولہ کشمیر
اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں ہر شخص امیر بننے کی خواہش رکھتا ہے تو یہ بات بالکل غلط نہیں ہو گی۔ فرق صرف اس سے پڑتا ہے کہ ہم نے ایسی خواہش کرنے کے بعد امیر بننے کی کوشش کی بھی ہے یا نہیں۔ظاہر ہے کہ امیر بننا کوئی بُری بات نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ہمارے ہاں کوئی غریب یا مڈل کلاس طبقے کا فرد امیر بننا چاہے تو ایسا سوچنا بھی اُس کے لئےبہت بھاری پڑتا ہے کہ امیر بنناآسان نہیں ہوتا، تبھی یہ لوگ امیر بننے کی کوشش ترک کر دیتے ہیں اور جنہیںامیر بننے کا جنوں سر پر سوار رہتا ہے، وہ آخر کار امیر بن ہی جاتے ہیں۔ ایک امریکی مصنف ’’اسٹیو سیو بولڈ‘‘ نے ایک مفید و دلچسپ کتاب لکھی۔ ان صاحب نے دنیا کے مختلف بارہ سو امیر لوگوں کے انٹرویو کرنے کے بعد ہمیں یہ بتایا ہے کہ’’امیر کیسے سوچتے ہیں‘‘ اور یہی ان کی کتاب کا نام بھی ہے۔ اس تحقیق کی کچھ اہم باتیں آپ کو بتاتا ہوں۔
1۔ امیر آدمی کچھ کرنے میں لگ جاتا ہے جب کہ مڈل کلاس فرد کچھ ملنے کے انتظار ہی میں رہتا ہے۔ مصنف اسٹیو سیو بولڈ کی تحقیق کے مطابق مڈل کلاس طبقہ لاٹری لگنے والی ذہنیت کا مالک ہوتا ہے کہ ایک دفعہ لگ گئی تو بس وارے نیارے۔ اسی انتظار میں وہ اپنا وقت برباد کرتا ہے جب کہ امیر بندہ اپنے موجودہ وقت و وسائل کے ساتھ پیسا کمانے کے لئے خود ساماں پیدا کرنے کی کوشش میں جٹا رہتا ہے۔
2۔ مڈل کلاس شخص زیادہ پیسے گھبرا کر جب کہ امیر بندہ خوشی خوشی کماتا ہے۔ اسٹیو سیو بولڈ کے مطابق مڈل کلاس آدمی پہلے سے ہی یہ سوچ کر جذباتی ہوتا رہتا ہے کہ وہ آخر زیادہ پیسوں کا کیا کرے گا، بچے عیاشی میں اُڑا دیں گے، گھر برباد ہو جائے گا، لالچی پن پیدا ہو گا وغیرہ۔ جب کہ امیر سوچ رکھنے والا زیادہ پیسوں کو زندگی میں ترقی کرنے کا زینہ سمجھتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ اپنی فیملی کو بہترین سہولیات دینا، دوسروں کے کام آنا، دنیا گھومنا وغیرہ امیری سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
3۔ امیر آدمی مخصوص علم کو جبکہ مڈل کلاس زیادہ تعلیم کو ہی امیر بننے کی وجہ سمجھتا۔ اسٹیو بولڈ کے مطابق کسی بھی کام کی صرف بنیادی باتوں کا کتابی علم رکھنے کے بعد عملی تجربہ سے امیر بننے کی سوچ مڈل کلاس لوگوں میں نہیں ہوتی۔ وہ صرف اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد ہی امیری ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
4۔ امیر آدمی سب سے پہلے اپنا خیال اور مڈل کلاس بندہ پہلے دوسروں کا خیال کرنے پر لگا رہتا ہے۔ اسٹیو سیو بولڈ کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اپنے آپ کو خوشحال بنا کر اس کے بعد دوسروں کی پروا کرنا امیر سوچ کی نشانی ہے۔ بندہ پہلے خود قابل بن جائے، اس کے بعد دوسروں کو بھی اوپر لے کر آئے۔ مڈل کلاس لوگوں کی طرح نہیں کہ سب کا خیال رکھتے رکھتے، جب وہ امیر ہونے کے قریب ہو تو زندگی وفا نہ کرے یا تب امیری کوئی مزہ نہ دے۔
دوستو! اگر ہم بات مڈل کلاس طبقہ کی کریں تو ان کی حالت تشویشناک ہے، یہ نہ زکوٰۃ مانگتا ہے، نہ فطرہ، نہ بھیک لیتا ہے۔ یہ صرف کڑھتا ہے، سسکتا ہے اور مرتا ہے، بھارت میں دو لوگ بڑے اطمینان سے ہیں، غریب اور امیر۔ یہ جو درمیان والے’’مڈل کلاس طبقہ ‘‘ ہیں، اصل میںاُنہیں کا بیڑا غرق ہوتا ہے۔یہ رکھ رکھاؤ سے لگ بھگ امیر لگتے ہیں لیکن حالت یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آئے روز اس وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہے کہ دودھ، گیس اور گھی اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا، ہمارے ہاں قابل رحم اور قابل نفرت بھی دو ہی طبقات ہیں، امیر اور غریب۔ امیر قابل نفرت ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے اور غریب قابل رحم ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ نہیں۔ مڈل کلاس طبقے کے پاس بظاہر امیروں والی ہر چیز ہوتی ہے لیکن سیکنڈ ہینڈ۔ اس کے پاس نسبتاً بہتر گھر ہوتا ہے لیکن کرائے کا۔ گاڑی ہوتی ہے لیکن بیس سال پرانی۔ گھر میں اے سی ہوتا ہے لیکن عموماً چلتا ائیر کولر ہی ہے۔ کپڑے صاف ہوتے ہیں لیکن چلتے کئی کئی سال ہیں۔ گھر میں یو پی ایس ہوتا ہے لیکن اس کی بیٹری عموماً آدھا گھنٹہ ہی نکالتی ہے۔ اس کے پاس اچھا موبائل بھی ہوتا ہے لیکن استعمال شدہ۔ اس کے گھر میں ہر ہفتے پتلے شوربے والی مُرغی بنتی ہے۔ یہ اپنے بچوں کو پارک میں سیرو تفریح کے لیے لے کر جائے تو عموماً گھر سے اچھی طرح کھانا کھا کر نکلتا ہے۔اس کے پاس اے ٹی ایم کارڈ تو ہوتا ہے لیکن کبھی پانچ سو سے زیادہ نکلوانے کی نہ ضرورت پڑتی ہے نہ ہمت۔ یہ دن رات کوئی ایسا بزنس کرنے کے منصوبے بناتا ہے جس میں کوئی خرچہ نہ کرنا پڑے۔ اِس کی گاڑی صرف سردیوں میں بڑے کمال کی کولنگ کرتی ہے۔ یہ جب بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جاتا ہے چھ افراد کی ساری فیملی دو برگرز میں ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یہ اگر ظاہر کرے کہ میرے پاس بہت پیسہ ہے تو رشتے دار ادھار مانگنے آجاتے ہیں، نہ بتائے تو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ یہ اپنی اوقات سے صرف 20 فیصد اونچی زندگی گذارنے کی کوشش میں پستا رہتا ہے۔ اصل میں یہ غریبوں سے بھی بدتر زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔ مڈل کلاس لوگوں کی بھی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ ساری زندگی اَپر مڈل، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے پنڈولم میں جھولتے رہتے ہیں۔ غریبوں کو غربت کا رونا رونے کی عیاشی نصیب ہوتی ہے۔ مڈل کلاس لوگ اپنے احباب میں یہ جتاتے جتاتے مر جاتے ہیں کہ ہم لگ بھگ امیر ہی ہیں ،بس آج کل حالات ذرا ٹائٹ ہیں۔ غریب غربت سے تنگ آتا ہے تو دو کام کرتا ہے۔ یا خود کشی کر کے زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے یا پھر ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ مڈل کلاس کےنصیب میں موت بھی نہیں ہوتی۔ مڈل کلا س لوگ اگر غربت کے ہاتھوں مرتے بھی ہوں گے تو گھر والے یہی کہہ کر جگ ہنسائی کا ڈھکن ڈھک دیتے ہوں گے کہ ’’ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا‘‘۔غریب کو بھوک ستائے تو لنگر خانے پر کھانے کی تھالی میں جا بیٹھتا ہے، بڑے گھر کا بچا کھچا کھانا غریب کی جھونپڑ پٹی میں خوب مزے لے لے کر کھا لیا جاتا ہے۔ مڈل کلا س والے لنگر سے کھانا بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ کسی رشتے دار نے دیکھ لیا تو سارے خاندان کی عزت خاک ہو جائے گی۔ غریب کے مکان میں ٹی وی، فریج، صوفے، بائیسکل نہیں ہے، وہ ان سب کے بغیر جینا جانتا ہے۔ ادھر مڈل کلاس’مفلسی میں فالسے کا شربت‘ کی طرح ہوتا ہے جو قسطوں پر ایک ایک کر کے عزت کی چیزیں جمع کئے جاتا ہے چاہے جیب میں ڈھیلا پائی نہ ہو۔ کشمیر میں امیروں اور غریبوں سے کہیں زیادہ تعداد مڈل کلاس لوگوں کی ہے، لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں ہر وہ بندہ مزے میں ہے جس کے پاس بہت سارا پیسہ ہے یا بالکل نہیں ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ اے سی میں سو جاتا ہے۔ جس کے پاس نہیں وہ کسی جھوپڑی میں نیند پوری کر لیتا ہے۔ پیسے والا کسی سے کچھ نہیں مانگتا اور غریب ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ رگڑا اُس کو لگتاہے جس کے پاس پیسہ تو ہے لیکن صرف گذارے لائق۔ غریبوں کی اکثریت کو یہ مڈل کلاس لوگ ہی پال رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ خوف خدا بھی اِس مڈل کلاس میں ہی پایا جاتاہے۔ یہی کلاس سب سے زیادہ خیرات کرتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کی اپنی زندگی غریب سے بھی بدتر گذر رہی ہوتی ہے لیکن اَنّا کے مارے یہ بیچارے کسی کو بتاتے نہیں۔ آپ نے کبھی لوئر ایلیٹ کلاس یا اپر ایلیٹ کلاس کی ٹرم نہیں سنی ہوگی۔ لوئر غریب یا اپر غریب بھی نہیں ہوتا ،صرف لوئر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ لوئر اور اپر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا، لوئر والے کے پاس موٹر سائیکل ہوتی ہے اور اپر والے کے پاس پرانے ماڈل کی کار۔ نیندیں دونوں کی اُڑی رہتی ہیں۔ یہ عیدالاضحی پر قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود کسی بیل یا دوسرے بڑے جانورمیں حصہ ڈال لیتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی گھر کی فالتو لائٹس آف کرنے اور بل کم کرنے کے منصوبے بناتے گذر جاتی ہے۔ یہ موبائل میں سو روپے والا ریچارج بھی پوری احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور گھر والوں کو آگاہ کیا ہوتا ہے کہ ایک مسڈ کال دوں تو اس کا مطلب ہے میں آرہا ہوں۔ دو مسڈ کال دوں تو مطلب ہے میں ذرا لیٹ ہوں۔ یہ ایک دن کے استری کئے ہوئے کپڑے دو دن چلاتے ہیں۔ یہ ہر دو گھنٹے بعد شک دور کرنے کے لیے بجلی کے میٹر کی ریڈنگ چیک کرتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہو پاتے کہ ایک ہی مہینے میں بجلی فیس، بچوں کا سکول فیس، امام صاحب کی تنخواہ، گیس کا بل اور پانی کے بل اکٹھے ادا کرسکیں ۔لہٰذا بجلی کا بل ادا کردیں تو گیس کا بل اگلے مہینے پر ڈال دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت چونکہ پڑھی لکھی بھی ہوتی ہے، لہٰذا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ان کے پاس بیٹیوں کی شادی کرنے کے پیسے نہیں ہوتے،اولاد کے لیے اچھی نوکری کی سفارش نہیں ہوتی، اس کے باوجود یہ کسی کو دُکھ میں دیکھتے ہیں تو خود بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
رابطہ/ 6005293688
[email protected]