ابھیغریب و مفلس اقوام متحدہ کے بشری حقوق سرشتے کی رپٹ منظر عام پر آئی بھی نہ تھی کہ عالمی تھانیدار جہانی چوبدار بھڑک اٹھا، غصے کا مچھر اس کی ناک میں گھسا، غرور کا کھٹمل اس کی دستار میںداخل ہوا، گھمنڈ کابچھو اس کی شلوار میں پناہ گزیں ہوا ، آؤ دیکھا نہ تاؤ اعلان داغ دیا کس کی مجال کہ مابدولت کے لے پالک اسرائیل پر انگلی اٹھائے، اس کے ظلموں کو مظالم کہنے کی جرأت کر ے ،اس کی کالی کرتوتوں کا پٹارا کھولنے کی ہمت کر ے ، اس کی تباہ کاریوں پر چیں بہ چیں ہونے کا چرچا کر ے ۔نادار و بے کار سے دِکھنے والے اقوام متحدہ نے بس اپنی بھویں تن دیں، پھٹی پرانی قمیص کی آستینیں اوپر کیں ، آنکھیں میچ لینے کی کوشش کی کہ کون کون کسمپرسی کی حالت میں انسانوں کو پریشان کر رہا ہے ، تھانیدار نے عقل نما چھڑی گھما کر کہہ ڈالا ہماری بلی اور ہم ہی سے میائوں۔ اُدھر عالمی تھانیدار بھڑکا اِدھر سالار ِہندوستان بھی غیظ و غضب سے لبریز ہوگیا ، مونچھوں پر تائو دیتے گرج دار آواز میں کہا بشری حقوق ادارے کی کشمیر رپورٹ گمراہ کن ہے۔الزام یہ دیا کہ جو راستہ مملکت خداداد جانا چاہئے وہ ملک کشمیر سے اقوام عالم نے گزار دیا۔ اور پھر یہ کہ فوج کا ریکارڈ سپر رِن سے دُھلا ہوا صاف شفاف ہے،بلکہ اس کو نرما پائوڈر سے بھی نہلایا گیا اور کئی گھنٹوں تک واشنگ مشین میں اس قدر گھمایا گیا کہ داغ ڈھونڈتے رہ جائو گے ع
لاگا وردی پہ داغ مٹائوں کیسے ؟ چھپائوں کیسے ؟
مطلب وہ جو کہتے ہیں کنُن پوشپورہ میں وردی پوش شرم ناک المیے کے جنم داتا ہیں ،وہ با ؤلے ہیں ،مژھل فرضی انکائونٹر میں جو لوگ مرے وہ تو پٹھانی سوٹ کے الزام میں مارے گئے اور پتھری بل والے جب مرے ہی نہیں تو فوج پر کا ہے کا کیس بن پائے۔ الغرض افسپا کا بلیٹ پُروف جیکٹ پہنے سالار اول نے فوجی بینڈ پر زبردست دُھن بجائی ،سیاہی پر سفید بر فانی چادر بچھائی،۔ابھی سالار اول کی ہاں میں ہاں ملی ہی رہی تھی کہ وزیر جنگ نے سب کو یہ فرماکر دنگ کیا کہ ور دی پوش ملک کشمیر کے یار ہیں ، بحالی ٔامن کے رضاکار ہیں ، کارِسرکار ترجیحی بنیادوں امن کی بہار ہے ۔ یہ جووزارتِ جنگ نے ملک کشمیر میں امن کے مفاد میں نت نئے اوزار در آمد کئے ہیں، جن میں پیلٹ، ربر گولیاں، چھ چھ مہینے کا پبلک سیفٹی ایکٹ، اشک آور گیس اور مکانات و دوکانات کی توڑ پھوڑ بھی شامل ہے ، یہ بس سکھ شانتی کے اُپہار ہیں۔ان سے بھی اگر کاروانِ امن نہ چلے تو میوہ درختوں کی کٹائی، نہتوں کی دُھلائی، گھروں کی صفائی ، جیلہوں کی بھرائی ،تلووں کی پٹائی، داڑھیوں کی صفائی، ہاتھ پیر کی تڑائی ، بستیوں کی جلائی، محاصروں کی چڑھائی جیسے انتقامی تجربات بھی عمل نے پڑیں تو حرج ہی کیا ہے ؟
اپنے ملک کشمیر میں وہی ہوا کہ زور کا جھٹکا کچھ زیادہ ہی زور سے لگا ۔پھر زمین ہلی ، پائوں تلے زمین کیا کنکریٹ ہلااور اس نے کرسی میز سب کچھ ہلا دیا ۔ارباب اقتدار سر سے پائوں تک ہلے بلکہ لرز اٹھے۔جھنڈا ڈندا بھی ہلا ۔مطلب اپنے قلم کنول والوں کے انجر پنجر ہلے ۔ اگرچہ اقتدار کی کنجی اپنے ہاتھوں میں ہونے کا مزہ کچھ اور ہی ہے کیونکہ رستہ گوشتابے کا سواد بھی اسی کی مرہون منت ہے ، اسی کے بل پر اڑن طشتری کی سواری ملتی ہے،پھر قسم قسم کے واہن بھی اشارے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر بھی چلو کنول والوں کے وارے نیارے ہوئے کہ ملک کشمیر کی کمان براہ راست دلی دربار کے ہاتھ میں آگئی اور اب کی بار مودی سرکار جو چاہے کروائے۔پھر ادھر تو مودی کی کلہاڑی کا دستہ بیٹھا ہے کہ جسے چاہے کاٹ دے پھاڑ دے یا آسمان میں اٹھا دے۔پھر سہراب دین فرضی انکائونٹر کیا، جسٹس لوہیا کی زندگی کیا ، جے امت شاہ کی کمپنی کیا ، گجرات بنکوں میں نوٹ بندی کے بعد رقمیں کیا۔ اسے تو چاہنے والے بھگت امت شاہ پادشاہ کہتے ہیں اور بادشاہت میں رعایا کو جس کروٹ بٹھائے اسی طرف بیٹھ جائے۔بھائی! جب لوگ اپنے ہوں ، ٹی وی چینل اپنے ہوں ، پولیس اپنی عدالتیں اپنی تو بھلا کون کچھ کہہ پائے یعنی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہ مارے۔یہ تو کچھ بھی نہیں بھکتوں کی ایک فوج ترشول سنبھالے کھڑی ہے کہ کب داڑھی والے آدمی کو پانی کے لئے تڑپا تڑپا کر مارنا ہے، کب مظفر نگر میں دنگے کرواکے الیکشن جیتنا ہے ،کب حکم ملے تو گائے ماتا کے نام پر اخلاق ، پہلو، جنید یا قاسم کو کاٹ دیں ؎
چھوٹیں جو گائے ماتا حسرت سے اونٹ بولے
افسوس شاہ جی نے ہم کو پِتا نہ سمجھا
ایک اور فوج ہے جو کمپیوٹر مائوس سے لیس ہے کہ فیس بک سے لیکر ٹویٹر تک اودھم مچا دیں ۔یہ تو ایسی فوج ہے کہ خود کنول بردار وزیر خارجہ کو نہ بخشے۔ایسے میں ملک کشمیر کا زعفرانی بھونچال قلم دوات نہ الٹ دے تو کیا کرے؟پر ابھی اس بھونچال کے آفٹر شاک چل رہے ہیں جس کے سبب قلم دوات کے اندر ٹھہراو نہیں آتا دکھتا اور ہل کے دستے پر ہاتھ جما نہیں رہتا کیونکہ یہ چھ سالہ اسمبلی توڑی نہیں گئی بلکہ لٹکی رکھی گئی۔ اسمبلی کیا لٹکی کہ ممبران اپنے آپ کو دار پر محسوس کر رہے ہیںاور پھر اس سے بڑھ کر آفٹر شاک کیا ہو کہ نیشنل کے دریندر نوائے صبح چھوڑ کر کنول کے پھول اگانے لگ جائیں ، قلم بردار کمل ککڑی سے مستقبل سنواریں اور اپنے ہاتھ جگن ناتھ سے کنول کی آبیاری کریں۔سنا ہے کہ سجاد بھی لون (Lone)یعنی اکیلا نہیں بلکہ ایک کاروان وقافلہ ہے ۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ خبر دی کہ بھاجپا کے سیاسی مادھو نے جب اس کاروان کے ساتھ بات چھیڑی توChief Ministership Achievable کا نعرہ مستانہ فضا میں گونجا ۔اس کے سبب قلم، ہل اور ہاتھ والوں کو بھونچال کچھ زیادہ ہی تیز محسوس ہوا کیونکہ ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں ممبران اور نیتا
امت شاہ کی چڈی پہن فوج ملک کشمیر میں جو اپنے بل پر چڑھائی کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اس لئے بانوئے کشمیر کی کرسی پر تابڑ توڑ حملے جاری ہیں کہ میڈم جو غلط ہوا وہ تم نے کیا اورجو صحیح ہوا وہ ہمارا کارنامہ۔اس چھیناجھپٹی میں امت شاہ نے کنول کے نیچے جمی کائی سمیت کیچڑ منہ پر مار دی اور ادھر سے دوات میں جمی روشنائی بانوئے کشمیر نے پھینک دی ۔اس وار اور پلٹ وار کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ایک دوسرے سے مخاطب نہیں بلکہ گتھم گتھا ہوئے ؎
کہ پلٹ میری جان تیرا دھیان کدھر ہے
مطلب دونوں کے چہرے آ جکل صاف نہیں دکھتے کہ الزامات کی موٹی پرت جو جمی ہے ۔ایک تو لداخ اور جموں کا رونا رو رہا ہے کہ ہم نے تو انہیں چھوٹا لندن بنایا ہوتا پر بانوئے کشمیر نے زوجیلا پہاڑ پر کنول بردار قافلہ روک دیا ۔ہم نے تو دفعہ ۳۷۰ کیا مسلہ کشمیر ہی حل کیا ہوتا بلکہ مملکت خداداد سے ٹافی دودھ وصول کیا ہوتا اگر سرحد کی طرف کوچ کرنے میں کنول بردار رکاوٹ نہ بنتے۔ الفاظ کی مارا ماری میں ، الزامات کی بمباری میں ، سیاسی آبیاری میں ، اور کرسیوں کی بے کاری میں شمال و جنوب قطبین عوامی خواہشات کی تباہ کاری میں سرگردان ہیں۔
ادھر ہل والے نیشنلی ، قلم والے، پیپلز والے عوام کے غم میں کہیں ڈنر کھاتے ہیں کہیں میٹنگ کرتے ہیں اور کہیں بیان بازی کا چھل کپٹ کھیلتے ہیں۔ ایک نے تو ماضی کو بھول کر تعزیت کی اور گرما گرم ماحول پر فرج والا پانی ڈالنے کا ذمہ لیا۔ دوسرا تو ٹویٹر کی چڑیا اُڑاتا رہا۔ پھر جب کوئی مرد مومن کا ذکر کرے تو میڈم کی آنکھوں سے آنسو ٹپکیں کیونکہ بقول کسے جو کچھ ہوا کسی خواب کی تعبیر نہیںاور جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی نیا کشمیر نہیں۔ کشمیر والوں کی تو شکتی مان جیسے گھوڑے جتنی بھی قدر نہیں۔ اسی لئے ان کی موت پر کوئی آنسو نہیں بہاتا ۔کوئی ان کے درد کا مداوا نہیں کرتا ۔بس بہلا پھسلا کر خاموش کیا جاتا ہے ۔اگر نہ بہلے تو ٹاس پٹاس فورس کے ہاتھوں ان کا حساب لیا جاتا ہے۔پھر کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے بغیر نہیں سدھرنے والے۔مطلب ان سے اپنے بھی ناراض اور اغیار بھی نا خوش ۔انہیں تو قند لذیذ کے نام پر زہر ہلا ہل کھلایا جاتا ہے۔ان ہی کے نام پر آر پار لوگ حکام کے ساتھ ڈنر بھی کھاتے ہیں،محفلیں بھی آراستہ کرتے ہیں،اعلیٰ اقسام کے سوٹ بھی زیب تن کرتے ہیں۔کوئی اس میں اٹانومی کا تڑکہ تو کوئی ہڑتال کرفیو کی نمک مرچ ملاتا ہے اور اس کے بعد قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں کہ یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے ؎
میں شکار ہوں کسی اور کا مجھے مارتا کوئی اور ہے
مجھے بکری جس نے بنادیا وہ تو بھیڑیا کوئی اور ہے
چلئے صاحب اب کی بار مودی سرکار نے ایک اور ہدف پالیا کہ عالمی سطح پر بھارت ورش خواتین کے تحفظ کے ضمن سب سے نیچے ہے ،یعنی پہلی پوزیشن حاصل کرلی مانا کہ یہ نشانہ نیچے سے اوپر کی طرف ہے۔اس لئے ہمیں اسکول کا زمانہ یاد آیا کہ کبھی کوئی نہ کوئی فیل شدہ بچوں میں فسٹ آتا تھا۔خیر اسکول کی بات بھکت جن کیا سمجھیں وہ تو اس کو بھی بھارتی سیاست کی اُپلبدی سمجھتے ہیں ۔ کوئی انہیں کیا سمجھائے کہ بنک فراڈ میں اول نمبر ، اقلیتوں پر تشدد اول نمبر، فرضی خبروں کے بلیٹن اول نمبر اور اب خواتین کی بے حرمتی اول نمبر سے ملک کی عزت نہیں بڑھتی ۔پر وہ اپنے محبوب لیڈر کے ہی گُن گائیں گے کیونکہ ان کی نظر میں ؎
مودی ان کا شیرا ہے
باقی ہیرا پھیرا ہے
اور مودی مہاراج تقاریر کرنے اور جملے بازی میں سبھوں کو پچھاڑ رہے ہیں ، لتاڑ رہے ہیںاور ہم ہیں کہ چار سال تک انتظار کئے کہ وقت بدلے گا ، اچھے دن آئیں گے، کھاتوں میں لاکھوں جمع ہوں گے، جوانوں کو نوکریاں ملیں گی پر سرد آہ بھر کر بس گنگناتے پھرتے ہیں کیونکہ ہم عام خام جنتا ہیں ؎
چلئے صاحب ہم نے سن لی آپ کی تقریر بھی
اور اخباروں میں پڑھ لی آپ کی تقریر بھی
کچھ زرا سا وقت گزاریں سیر ہندوستان میں
اور نقشے میں ذرا ڈھونڈیں میرا کشمیر بھی
(رابط[email protected]/9419009169 )