ش۔ شکیل
ستر سال سے زائد عمر والے دو آدمی تھے ۔ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنے پالتو کتے کا بلیٹ کھولتے ہوئے کہا ۔’’تم یہاں بیٹھو کرسی پر میں اندر جاکر دو کپ چائے لانے کو کہتا ہوں۔‘‘کہہ کر وہ چلا گیا۔دوسرا آدمی غور سے کتے کو دیکھتا رہا۔جیسے ہی کتا بیلٹ سے آزاد ہوا اپنے ڈربّے میں داخل ہوکر لمبی سے زبان نکال کر ہانپتے ہوئے آرام سے بیٹھ گیا۔پہلا والا آدمی آکر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔’’ایسے کیوں کتے کی طرف دیکھ رہے ہو؟‘‘دوسرا آدمی بولا۔’’ارے موہن کتنے سارے کیلے اور جابجا ڈربے کی پھڑی کی قاسیں اُبھر ی ہوئی ہیں وہ سارے کتے کو چبھتی ہونگی ؟نکال کر درست کرنا تھا‘ بیچارہ کیسے بیٹھتا ہوگا؟‘‘پہلا والا آدمی بولا۔’’کیا بتائوں تجھے راجیش!میں اوزار لے کر درست کرنے لگا تو کتے نے سمجھا میں اُس کا ڈربہ توڑ رہا ہوںاُچھل اچھل کر مجھے روکتا رہا ۔میںرک گیا تو آرام سے بیٹھ کر ہف ہف کرکے آواز نکالنے لگا میں سمجھ گیا یہ مجھے جانے کہہ رہا ۔جب وہاں سے اوزار لے نکلاتو خاموش ہوگیا۔‘‘ راجیش تفکر سے کہنے لگا۔’’شاید ہماری زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ہمیںمختلف معمولات میں رشتے داروں سے، دوست احباب اور ہم کئی لوگوں کے رویوں سے دُکھ پہنچتا ہے پھر بھی ہم تمام تعلقات کو‘ گھر کو برقرار رکھنے کے لئے سب کچھ اس کتے کی طرح برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ یہ سُن کر موہن بھی تفکر سے راجیش کے طرف دیکھتا رہا۔شاید دونوں اپنی اپنی جگہ زندگی میں گذرے تلخ مشاہدے اور تجربات کو یاد کررہے تھے۔
موبائل نمبر؛9529077971