ارمیلا کنور۔ راجستھان
ہمارے ملک میں کاشتکاروں کے لیے جتنا زرعی کام سود مند ہے، اتنا ہی ان کے لیے مویشی پالنا بھی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ملک کے تقریباً تمام کسان کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ مویشی پالن بھی کرتے ہیں۔یہ ان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ مویشی پالنا ملک کی دیہی معیشت کو مضبوط کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میںکئی دیہی علاقوں میں مویشی پالنا کسانوں کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت ہو رہا ہے۔ کبھی بڑھتی مہنگائی اور کبھی مویشیوں میں پھیلنے والی بیماری کسانوں کو مویشی پالن سے دور کر رہی ہے۔ جو نہ صرف کسانوں کے لیے بلکہ دیہی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ریاست کے بیکانیر ضلع میں واقع لنکرنسر بلاک کا گاؤں کرنی سر بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں مویشی پالنا کسانوں کی آمدنی کا اضافی ذریعہ نہیں، نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ بلاک ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 35 کلومیٹر دور اس گاؤں میں 543 خاندان رہتے ہیں۔ تقریباً یہ تمام خاندان کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ مویشی پالن بھی کرتے ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد گائے کی ہے۔
اس حوالے سے 35 سالہ کسان لال چند کا کہنا ہے کہ مویشی پالنا اب پہلے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے زیادہ رقم ان کے چارے پر خرچ ہوتی ہے۔ اس وقت ان کے پاس 6 گائیں ہیں۔ جن کو پالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ان گایوں کے لیے جو دودھ ملتا ہے اس سے زیادہ چارے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ لال چند کا کہنا ہے کہ کٹائی کے وقت مویشیوں کے لیے چارہ دستیاب ہو جاتا ہے جو اگلے چند ماہ کے لیے کافی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد چارہ خریدنا پڑتا ہے جو پہلے سے مہنگا ہو جاتا ہے۔ایک اور کسان رویداس سوامی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 10گائیں ہیں۔ جن کے لیے اب چارے کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہو رہاہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کرنی سر گاؤں میں پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ ہے۔ اور جو پانی دستیاب ہوتا ہےاُس کو پی کر نہ صرف انسان بلکہ مویشی بھی بیمار ہو رہے ہیں۔ گاؤں میں کوئی بھی مالی طور پر اتنا امیر نہیں ہے کہ وہ اکیلے اپنے خاندان کے لیے پینے کے پانی کا ٹینکر منگوا سکے۔ اس لیے گاؤں کے تمام لوگ آ پس میں پیسے جمع کرتے ہیں اور ہر ہفتے پانی کا ٹینکر منگواتے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے مویشیوں کے لئے اچھا پانی کیسے مہیا کر اسکتے ہیں؟ کھارا پانی پینے سے بعض اوقات مویشی مر بھی جاتے ہیں۔ کرنی سر گاؤں یا لنکرنسر بلاک میں جانوروں کا کوئی اسپتال نہیں ہے۔ ایسے میں انہیں 200 کلومیٹر دور بیکانیر ضلع میں چلنے والے سرکاری جانوروں کے اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ جو بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ایک اور دیہاتی اجیت کا کہنا ہے کہ زرعی کام کے علاوہ ان کے پاس تقریباً 40 گائیں تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ سبھی بیمار ہو کر مر گئی۔اب ان کے پاس صرف 8 گائیں رہ گئی ہیں۔ ان کے لیے چارہ اور دیگر انتظامات کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں میں کسانوں کے لیے مویشی پالنا کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ باقی تمام آٹھ گائیں بیچنا چاہتے تھے لیکن گاؤں کے کسی کسان نے انہیں خریدنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔
تاہم، ریاستی حکومت کی طرف سے مویشی پالنا کو فروغ دینے کے لیے کافی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں، ریاست کا کل وقتی بجٹ پیش کرتے ہوئے، راجستھان حکومت نے ’’مکھہ منتری منگلا پشو یوجنا‘‘شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت دودھ دینے والی گائے اور بھینس کے لیے 5 لاکھ روپے کا بیمہ فراہم کیا جائے گا۔ اونٹوں کے لیے ایک لاکھ روپے کا انشورنس ہوگا۔ اس کے ساتھ اس اسکیم کے تحت بھیڑ بکریوں کے بیمہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اونٹوں کے تحفظ اور ترقیاتی مشن پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کا فائدہ ریاست کے تمام چھوٹے اور معمولی کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو ملے گا۔ مویشی کسانوں کی سہولت کے لیے مرحلہ وار ریاست کے تمام اضلاع میں مویشی میلے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے نفاذ کے لیے 250 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ اسکیم کے آغاز میں ریاست کے 21 لاکھ جانوروں کا بیمہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے راجستھان اسمبلی نے محکمہ حیوانات اور ماہی پروری کے لیے 15 ارب 58 کروڑ 15 لاکھ 40 ہزار روپے کی گرانٹ کا مطالبہ بھی منظور کیا ہے جو ریاست میں زراعت کے ساتھ ساتھ مویشی پالن کو فروغ دینے اور جانوروں کے کسانوں کو اس سمت میں لے جانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
28سالہ خاتون مویشی پالنے والی پونم کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بنایا گیا منصوبہ قابل ستائش ہے۔ اس سے دیہی علاقوں میں رہنے والے ہم جیسے مویشی پالنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ لیکن زمین پر اس منصوبے کو کس طرح نافذ کیا جائے گا؟ یہ دیکھنابہت اہم ہوگا۔ کئی بار مویشی پالنے والوں کو حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی ایسی فائدہ مند اسکیموں کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں اور جانور پالنے کا کاروبار چھوڑ دیتے ہیں۔ ان اسکیموں پر نہ صرف پنچایت میٹنگوں میں بحث کی جانی چاہیے بلکہ اس کے لیے کسانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے تاکہ مویشی پالنا ان کے لیے بوجھ نہ بنے (چرخہ فیچرس)