۔27ستمبر کو عالمی سطح پر یوم سیاحت منایا گیا جس دوران سرکاری،غیر سرکاری، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اس سلسلے میں خاص طور پر سمینار،، ویبنار وغیرہ کا انعقاد کیا گیا.ادھر اس حوالے سے سیاحوں کو انوکھا تجربہ فراہم کرنے اور ان کو قدرتی مناظر سے روشناس کرانے پر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے سول سیکٹریٹ میں اعلیٰ اجلاس کے دوران محکمہ سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے نئے دریافت شدہ سیاحتی مقامات کی شناخت پر زور دیااور متعلقہ اداروں کو ہدایت دی کہ مستقبل کے لئے جامع منصوبہ تیار کریں۔ لیفٹیننٹ گورنر کہا کہ جموں کشمیر کو قدرت نے خوبصورت اور دلکش مناظر سے نوازا ہے۔محکمہ سیاحت کے افسران کو چاہئے کہ وہ جموں کشمیر میں مختلف مقامات پر نئی اور غیر دریافت شدہ سیاحتی مقاماتکے منصوبوںپر خصوصی توجہ دیں۔وادی کشمیر کے اضلاع میں سے گاندربل ایک چھوٹا سا مگر خوبصورت ضلع ہے،جوقدرتی وسائل، مناظر اور دلفریب سیاحتی مقامات سے مالا مال ہے۔شہرہ آفاق سیاحتی مقام سونمرگ جو ضلع سرینگر سے 80 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، سونمرگ سے ملحقہ تھا،جواس گلیشر جہاں موجود اونچی اونچی پہاڑیوں پر سال بھر برف کے گلیشر موجود رہتے ہیں۔سونمرگ کے علاوہ مانسبل جھیل، ناران ناگ، گنگہ بل ،گاڑہ سر جیسے قدرتی مناظر سے لبریز سیاحتی مقام موجود ہیں،جن سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں مقامی، غیر مقامی اور بیرون ممالک سے سیاح آتے ہیں۔تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن سیاحتی مقامات کو بھی منظر عام پر لایا جائے جو ابھی تک سیاحت کے نقشہ پر اوجھل ہیں۔گاندربل ضلع میں ایسے متعدد مقامات موجود ہیں جو خوبصورت اور قدرت کے حسین مناظر سے لبریز ہیں۔آج راقم ایسے ہی خوبصورت مقام سے روشناس کرانے کی کوشش کررہا ہے ،جنہیں اگر اسے سیاحت کے نقشے پر لایا جائے تو ہزاروں کی تعداد میں سیاح یہاں کارخ کرسکتے ہیں۔تحصیل لار سے منسلک موہند مرگ ، لال مرگ، وہ مقامات ہیں جو ہرمکھ کی چوٹیوں کے دامن پر واقع ہے،جسے قدرت نے ہرے بھرے گھاس کے میدان، برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں اور جنگلات سے مالا مال کرکے رکھا ہوا ہے۔موہند مرگ پہنچے کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ لار سے ہوتے ہوئے چونٹھ ولی وار کے راستے سے 6 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جبکہ دوسرا راستہ اندرون کے علاقہ بنواس سے ہوتے ہوئے جاتا ہے۔موہند مرگ گھاس کا میدان جو "موہنا مارگ" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔سطح سمندر سے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے،موہند مرگ کی کھوج سر مارک اورل سٹین( Sir Marc Aurel Stein) نے سال 1895 میں کی تھی، جب وہ موسم گرما میں اکثر بیشتر موہند مرگ میں آکر خیمہ زن ہوا کرتے تھے،یہاں پر ہم کچھ تذکرہ سر مارک اورل سٹین کا کرتے ہیں۔سر مارک اورل سٹین ہنگری میں 26 نومبر 1862 میں پیدا ہوئے،جن کو بنیادی طور پر وسطیٰ ایشیا کی تلاش اور آثار قدیمہ کی دریافتوں کے لئے جانا جاتا ہے۔وہ ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ان کو جغرافیہ میں ماہر سمجھا جاتا تھا۔انہوں نے اپنی مہمات اور دریافتوں پر متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔سر مارک اورل سٹین پہلی مرتبہ سال 1895 میں موہند مرگ کے گھاس کے میدان میں آئے تھے، تب انہوں نے ایک ماہ سے زائد عرصہ موہند مرگ، لال مرگ میں گزارا تھا۔جس دوران انہوں نے راج ترنگی کا سنسکرت سے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ساتھ ہی انہوں نے موہند مرگ اور لال مرگ کے ہرے بھرے گھاس کے میدانوں میں بے شمار نایاب اور انمول جڑی بوٹیاں تلاش کی تھی، جس کے لئے وہ چاند راتوں میں اپنے ہمراہ اپنے پالتو کتے کو لیکر کھوج کرتے تھے۔ ان جڑی بوٹیوں کو وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر بیرون ممالک بھیجا کرتے تھے،جن سےمہلک بیماریوں کا علاج ہوا کرتا تھا۔سر مارک ارول سٹین 80 سال کی عمر میں افغانستان کے شہر کابل میں انتقال کرگئے تھے۔موہند مرگ میں سب سے پہلے ان کی یاد میں سال 1947 میں ان کی یاد میں ایک پتھر نصب کیا گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسخ ہوگیا۔اس کے بعد انڈس ڈسکورئز پرائیویٹ لمیٹڈ، کشمیر یونیورسٹی اور محکمہ سیاحت کی مشترکہ کوششوں سے ان کی یاد میں 14 ستمبر 2017 کو دوسری مرتبہ ایک یادگار پتھر ٹھیک اسی جگہ کھڑا کیا گیا ہے ،جہاں پر وہ آکر خیمہ لگایا کرتے تھے۔
موہند مرگ اور لال مرگ جہاں ہر طرف نظر دوڑانے سے ہرے بھرے گھاس کے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔ہرمکھ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع بہت ہی خوبصورت اور دلکش مناظرپیش کرتے ہیں،ایک جانب سے جہاں نالہ سندھ کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہےوہیں دوسری جانب شہر سرینگر کے خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔موہند مرگ لال مرگ سے تھوڑی دوری پر کنہ دلوال اور گڑی کے علاقہ بھی پڑتے ہیں۔جب مئی کے مہینے سے گرمیاں بڑھنی شروع ہوتی ہیں تو اندرون، آرہامہ، بنواس ،ولی وار، چونٹھ ولی وار سمیت گاندربل کے مضافاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والی آبادی اپنا مال مویشیوں کو ساتھ لیکر موہند مرگ اور لال مرگ میں موجود گھاس چرنے چھوڑ دیتے ہیں۔یہ کنبے مئی، جون، جولائی، اگست، اور ستمبر کے پہلے دو ہفتوں تک یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں اور پھر ستمبر کے آخری حصے میں واپس گھروں کی جانب رخ کرتے ہیں۔ان چار مہینوں میں ان کے مویشی ترو تازہ ہوجاتے ہیںکیونکہ موہند مرگ، لال مرگ، کنہ دلوال اور گڑی میں گھاس کے علاوہ پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر ہے۔
کوہ ِپیمائی کے شوقین افراد ہر سال گرمیوں میں موہند مرگ، لال مرگ، کنہ دلوال، کے ساتھ ساتھ ہرمکھ کی اونچی پہاڑیوں کی جانب رخ کرتے رہتے ہیں اور ہفتوں ان قدرتی وسائل سے مالا مال مقامات سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ان خوبصورت مقامات پر ہرے بھرے گھاس کے میدان، پانی کے چشمے، سرسبز درختوں سے لبریز جنگلات کے علاوہ ٹھنڈے پانی کےبہتے ہوئے چھوٹے چھوٹے نالے ہر وقت پانی سے بھرے رہتے ہیں۔سال 2017 میں نیشنل کانفرنس کے سابق ممبر اسمبلی گاندربل اشفاق جبار کی ذاتی کاوشوں سے محکمہ سیاحت موہند مرگ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے وزیر اعظم کے ترقیاتی پروگرام کے تحت تین کروڑ کی لاگت سے رہائش گاہ اور سر مارک اورل سٹین کی یاد میں میوزیم تعمیر کررہے ہیں، جو اب تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔کشمیر میں اورل اسٹین کو دوبارہ دریافت کرنے کے لئے سال 2017 کے ستمبر کے مہینے میں کشمیر یونیورسٹی میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس "اورل اسٹین کشمیر سے وسطی ایشیا تک"کا انعقاد کیا گیا ،جس کی میزبانی مرکز برائے سینٹرل ایشین اسٹڈیز نے انجام دی تھی ۔کانفرنس میں ملک اور بیرون ملک ماہرین نے شرکت کی تھی، جس کے فوراً بعدموہند مرگ میں اردو ، انگریزی اور سنسکرت میں ایک نیا سہ رخی یادگار پتھر لگایا گیا تھا۔جبکہ محکمہ سیاحت موہنڈ مرگ اور لال مرگ کو مہم جوئی کے شوقین سیاحوں کے لئے منصوبہ بندی کے تحت کام کررہا ہے جبکہ ضرورت ہے کہ موہنڈ مرگ اور لال مرگ جانے والے راستوں پر چلنے والے افراد، چاہے پیدل سفر کرنے والے ہو یا گھوڑوں پر جانے والے سیاح کے لئے باضابطہ پگڈنڈی ( TRACK) تعمیر کی جائے تاکہ ان مقامات پر جانے والوں کو کسی قسم کی کوئی مشکلات درپیش نہ آئے۔موہند مرگ، لال مرگ،کنہ دلوال سمیت دیگر علاقوں میں موسم گرم کے چار مہینوں رہائش اختیار کرنے والے افراد کے لئے محکمہ شیپ ہسبنڈری اور ویٹرنیری انیمل ہسبنڈری والوں کی جانب سے ان مقامات پر باضابطہ ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کی جانب سے کیمپ لگایا جاتا ہے تاکہ ان کے مویشیوں کا علاج معالجہ کیا جائے۔یہاں یہ بات بھی تحریر کرتا چلوں کہ راقم رواں سال جولائی کے مہینے میں اپنے بچوں سمیت تین دن تک موہند مرگ لال مرگ سمیت دیگر اس پاس علاقوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوکر آیا ہے،تین روز تک ان مقامات پر قیام کرنے کے دوران وہاں رہائش پذیر افراد کی جانب سے خالص دودھ، دہی، لسی اور مکھن کے ساتھ ساتھ مکئی کی روٹی وافر مقدار میں بغیر کسی معاوضے کی فراہم کی گئی،جس کے لئے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔
������