یاسر بشیر
اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو بہت سے نعمتوں سے نوازا۔ان میں سے ایک نعمت سواری بھی ہے۔ایک وقت تھا، جب انسان کو پیدل سفر کرناپڑتا تھا۔ جس کے باعث اُسے مختلف مسائل سے گذرنا پڑتا ،اوراُس کا کافی وقت سفرطے کرنے میں گذرجاتا۔چنانچہ جب اونٹ ،گھوڑے ،گدھے پر سفر کرنا شروع ہوا،اُسے کسی حد تک راحت ملی ،اور پھر جب رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ نے انسانی شعور کو وسعت بخشی اور ترقی کی جانب گامزن کیا تو انسان نے اپنےسفرکو آسان بنانے کے لئے ہتھیار بنانے شروع کردیئے اور اس طرح مختلف شکلوں میںسفری سہولیات وجود میں آتی گئیں۔جن سے اب نہ وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور نہ ہی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔گویا سفری سہولیات کے لئے جتنی بھی چیزیں جن میں موٹر کار اور موٹر سائیکل بھی شامل ہیں،انسان کے لئے فائدہ مند ہی مانے جاتے ہیں۔ظاہر ہے ہر چیز کو استعمال کرنے کوئی حد ہوتی ہے ،جس کے تحت وہ موثر طریقے پر اپنا کام سر انجام دیتی ہے ،لیکن جب اُس حد کو پار کیا جائے تو وہ فائدے کے بجائے نقصان دیتی پہنچاتی ہے۔ گویا ہر چیز کا غلط اور بے جا استعمال بالآخر خوفناک ہوجاتا ہے اور نتائج تباہ کُن۔آج کل روز انہ ایس خبریں سامنے آتی ہیں فلاں جگہ سڑک حادثہ میںفلاں شخص کی موت ہوئی۔ اعداد و شمارکے مطابق2022ء میں ہندوستان میں 1,55,622 اِنسانی جانیں سڑک حادثات کی نذر ہوئیں ہیں۔ان میں سے 59.7 فیصدی کی وجہ تیز رفتاری(over speeding) تھی ۔محکمہ ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر میں 12 برسوں میں 12,429 لوگوں کی ہلاکت سڑک حادثوں میں ہوئی ہے، جن میںزیادہ تر موٹرسائیکل سوار تھے۔ہمارے اکثر نوجوان موٹرسائیکل اس رفتار سے چلاتے ہیں کہ پیدل چلنے والوں پر دہشت طاری ہوتی ہے۔حال ہی میں ہمیں سرینگر کے اس نوجوان کی موت کو بھی دیکھنا پڑا۔جس کے موٹرسائیکل کی رفتار دیکھ کر انسان لرز جاتا ہے۔میں ذاتی طور اس کو حادثہ سے نہیں بلکہ خودکشی سے تعبیر کروں گا،اور اُس جوان کو موٹرسائیکل سوار نہیں بلکہ جہاز ران کہوں گا۔ ہمارے شہر میں اکثر سڑکوں پر یہی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ موٹر بائیک چلانے والے پائیلٹ بنے ہوئے ہیں۔بے شک جانیں تلف ہوجائیں لیکن وہ ٹس سے مَس نہیں ہوجاتے۔یا یوں کہیں ،وہ اپنی نام نہاد اَنّا ،ضد اور بےوقوفانہ عمل نہیں چھوڑتے۔جوکہ ایک تشویش ناک بات ہے۔جس پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔نوجوانوں کی ایک خاصی تعداداس عمل میں اپنی جانیں کھو بیٹھتے ہیں۔ اس صورتحال سے ہم کیسے نجات پاسکتے ہیں۔ اس بارےمیں چند باتیں کہنا چاہوں گا ۔
۱۔اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے سب سے پہلا رول والدین کا بنتا ہے۔والدین اپنے بچوں کو موٹرسائیکل یا کوئی اور ویکلز دینے سے پہلے ہزار بار اپنے بچے کو سمجھائیں کہ اس کا کس طرح استعمال کرنا لازمی ہے۔پھراُنہیںاپنے لاڈلوں پرنظر رکھنی ہوگی کہ کیا واقعی وہ اُن کے ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
۲۔والدین کو چاہئے کہ 20 سال سے کم عمر کے بچوں کو کوئی بھی ویکلز چلانے کے لئے نہ دیں۔
۳۔اگر کسی موٹر سائیکل سوار کے والدین تک یہ بات پہنچے کہ ان کی اولاد موٹر سائیکل یا کسی بھی ویکلزکا غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں تو والدین کو چاہئے کہ اُن بچوں سے وہ ویکلز چھین لیں ،تاکہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔
۴۔نوجوان کو چاہئے کہ اپنے احساس کو بیدار کرے کہ ہمارے والدین نے ہماری خواہش پوری کرنے کے لئے یہ ویکلز ہمیں سونپ دی ہے،اس لئے ہمیں بھی اپنے والدین کی خواہش کا ہر حال میںلحاظ رکھنا ہوگا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے والدین کو عمر بھر اس بات پر افسوس رہےکہ انہوںنے اپنی اولاد کی یہ خواہش کیوں پوری کی تھی۔
۵۔ ٹریفک انتظامیہ کو چاہئے کہ ان تمام نوجوانوں پر کسی بھی گاڑی چلانے پر روک لگائیں جن کی عمر 20 سال سے کم ہو اور جن کے پاس تصدیق شدہ لائسنز نہ ہو۔
۶۔انتظامیہ کو چاہئے کی سڑکوں پر رفتار کی حد(speed limit) مقرر رکھیں اور ان موٹر سائیکل سواروں پر نظر رکھیں جو تیز رفتاری سے چلتے ہونگے۔ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے اور کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔
رابطہ۔9149897428
<[email protected]>