بغیر چھتری اُترکر کچھ ہی آگے بڑھا تو بارش نے آگھیرا ۔یہ شروع پانچویں دہائی کی بات ہے جب غالباًدس گیارہ سال کا رہا ہوں گا۔پیچھے آرہے شہاب صاحب نے اپنے ساتھ چھتری میں بلالیا اور شفقت بھری باتیں کرتے ہوئے ہم تراویح پڑھنے اجمل پریس (پریس بلڈنگ ، ممبئی)میں داخل ہوئے ۔اخبار’’ اجمل ‘‘کے ایڈیٹر معین الدین حارث صاحب (گذشتہ صوبہ ممبئی کی نامور شخصیت اور کانگریس کے صف اول کے لیڈر،بعدہ سوشلسٹ لیڈر )ہر سال تراویح کا انتظار اپنے پریس میں بڑے شوق سے کیا کرتے تھے۔ان کے دوستوں میں راقم کے والد مولانا ابراہیم عمادی صاحب،مولانا شہاب صاحب ،مسیح الدین خان صاحب (سپلا کمپنی)،فضل اللہ فاروقی صاحب(انجمن اسلام اردوریسرچ سینٹر ،متوطن جونپور)شاہد علی خان صاحب (مکتبہ جامعہ )وغیرہ شریک ہوتے تھے ۔آخری عشرہ میں وسیع پیمانے پر افطار پارٹی منعقد ہوتی،جس میں شہر کے معززین بھی مدعو ہوتے،مجھے بھی اس افطار میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوتا رہا ۔
مولانا مہر محمد خان شہاب صاحب اردو کے ادیب ،مذہبی اسکالر ،محقق اور نامور دانشور کے علاوہ آزادی سے قبل مالیر کوٹلہ کے ابتدائی افسانہ نگار وں میں معروف تھے۔میں نے اپنے شعور میں جب سے دیکھا ،ممبئی کے بساط علم کی اعلیٰ قدر شخصیت مانے جاتے تھے ۔ان کے قلم گہر بار سے نکلے تحقیقی ،ادبی ،اور علمی مضامین اخبارات اور رسائل کی زینت بنے اور عوام و خواص میں پسند کئے گئے۔میانہ قد ،اکہرا بدن ،سفید داڑھی،شگفتہ نورانی چہرہ ،شیروانی اور اسی رنگ کی ٹوپی میں ملبوس ،ایک ہاتھ میں کتابیں اور دوسرے میں چھتری ،شہاب صاحب کو ہمیشہ ایک ہی وضع قطع میں دیکھا ۔علم کے بوجھ نے ان کی باوقار شخصیت کو کچھ الگ سی شناخت دی تھی۔راہ چلتے سلام کرنے میں پہل کرنے کی کوشش کرتے،اور بڑوں کی خیریت اور بچوں سے ان کی تعلیمی مشغولیات دریافت کرنا روز کا معمول تھا ۔چھوٹا بڑا ہر کوئی ان سے بات کرنے میں فخر محسوس کرتا ۔
پنجاب کی مشہور ریاست مالیر کوٹلہ ہمیشہ سے شعر وادب کا مرکز تھا ،یہی مُردم خیز خطہ ٔ علم وادب مولانا شہاب صاحب کا وطن مالوف تھا ۔آزادی سے قبل ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح یہاں کے شعراء کو بھی ریاست کی سرپرستی حاصل تھی ۔نوابین مالیر کوٹلہ شعر و ادب کے شوقین تھے۔یہاں کا ادبی سفر ڈیڑھ صدی کو محیط ہے ۔محققین کے مطابق آزادی سے قبل مالیر کوٹلہ میں افسانہ نویسی کا آغاز ہوا اور ان اولین ادیبوں میں شہاب صاحب کا نام بھی نمایاں تھا،افسوس کہ اب وہ تخلیق کردہ جواہر ریز ے دستیاب نہیں۔عبدالرزاق قریشی مرحوم لکھتے ہیں :مولانا نے جو چند افسانے لکھے وہ حقیقی معنوں میں سچے افسانے یا واقعات ہیں،مثال کے طور پر ان کا ایک افسانہ ’’انسان سے شیطان‘‘ہے،۱۹۳۰ء کی تحریک میں ان کے ایک دوست جو ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر تھے ،گرفتار ہوئے ۔ان پر مقدمہ چلا اور انہیں سزا ہوئی ۔جیل میں ایک غیر سیاسی قیدی سے ان کو خاص طور پر اُنسیت ہوگئی ۔اس نے انہیں اپنی سرگذشت من و عن سنائی،جب وہ رہا ہوکر گھر آئے تو انہوں نے اس قیدی کی سرگذشت مولانا کو سنائی اور انہوں نے سینے سے سفینے میں منتقل کردیا ۔
ابتدائی زندگی کے بارے میں دریافت کرنے پر مرحوم ابراہیم عمادی صاحب نے بتایا کہ جب شدھی تحریک چلی تو علماء حق آگاہ نے میوات کے دور افتادہ مسلم بستیوں میں دعوت اسلامی کی مہم چلائی ،نوجوان شہاب صاحب بھی اس مہم میں شریک ،موسم کی شدت اور راستوں کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے گائوں گائوں جاکر دین کی باتیں کرتے۔غالباً چوتھی دہائی میں ممبئی آئے اور درس وتدریس کے پیشہ کو اختیار کیا۔نیو ایرا ء ہائی سکول میں وہ فارسی کے استاد تھے اور ساتویں دہائی میں ریٹائر ہوئے۔سید سلیمان ندوی ،سید شہاب الدین دسنوی مرحوم حارث صاحب مرحوم اور علم و ادب کے مشاہیر سے ان کے تعلقات تھے۔حضرت مولانا علی میاں ان کی قدر کرتے،اسمٰعیل یوسف کالج کے پروفیسر محمد ابراہیم ڈار صاحب مرحوم ۱۹۰۲ ء تا ۱۹۳۵ ء سے پہلی ملاقات لاہور میں ۲۴ یا ۲۵ ء میں ہوئی تھی۔ڈار صاحب مرحوم اردو ،عربی ،فارسی اور انگریزی کے ماہر اور تاریخ کے فاضل تھے۔اللہ نے حافظ کمال دیا تھا اور جن کی تجر علمی کا ہر کوئی قایل تھا ۔ مولانا شہاب صاحب کا ان سے جلد ہی بہت قریبی تعلق ہوگیا اور کسی تحقیق طلب پیچیدہ علمی مسئلہ پر رجوع کرنے انہی کے پاس جاتے اور ڈار صاحب اپنی حقائق پر مبنی دلیلوں ،کتابوں اور تاریخ کے حوالوں سے مطلوبہ مسئلہ کی گتھی تہہ بہ تہہ سلجھادیتے۔شہاب صاحب کو ڈاکٹر بذل الرحمٰن مرحوم کی حوصلہ مندی ،سید عبداللہ بریلوی مرحوم کی صحافت ،جسٹس فیض طیب جی مرحوم کی وضع داری اور شفیق الرحمٰن قدوائی مرحوم کی صحبت خلوص آفرین نے متاثر کیا تھا اور جن کے بے وقت سانحہ وفات کا تذکرہ جب کہ ملک وملت کو ان کی رہنمائی کی سخت ضرورت تھی،اپنی نگارشات میں بڑے دردوکرب سے کیا ۔
ریٹائر منٹ کے بعد صبح و شام دو ایک گھنٹے کے لئے اجمل پریس میں اپنے بے تکلف رفیق معین الدین حارث صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے،جہاں عمادی صاحب ،خان صاحب کبھی کبھی خلیل شرف الدین صاحب اور دسنوی صاحب وغیرہ بے تکلف دوستوں سے مجلس علم آراستہ ہوتی۔موانا ابراہیم عمادی صاحب سے غالباً چالیس سال کا تعلق تھا ۔اکثر ملنے گھر پر بھی آتے اور حالات حاضرہ پر تبصرہ اور کسی نئی پرانی کتاب پر اس کی علمیت اور تاریخی پس منظر پر دلچسپ بحث ہوا کرتی تھی،اور کبھی کبھی اختلاف رائے بھی ہوتا ۔راقم اپنی کم مائیگی کے باعث اکثر خاموش تماشائی ہوتا ،کبھی ایسا بھی ہوا کہ دونوں کسی خاص موضوع پر عربی میں باتیں کرنے لگتے ۔
راقم کو اس کا اعتراف ہے کہ اس کی فکری نشونما اور کردار سازی میں جن چند بزرگوں کی تربیت و حسن اخلاق کا ممنوں رہا ،ان میں مولانا شہاب صاحب کی ذات بابرکت اور ان کی مثالی خاندان سرفہرست ہے۔وقتاً فوقتاً ملنے کی سعادت حاصل کرنا اپنے لئے باعث فخر فریضہ گردانتا تھا ،وہ بہت خوش ہوتے اور حالات و واقعات معاشرہ کی جانب ہماری ذمہ داری وغیرہ پر تبصرہ اور تلقین کرتے رہتے ۔علاقے میں قائم انجمن باشندگان ِبی آئی ٹی ،بلاکس و چالس کا جوائنٹ سیکریٹری ہونے پر بہت خوش ہوئے اور مختلف فلاحی مسائل پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مفید مشورہ بھی دیتے۔ان کے گھر میں اردو کے علاوہ پنجابی عام بول چال کی زبان تھی ،ان کی اہلیہ نیک ،ملنسار اور دیندار خاتون خانہ تھیں ،بڑے بیٹے حبیب احمد صاحب نیک خو ،خوش مزاج اور ملنسار ممبئی میں ملازمت کرتے تھے اور چھوٹے بیٹے وطن میں رہتے ہیں۔بیٹی منیرہ آپا نیک سیرت ،کم گو ،ایم اے تعلیم یافتہ ،جو اِن وقتوں ایک قابل قدر اعزاز سمجھا جاتا تھا ،اسکول میں پڑھاتی تھی ۔سفید لباس زیب تن کئے وقار اور سادگی سے آتی جاتی تھیں ۔اس مثالی خاندان کو ہر طبقہ میں بڑی عزت و توقیرحاصل تھی۔ان کے اہل خانہ کا پڑوسیوں سے ایسا محبت آمیز اور خوشگوار تعلق تھا کہ یوں لگتا جیسے سب ایک ہی خاندان کے فرد ہوں ۔سال دو سال میں وطن ضرور جاتے ۔مولانا اپنے عزیز و اقارب کا خیال رکھتے تھے اور وطن کے رشتہ داروں کا آنا جانا ہوا کرتا تھا ۔
بامروت و با اخلاق ،لیکن صاف گو تھے اور وقت کی پابندی میں سخت تھے ،سونے ،جاگنے ،اٹھنے بیٹھنے اور پڑھنے لکھنے ،کھانے پینے وغیرہ ہر عمل ان کے طے شدہ روزینہ پروگرام کے تحت پابند وقت تھا۔ان کی کوشش رہتی کہ وقت مقررہ سے پہلے پہنچیں اور کسی کو ان کا انتظار نہ کرنا پڑے ۔ بسوں اور ٹیکسیوں کے ملنے میں درپیش دشواریوں کے امکانی وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے گھر سے پیشگی نکلنے،میٹنگوں اور جلسوں میں وقت سے پہلے پہنچنے والوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ گھر کے لوگ بتاتے تھے کہ مالیر کوٹلہ سے واپسی کے سفر پر گھر والوں کے روکنے ٹوکنے کے باوجود اکثر اتنا جلد نکلتے کہ کبھی کبھی دو تین گھنٹے ویر ان اسٹیشن کی بنچ پر بیٹھ کر ٹرین کے انتظار میں وقت گزارتا ۔
روشن دماغ اور کھلے دل کے عالم باعمل تھے اور وسیع الفکری سے دینی علمی اور شہری مسائل کے ہر پہلو پر ان کی نظر رہتی،روز مرہ کی زندگی میں دوسروں کی پریشانیوں کا خیال اور ان کے تئیں اپنے فرائض کی ادائیگی پر دھیان رہتا ۔ان دنوں مقامی انجمن کا ماہانہ چندہ لینے ملازم تین منزلہ اوپر آتا تو پہلے سے پیسہ تیار رکھتے اور بغیر رقم ادا کئے مایوس نہ لوٹاتے ۔ایک بار بتانے لگے کہ ایک تعلیم یافتہ افسر دینی مسائل ان سے سمجھنے اور دریافت کرنے آئے اور مولانا کی ترغیب پر مسجد میں نماز پرھنے جانے لگے ۔افسر نے آکر بتایا کہ مسجد کے ایک ذمہ دار نے ان کی ٹائی کھینچتے ہوئے کرخت لہجے میں کہا کہ یہ لگاکر مسجد میں نہ آیا کریں،اس واقعہ کا انہیں ملا ل رہا ۔
ڈاکٹر عبدالکریم نائیک صاحب کا شمار ممبئی کے مشہور دانش وروں میں تھے ۔ (جن کے لائق بیٹے ڈاکٹر ذاکر نائیک دعوت اسلامی مہم میں مشہور و معروف ہوئے )ڈاکٹر عبدالکریم نائیک صاحب مولانا کے مداح اور عقیدت مند تھے اور معالج بھی۔گورنمنٹ گرانٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا اور ڈاکٹر مولانا سے مختلف علمی مسائل پر رجوع کرنے آتے ،نیز معاشرہ کی فلاحی اور اصلاحی منصوبوں میں شہاب صاحب کے خیالات حاصل کرنے کافی وقت مولانا کے ساتھ گزارتے ۔عمادی صاحب مرحوم سے ملنے بھی ڈاکٹر صاحب ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے۔مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف بار بار نصیب ہوا ۔ان کی ڈسپنسری ڈونگری پر تھی جہاں میں جایا کرتا تھا ۔ڈسپنسری کیا تھی ،دوائوں سے زیادہ کتابوں سے آراستہ ریسرچ لائبریری تھی،جہاں معالج کے فرائض ادا کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب علمی ،تحقیقی امورمیں زیادہ وقت سرگرداں رہتے،شیشہ کی طرح صاف دل ،روشن دماغ ،باتوں میں کھرے اور عمل میں مخلص ،بلا امتیاز مذہب و فرقہ حاجت مندوں حاجت روائی کے لئے تیار۔ملت کی دینی اور تعلیمی فکر میں سرگرداں ، کوکن کے شہروں اور قصبوں کی فلاحی مہموں میں دل و جان سے شریک اور اس تاریخ ساز خطہ کی صدیوں پرانی عظمت علمی سے اہل کوکن کو آگاہ کرنے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ماہانہ جریدہ’’ نقش کوکن ‘‘اس کی نظیر ہے،جو پچاس برسوں سے شائع ہورہا ہے (ممبئی میں نومبر ۲۰۱۵ء میں عزیزم حفیظ شیخ کے ساتھ تبرکاً ملنے ڈاکٹر عبدالکریم نائیک صاحب کے دولت کدہ پر گیا تو ضعیفی و علالت کے باعث اٹھنے بیٹھنے اور پہچاننے سے معذور ہوچکے تھے لیکن محبت سے ہاتھ ملایا ۔ اکتوبر ۲۰۱۶ ء میں انتقال کیا ،انا للہ و انا الیہ راجعون ۔اللہ مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں مقام بلند عطا کرے۔
مولانا شہاب صاحب زندگی کے آخری پڑائو تک صحت مند اور چاق و چوبند تھے،علمی کاموں میں مصروفیت کے علاوہ روزانہ یاجوجی شہر ممبئی کی ہنگامہ خیز اور مصروف سڑکوں پر میلوں پیدل چلتے لیکن ضعیفی از خود مرض است ،ایسے میں چھوٹی موٹی بیماریاں بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہیں ۔آخری وقت میں انہوں نے گوشت خوری چھوڑ دی تھی،سبزی ترکاری پر گزارہ کرتے ،جس سے غالباً اس کا معدہ متاثر ہوا اور وہ احتیاط کے باوجود بیمار رہنے لگے اور اکثر اسہال کی شکایت ہوجاتی ،جو قابو میں نہ آتی ۔مرحوم ڈاکٹر حامد اللہ ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر نائیک صاحب نہ صرف ان کے معالج تھے بلکہ کچھ ایسا تعلق خاص تھا کہ ان کو دیکھ کر شہاب صاحب کی آدھی بیماری یونہی ختم ہوجاتی اور وہ کھل اٹھتے۔شہاب صاحب کا انتقال ۱۹۷۷ء میں ہوا تو ڈاکٹر نائیک صاحب ان کے سرہانے موجود تھے ۔ممبئی میں انتقال کی خبر سے طبقہ علم میں مدتوں سوگ کا عالم رہا ۔مشہور جریدہ’ جہاں نما ‘نے جنوری ۱۹۷۸ء میں ان پر اپنا ایک خاص نمبر بھی شائع کیا ۔ اب ہمارے درمیان ایسے روشن دماغ علم کے شیدائی نایاب ہیں ۔مولانا شہاب صاحب کے انتقال سے پیران شہر کی بارونق علمی مجلسیں سونی ہوگئیں ۔اللہ مغفرت کرے ۔یہ وہ تھے جنہوں نے قیامت خیز آندھیوں میں انسانیت کے چراغ روشن رکھے اور تمدنی قدروں کی گرتی دیواروں کو تھامے رکھا ۔اللہ باقی ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لئے ساقی