ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
دنیائےعلم و عمل کے بحر بیکراں مولانا جلا الدین رومی رہتی دنیا تک اپنی مثل و مثال میں ایک لا ثانی کردار رہیں گے ۔اپنے والد اور دادا کے ہمنام ،نادگار زمانہ اور یاد گار زمانہ اس درویش عظیم المرتبت کا نسب جبکہ ابو بکر صدیق ؓ سے جا ملتا ہے تو کیوں نہ پھر انکے ضمیر خمیر میں صفاءقلب ،صدق و صفا اور امام انبیاء کے ساتھ رشتہ وفا،عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ اور چشم کشا ہو۔مولانا کے والد بھی صاحب علم و فضل اور مرجع خلائق تھے۔بلخ کی سرزمین میں پیدا ہونے والے مولانا رومی کی ذات میں بچپن سے ہی سعادتمندی کے آثار نمایاں تھے۔علم و عمل سے ہمہ وقت شگون نے مولانا کو اکابر علماء کی صفوں کا امام بنا دیا اور پھر زہے قسمت ،مولانا شمس تبریز کی نگاہ مومنانہ نے مولانا کے سینے میں عشق حقیقی کےآتشی شعلوں کو ہوا دیکر مولانا کی روحانی قوتوں کے لئے سوئے فلک ،رفعت کی راہیں کھول دیں۔
مولانا رومی کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لئے کئی دفتر درکار ہیں تاہم یہاں میں امت کے علم سے بہرہ ور طبقہ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ حق عبودیت کی حدوں تک رسائی چاہتے ہوں،اگر آپ اپنے ذہن اور لوح مغز کی گرہیں کھولنا چاہتے ہوں،اگر آپ علم کی گیرائی و گہرائی اور ذہانت و فطانت اور فہم و فراست کے مرغزاروں کی نگہت اور رونق سے اپنی نگاہوں کو سیر کرنا چاہتے ہوں،اگر آپ مادی جنون کی زنجیروں سے نجات چاہتے ہوں،اگر آپ سیاہ و سپید کی تمیز سے با خبر ہونا چاہتے ہوں،اگر آپ اغوائے نفسانی کی روح فرسا یلغاروں کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتے ہوں،اگر آپ حیوانی جذبات کے تابوت سے باہر نکلنا چاہتے ہوں اور اگر آپ خودی کے راز سے باخبر ہونا چاہتے ہوں تو پھر مولانا روم کی گرانمایہ اور نسخہ کیمیاء بلکہ روحانی امراض کی دوا ’’ مثنوی مولانا روم‘‘ کا مطالعہ لازمی طور اپنی روزمرہ زندگی میں شامل کریں۔
علامہ اقبال کے اشعار کو اس قلمی تصویر کی پیشانی کی زینت بنانے کی غرض اہل علم اور صاحب بصیرت حضرات نگاہ اول میں ہی سمجھ سکتے ہیں مگر عامتہ المسلمین اور دور حاضر کے نیم پختہ طالبان علم کی سوچ کو وسعت دینے کی خاطر یہ بتانا ایک مقدس فریضہ ہےکہ علامہ اقبال کے کلام کو سمجھنے کے لئے عالمی تاریخ کے دوش بدوش شریعت کے طول و عرض اور فرقان مجید کے پیغام پے دسترس کے علاوہ سیاست ،ثقافت بلکہ سائنسی اور معاشی علوم کی مکمل جانکاری بھی نا گزیر ہے مگر شومئی قسمت جس کو جہاں مرضی وہاں علامہ اقبال کے اشعار کو الاپنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے اور یہ صورتحال اہل علم کے لئے ایک شدید صدمے سے کم نہیں۔
آج ہر ڈگر اور ہر نگر میں خلفشار اور انتشار کے شعلے پوری پوری بستیوں میں کہرام مچا رہے ہیں۔جواں سال بچے اور بچیاں منشیات اور حرص و ہوس کی نذر ہو رہے ہیں۔والدین اولاد کے کرتوتوں سے لرزہ بر اندام ہیں اور کبھی پاس پڑوس کی بہن بیٹی کی عصمت پے ہوس کے تیر داغے جاتے تھے اب بے حیائی اور بہیمیت کے درندوں نے رحم میں بڑی مدت تک اذیتیں برداشت کر کے پرورش کرنے والی ماں تک کو بھی ماں سمجھنے کا پیمانہ پاش پاش کرنے میں قباحت محسوس نہیں کی۔سفاکیت کے روز افزوں واقعات کے پس پردہ یہاں بھی اور وہاں بھی غفلت ہورہی اور روحانی غذا کے فقدان نے وجود انسانی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ہر کوئی تسکین خاطر کے لئے سر گرداں نظر آرہا ہے ۔کوئی آب ارغوان میں تو کوئ ذخیرہ اندوزی میں،کوئی عصمت ریزی تو کوئی اقتدار کی ہوس میں اور کوئی لہو و لعب میں اس گوہر نایاب کو تلاش کر رہا ہے مگر یہ گوہر ملیگا اسی کان میں جسے ‘فرقان ‘ کہا جاتا ہے اور جہاں روحانی غذا کی چراگاہوں کے وسیع و عریض میدان ہیں۔ہر انسان کے سینے میں ایک پیمانہ اور وہ پیمانہ بھی نم ہے مگر اس پیمانے کو یقیں محکم اور عمل پیہم کی شب و روز مشقوں سے بھرنا ہوگا تو یہیں سے زرخیزی کی کاشت شروع ہوگی مگر کوئی ہو تو زرکوب ورنہ یہی شرارت اس دل میں بھی تھی جس نے طهٰ کی تلاوت سنکر ہی کروٹ بدلی تو پھر وہی دل فاروق اعظم ہوا ہاں یہ دوسری بات ہے کہ شقاوت کسی کی مقدر ہو اور پھر جہالت کا ابو الحکم اسلام میں ابو جہل کے لقب سے ملقب ہو کہ جسکی بند مٹھی میں سنگریزوں نے کلمہ شہات پڑھا مگر اس نے ان سنگریزوں کو خشم گین ہو کر زمین پے پھینک کر اپنی خدا دشمنی کا ثبوت پیش کیا اور ہمارا رویہ دگرگوں نا ہوا تو ہم کس قطار میں صف بستہ کھڑے ہونگے سمجھنا مشکل نہیں۔اس لئے دعوت دیتا ہوں کہ مولانا رومی کی مثنوی کا مطالعہ کیجئے۔اگرچہ یہ تصنیف بزبان فارسی ہے مگر اب ترجمے کے ساتھ سہل الحصول بنا دی گئی ہے۔اس گلستان کی سیر کرکے اپنی سیرت کو جلا بخشیں اور معاشرے کی اصلاح کیجئے۔معاش کی ضرورت بقدر لا یموت بھی کافی ہے۔
(نیل چدوس تحصل بانہال ضلع رام بن)
رابطہ ۔8493990216.