ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
مولانا حسرت موہانی کی ادبی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ان کی سیاسی زندگی پر بہت ہی کم خامہ فرسائی کی گئ ہے۔ مولانا موہانی علی گڑھ کے سب سے پہلے مسلم گریجویٹ تھے جو قومی جد جہد کی آزادی میں شریک ہوئے۔اُن کا شمار ہندوستان کے چند بیباک صحافیوں میں ہوتا ہے،اُن کی شخصیت proactive انسان کی بہترین مثال تھی۔مولانا کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ جنوری 1876 میں موہان نامی گاؤں ضلع اناؤ میں پیدا ہوئے، موہانؔ گاؤں کی نسبت سے انکو موہانی کہا جاتا ہے۔ حسرت موہانی انکا قلمی نام ہے۔ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جی ایل کالج فتح پور سے انٹرنس امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اور حکومت کی طرف سے انہیں اسکالرشپ بھی فراہم ہوئی، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے علیگڑھ کالج میں داخلہ لیااور 1903 میں وہاں سے بی اے کیا، اس کے بعد شہر علیگڑھ ہی کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا،وہ بے پناہ صلاحیت کے مالک تھے، کہنہ مشق شاعر اور تجربہ کار سیاستداں کے علاوہ صف اول کے ادیب بھی تھےاور بہت ہی غریب نواز اور شریف انسان تھے،ہمیشہ حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہتے تھے۔بسا اوقات فاقے کی بھی نوبت آجاتی تھی لیکن دوسروں کو پتہ چلنے نہیں دیتے تھے۔ گاندھی جی کی طرح ہمیشہ تیسرے کلاس میں سفر کرتے تھےاور انہوں نےپُر مشقت زندگی گزاری۔
مولانا موہانی کی حیات پر دو لوگوں کا گہرا اثر نمایاں ہوا، جن میں مولانا ظہور الاسلام فتح پوری ہیں جن سے مولانا موہانی کو قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ تھا، فتح پور میں قیام کے دوران اُن سے استفادہ بھی کیا۔ اسی طرح مولانا عبد الوہاب فرنگی محلی سے بھی شاگردی اختیار کی اور علمی فکری اور سیاسی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ مولانا نے ان دونوں حضرات کی صحبتوں سے غیر معمولی فائدہ اٹھایا۔ مولانا موہانی کے دل میں اس ملک کی محبت بدرجہ اتم موجو تھی اور یہاں غیروں کی حکمرانی سے وہ بالکل راضی نہیں تھے، لہٰذا بے خوف و خطر وہ انگریزوں کے مقابلے کے لئے میدان میں کود پڑے اور اپنی بات اور اپنا پیغام پہچانے کے لئے یکم جولائی 1903 میں علیگڑھ سے اپنا رسالہ’’اردوئے معلی‘‘ جاری کیا۔اور پہلے ہی شمارے میں ملک کے لئے مکمل آزادی کا مجاہدانہ نعرہ بلند کیا، اسی وجہ سے مولانا کو دبستان علیگڑھ کا پہلا باغی کہا جاتا ہے۔چنانچہ مولانا موہانی کو 1902 میں کالج کا سب سے پہلا باغی گردانتے ہوئے انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔
مولانا موہانی کا مطمح نظر ہمیشہ یہ رہا کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو کیسے آزاد کیا جائے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی مقصد کے خاطر لگا دی۔ اپنی زندگی میں طرح طرح کے مصائب اور اذیتیں برداشت کرتے رہے لیکن کبھی بھی اپنے مشن سے سر مو ہٹے نہیں، بلکہ ہر محاذ پر چَٹان کی طرح جمے رہے۔بقول عبد السلام خورشید بر اعظم میں “Passive Resistance ” کا نعرہ اور تصور سب سے پہلے مولانا حسرت موہانی نے دیا۔ اس کے لئے انہوں نے ’’مزاحمت دفاعی ‘‘کی اصطلاح ایجاد کی، اسی تصور نے بعد میں’’ستیہ گرہ‘‘کا نام پایا۔ یہ مولانا موہانی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے ’’انقلاب زندہ آباد‘‘ کا نعرہ بھی لگایا۔1908 میں انہوں نے اپنے شہرہ آفاق مجلہ میں انگریزوں کے خلاف انتہائی سخت مضمون لکھا، جس کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور 1910 میں جیل سے رہائی کے بعد’’اردوئے معلی ‘‘ کو دوبارہ جاری کیا۔1913 میں حکومت نے پھر اس پرچے کو ضبط کر لیا۔اس طرح سے اردوئے معلی کی مدت اشاعت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور 1903 سے 1908 تک۔دوسرا دور 1910 سے 1913 تک۔ تیسرا دور 1917 سے 1922 تک۔ اور چوتھا دور 1925 سے 1942 تک۔
جہاد حریت سے سرشار ’’اردوئے معلی‘‘ ایک شعلہ بار مجلہ تھا، جس کی تحریروں سے فرنگی حکمران کی نیندیں حرام ہوگئیں۔یہ اپنے آغاز سے قریباً دس سال تک حکومت کے جبر و استبداد کا شکار رہا ،جس سے اس کی اشاعت کئ بار بند بھی ہوئی۔ نا مساعد حالات کے باوجود مولانا حسرت موہانی کسی نہ کسی طرح اسے 1942 تک نکالتے رہے۔( اردو صحافت ،صفحہ100)
’’مولانا حسرت موہانی کا ایک اور ممتاز کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس دور کے عظیم سیاسی مفکروں اور دانشوروں کے خیالات اور کارہائے نمایاں کی اپنے کالموں میں زوردار نمائندگی اور تبلیغ کی۔ ان اہل دانش میں کیسے کیسے اکابر تھے۔ مثلاً بال گنگا دھر تلک،اربندو گھوش ،لالہ لاجپت رائے،بپن چنرپال ،سر فیروز شاہ مہتہ،مسز اینی بسنت۔اس قافلے کی دوسری صف میں مہاتماگاندھی ،پنڈت جواہرلال نہرو ،مولانا آزاد، مولانا حسین احمد مدنی،شبہاش چندر بوش، جے پرکاش نارائن اور دیگر اکابر آئے۔‘‘( ایضاً 102)
’’مولانا حسرت موہانی کی امتیازی شناخت اخبار’’اردوئے معلی‘‘ ہے۔ لیکن ان کی دیگر تصانیف میں شرح دیوان غالب،متروکات سخن، مشاہدات زنداں اور انتخاب سخن کو اہل علم میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے انگریز حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور حریت آزادی کا پرچم پوری شان کے ساتھ بلند کیا۔ ان کی پوری زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔‘‘( اردو صحافت اور علماء از سہیل انجم ،صفحہ103)
مولانا موہانی کا اصل مشن یہ تھا کہ مسلم نوجوانوں کو قومی جدوجہد کی آزادی کے لئے تیار کیا جائے اور ان کے اندر جذبہ آزادی پیدا کی جائے۔مولانا موہانی بال گنگا دھر تلک کو اپنا سیاسی گُرو مانتے تھے، اسی طرح بپن چندر پال اور لالہ لاجپت رائے جو’’ بال،لال،پال ‘‘کے نام سے ہندوستانی تاریخ میں جانے جاتے ہیں۔ مولانا کو ان تینوں سے گہرے مراسم تھے کیونکہ یہ تینوں پرن سوراج کے حامی تھے۔ مولانا حسرت موہانی نے ہی سب سے پہلے مکمل آزادی( Purna Swaraj) کا نعرہ بلند کیا تھا۔انہوں نے اس ملک میں مکمل آزادی حاصل کر نے کے لئے ملک والوں کو قومی جدوجہد کی آزادی کا جذبہ پیدا کر نے کی دعوت دی اور نصیحت کی۔یہاں تک کہ جلد آزادی کے لئے تشدد کے حربے استعمال کرنے کی وکالت بھی کی اور سماجی ناہمواریوں کو مٹانے اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔
1905 کو بنارس میں مولانا موہانی کل ہند صنعاتی کانفرنس میں شریک ہوئے، جہاں انہوں نے ہندوستانی مصنوعات کو فروغ دینے پر زور دیا۔ انکا کہنا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی ترقی ہندوستانی مصنوعات کو فروغ دینے ہی میں مضمر ہے۔1905 میں آل انڈیا کانگریس میں شامل ہوئے اور 1907 میں کسی وجہ سے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے بعد مولانا موہانی سودیشی تحریک کو آگے بڑھا نے میں اہم رول ادا کرتے رہے۔ 1913 میں ہندوستانی مصنوعات کے فروغ کے لئے رسل گنج علی گڑھ میں ( A Mohani Swadeshi Store )کے نام سے ایک دوکان کھولی تاکہ ہندوستانی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروغ ہوں۔اس موقع پر اس واقعہ کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ مولانا موہانی موسم سرما میں مولانا سید سلیمان ندوی سے لکھنؤ ملنے آئے ،رات کا وقت تھا انکو ایک انگریزوں کے ہاتھوں کا بنا ہوا کمبل اوڑھنے کو دیا گیا۔ مولانا موہانی نے اس کمبل کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور ساری رات یوں ہی ٹھنڈ میں گزار دی، صرف یہ سوچ کر کہ یہ انگریزوں کے ہاتھوں کا بنا ہوا کمبل ہے۔ اس واقعہ سے مولانا موہانی کے اندر انگریزوں کے سامان سے نفرت اور ہندوستانی مصنوعات کو فروغ دینے کے جذبہ کا پتہ چلتا ہے۔(Indian Muslims in Freedom Struggle by P.N.Chopra,P,115)
1913 میں احرار تحریک میں شامل ہوئے اور اس تحریک کے فعال رکن بن گئے۔ بعد میں انہیں رئیس الاحرار کہا جانے لگا۔مولانا موہانی نے علیگڑھ میں اپنی معاش کے لئے چمڑے کی تجارت شروع کی لیکن بار بار ان کی گرفتاری کی وجہ سے زیادہ دنوں تک یہ تجارت چل نہ سکی۔ اس کے علاوہ ان کی تمام جائیداد بھی ضبط کر لی گئی تھی۔
مولانا موہانی نے اپنی پوری زندگی ملک کو انگریزوں کے پنجوں اور انکے ناپاک عزائم سے آزاد کرا نے اور ہندو مسلم اتحاد قائم کر نے میں صرف کردی۔اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے بھی تلک کی طرح مذہب کو سیاست میں داخل کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ اور تردد محسوس نہیں کیا۔ موہانی، جہاد حریت اور قومی یکجہتی کو لازم ملزوم سمجھتے تھے۔ یکم اگست 1920 کو بال گنگا دھر تلک کا انتقال ہو گیا،چنانچہ تلک کے بعد مولانا موہانی سبھاش چندر بوش کو ہی قد آور اور عقلمند لیڈر سمجھتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ سبھاش چندر بوش کسی نہ کسی دن آئیں گے اور ہندوستان کے پورے سیاسی ڈھانچے کو بدل کر چھوڑیں گے۔ مولانا موہانی چونکہ تحریک آزادی کے اُس دور کے انتہا پسندوں (Extremists ) گروپ کے حامی اور ہم نوا رہے اور سبھاش چندر بوش بھی اسی جذبہ کے حامل تھے۔الغرض وطن عزیز کی خاطر مولانا حسرت موہانی کی بے لوث خدمات اور عظیم قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔مولانا موہانی 13 مئ 1951 کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور لکھنؤ میں سپرد خاک ہوئے۔
[email protected]>