مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
’’شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات‘‘ مولانا اقبال حیدر ندوی کی تصنیف ہے۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا، کتاب میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا مختصر مقدمہ ہے۔ اس کا پیش لفظ مولانا انیس الرحمٰن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل وسابق چیئرمین حج کمیٹی بہار نے تحریر کیا ہے۔’’ کچھ باتیں اس کتاب کے بارے میں‘‘پروفیسر شہزاد انجم صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تاثرات ہیں۔ ’’تفکرات‘‘ کے عنوان پر ڈاکٹر آفتاب احمد مینری استاذ جامعہ سینئر سکنڈری اسکول جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی تحریر ہے۔’’حرف ادراک‘‘ میں شاہ نواز حیدر شمسی ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے اس کتاب پر اپنے تاثرات تحریر کئے ہیں۔ اس کے بعد عرض مئولف ہے، اس میں مولانا اقبال حیدر ندوی نے مختصر اپنی کچھ باتیں پیش کی ہیں، اس میں انہوں نے تحریر کیا ہے۔
’’پیش نظر مضامین ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۷ء تک ہندوستان کے مختلف اخبارات ورسائل کے زینت بنے۔ اسی اثنا ۲۰۰۷ء کے اوائل میں سعودی عرب کے شہر طائف بغرض امامت چلاگیا، وہاں سے ۲۰۱۴ء میں واپسی ہوئی، اس کے بعد سارے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کی کوشش کی، جس کا ثمرہ آپ کے سامنے اس کتاب کی شکل میں موجود ہے۔‘‘
مقدمہ میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی تحریر کرتے ہیں:’’دینی موضوعات پر لکھنا اور بولنا یہ ایک تذکیری عمل ہے، جس سے دوسرو ں کو نفع پہنچتا ہے۔ قرآنی تعبیر میں اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کا فائدہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو تذکیر ونصیحت فائدہ پہنچاتی ہے۔ قرآن مجید اور حدیث پاک کی تعلیمات واحکام کے ساتھ سیرت اور مشائخ کے مؤثر واقعات سے بھی کام لیا جاتا ہے اور قرآن مجید نے بھی اس طریقۂ نصیحت کو اختیار کیا ہے۔ واقعات اپنا اثر رکھتے ہیں اور اسی جذبۂ دعوت سے مولوی اقبال ندوی صاحب (استھاواں، نالندہ، بہار) نے مختلف مواقع اور مناسبت سے مضامین لکھے جو اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے ،جن میں روزنامہ قومی تنظیم، راشٹریہ سہارا، صحافت، اِن دنوں، افکار ملی، امنگ، بتول، الحسنات جیسے اخبارات ورسائل کے نام قابل ذکر ہیں۔ (ص:۹)
پیش لفظ میں مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کتاب پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:’’ مولانا اقبال حیدر ندوی صاحب مدرس مدرسہ محمدیہ استھاواں، ضلع نالندہ، بہار اور امام وخطیب مسجد سید ٹولہ استھانواں ان لوگوں میں سے ہیں، جن کو اللہ نے قوم وملت کے کام آنے کے کئی طریقے عطا کئے ہیں۔ ایک طرف وہ ایک دینی درسگاہ کے مدرس ہیں اور اس حیثیت سے تعلیم کی ترویج واشاعت کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ امامت وخطابت کے ذریعہ قوم وملت کی اصلاح کا کام کررہےہیں اور اب ان کے اصلاحی، فکری ودینی مضامین کا مجموعہ ’’شاید کہ اُترجائے ترے دل میں مری بات‘‘ کے نام سے سامنے آنے والا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنی تحریری صلاحیت کو بھی قوم وملت کے نفع کے لئے استعمال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو علم وفن دیا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے اور اس کو برتنے کے فن سے واقف ہیں۔ یقیناً یہ چیزیں توفیق الٰہی سے ہی ہوتی ہیں اور یہ اللہ کا فضل ہے کہ اللہ نے ان کی صلاحیتوں کو لوگوں کی نفع رسانی میں لگادیا ہے۔
زیر نظر کتاب ’’شاید کہ اُترجائے ترے دل میں مری بات‘‘ مولانا موصوف کے مختلف مواقع پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔۴۸؍ عنوانات کے تحت لکھے گئے مضامین میں عبادات، معاملات ،اصلاح معاشرہ، تاریخ، سوانح، طب وصحت اور سائنس وٹکنالوجی وغیرہ موضوعات کو محیط ہیں، جن سے ان کے مطالعہ کے تنوع کا پتہ چلتا ہے۔ مضامین کی زبان عام فہم ہے، مجھے امید ہے کہ قاری کو ان سے دلچسپی ہوگی۔‘‘(ص:۱۲)
’’کچھ باتیں اس کتاب کے بارے میں‘‘ اس میں پروفیسر شہزاد انجم صاحب ادبیات، سائنس اور صحت وتندرستی کے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’ مولانا اقبال حیدر ندوی نے ادبیات کے تحت علی سردار جعفری، اویس قرنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالحسن علی ندوی اور ابن خلدون وغیرہ پر مضامین اس کتاب میں شامل کئے ہیں۔ علی سردار جعفری ترقی پسند شاعر اور نقاد تھے۔ ان کے علاوہ بقیہ چار لوگوں کا رشتہ اسلامی فکر وفلسفے سے نہایت گہرا تھا جن سے یقیناً مولانا اقبال حیدر ندوی کا ذہنی رشتہ قائم ہوتا ہے۔مجھے مولانا اقبال حیدر ندوی کے سائنس اور صحت وتندرستی کے موضوعات پر مضامین پڑھ کر حیر ت اور خوشی ہوئی۔ انہوں نے اپنے مضامین میں یہ ثابت کیا ہے کہ یورپ نے سائنس کا علم مسلمانوں سے سیکھا اور مسلمانوں نے دنیا کو سائنسی علوم سے روشناس کرایا۔ مولانا نے بالوں کا گرنا اور کینسر جیسے موضوعات پر بھی مضامین قلمبند کئے ہیں، یہ مضامین اقبال حیدر ندوی کی شخصیت کا آئینہ ہیں ، وہ نہ صرف امام وخطیب ہیں بلکہ اسلام کے سچے داعی بھی ہیں۔ خواتین کے لئے بھی اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا، اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہمیں نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اسلامیات کے مختلف موضوعات ومسائل سے واقفیت بھی ہوتی ہے۔اس کتاب کی نثر سادہ، زبان سلیس اور عام فہم ہے، جسے کوئی بھی شخص آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔‘‘ (ص:۱۶-۱۷)
’’تفکرات‘‘ میں ڈاکٹر آفتاب احمد منیری کتاب کے دینی مضامین پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’ انہیں جواں سال خادمانِ دین کی فہرست میں ایک ابھرتا ہوا نام اقبال حیدر ندوی کا ہے ۔ موصوف کا تعلق صوبہ بہار کے ایک قدیم علمی اور مذہبی خانوادہ سے ہے۔ ان کا تعلیمی مشغلہ اور ان کا منصب یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ خدمت دین کا ذوق وشوق انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ موصوف کی کتاب بعنوان ’’ شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات‘‘ علوم دینیہ سے ان کی والہانہ محبت کا پتہ ملتا ہے۔ اس کتاب کے بیشتر حصہ کا تعلق دین رحمت سے ہے۔ کچھ مضامین جو ذاتی طور پر مجھے پسند ہیں ان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے‘‘ ، ’’قرآن برکات الٰہی کا سرچشمہ ہے‘‘، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت عظیم سپہ سالار‘‘، ’’میدان جہاد کی ایک شام‘‘ وغیرہ ہے۔ آج یہ بات ساری دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ زمین پر اپنی اصلی حالت میں موجود آخری آسمانی صحیفہ ہے جس کی ہر بات قول فیصل، جس کا ہرضابطۂ حیات اور جس کی ہر آیت کائنات کی اٹل سچائیوں کا مرصع ہے جو کتاب میں بنی نوع انسانی کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ آفاق وانفس میں پھیلی ہزاروں نشانیوں پر غور وفکر کرکے کائنات کے اسرار منکشف کرے۔ امید ہے کہ مصنف اقبال حیدر ندوی کی یہ کتاب معجزاتِ قرآنی کو عام کرنے کی کوشش میں ثمر آور ہوگی ۔اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی مصنف کا اسلوب نگارش ہے۔ انہوں نے دین کے بنیادی شعائر سے لے کر اصلاحی مضامین کی پیشکش میں پیچیدہ الفاظ سے گریز کرتے ہوئے عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ مصنف کی اس مستحسن کوشش سے عام قارئین بھی فیضیاب ہوسکیں گے۔‘‘(ص :۲۱-۲۲)
’’حرف ادراک‘‘ میں شاہنواز حیدر شمسی کتاب پر اجمالی تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:’’مجموعی طور پر کتاب ’’شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات‘‘ موضوعات ومضامین کی نوعیت، مواد کی جاذبیت، اسلوب کی دلکشی، زبان وبیان کی برجستگی وبےساختگی، اصول وعزائم کی پاپندی، دوراندیشی ومعاملہ فہمی کی پیوستگی کے باعث بامعنی اور پر معیار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وقت اور حالات کی کروٹوں کو اپنے اندر سمیٹ کر جوازو امکانات کی راہیں منکشف کرکے انسان کے آسماں پر کمندیں ڈالنے کے عزائم سے لیس ہے۔ تعارفی خاکے بھی مصنف کی اہلیت واہمیت اور ذہنی وفکری قدوقامت کا عکس پیش کرتے ہیں اور ان سب سے مصنف وکتاب کی ثابت قدمی ومعیار بندی کا زاویہ سامنے آتا ہے۔
نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے
’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں اڑتالیس مضامین ہیں، یہ مضامین چار ذیلی ابواب میںمنقسم ہیں۔پہلا باب اسلامیات پر مشتمل ہے اس کے تحت اٹھارہ مضامین ہیں، اس میں قرآن مجید ایک زندہ معجزہ، قرآن برکات الٰہی کا سرچشمہ، میلادالنبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، میدان جہاد کی ایک شام جیسے اہم مضامین شامل ہیں۔مصنف ’’قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے‘‘ کے تحت تحریر کرتے ہیں:’’قرآن مجید سے عقیدت کی بنا پر نہیں، بلکہ حقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ یہ آسمانی صحیفہ بلاشبہ اپنی جگہ ایک زندہ معجزہ ہے اور جو خصوصیات اس صحیفہ کو حاصل ہیں وہ آج تک دنیا کی کسی کتاب کو حاصل نہیں۔
یہ دنیا ہزاروں سال سے قائم ہے۔اس دنیا میں اب تک لاکھوں علمی، ادبی اور مذہبی کتابیں تصنیف ہوتی رہی ہیں جن میں سے خاص طور پر توریت اور انجیل قابل ذکر ہیں ، لیکن ان لاکھوں کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب بھی آج تک جوں کی توں محفوظ نہیں، یہ سعادت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے اور یہ قرآن ایک ایسا زندہ معجزہ ہے جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ دوسرا قرآن کا کھلا معجزہ یہ ہے کہ ایک ہزار صفحہ کی یہ آسمانی کتاب کاغذ کے اوراق پر ہی نہیں بلکہ دنیا کے لاکھوں انسانوں کے حافظہ میں بھی حرف بحرف محفوظ ہے ۔ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ آج تک دنیا میں ایسی کوئی کتاب نہیں پائی گئی جو قرآن مجید کے برابر پڑھی جاتی ہو اور یہی قرآن مجید کا کھلا معجزہ ہے۔‘‘ (ص: ۳۵-۳۶)
باب دوم اخلاقیات ومعاشرت پر مشتمل ہے، اس میں ۱۲؍ مضامین ہیں۔ہندوستان میں قومی یکجہتی اور مذہب، ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ، اولاد کی اصلاح وتربیت، معاشرے کی تشکیل اور عورت جیسے اہم مضامین پر مشتمل ہے۔اس کا انداز پسندیدہ اور نرالا ہے۔اولاد کی اصلاح وتربیت کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں:’’ یہ گناہ حقیقت میں آگ ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچائو، اس طرح کہا جارہا ہے کہ جیسے آگ سامنے آرہی ہے، حالانکہ اس وقت کوئی آگ بھڑکتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جتنے گناہ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں حقیقت میں یہ سب آگ ہیں اور یہ دنیا گناہوں سے بھری ہوئی ہے، یہ ان گناہوں کی وجہ سے جہنم بنی ہوئی ہے، لیکن حقیقت میں گناہوں سے مانوس ہوکر ہماری حِس مٹ رہی ہے،اس لئے گناہوںکی ظلمت اور آگ محسوس نہیں ہوتی، ورنہ جن لوگوں کو اللہ پاک صحیح حِس عطا فرماتے ہیں اور ایمان کا نور ان کے دل میں ہوتا ہے ان کو یہ گناہ واقعتاً آگ کی شکل میں نظر آتے ہیں، یہ دنیا گناہوں کی آگ سے بھری ہوئی ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کمرے میں گیس بھر گئی ہو، اب وہ گیس حقیقت میں آگ ہے، صرف دیا سلائی لگانے کی دیر ہے۔ اسی طرح یہ بداعمالیاں اور گناہ جو معاشرے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں حقیقت میں آگ ہیں، صرف ایک صور پھونکنے کی دیر ہے، جب صور پھونکا جائے گا تو یہ معاشرہ آگ سے دہک جائے گا، ہمارے برے اعمال بھی درحقیقت جہنم ہیں، اس سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو بھی بچانا ہے۔‘‘ (ص: ۱۲۳)
باب سوم شخصیات پر مبنی ہے، اس میں چھ مضامین ہیں، ان میں سے حضرت اویس قرنی، ابن خلدون، حضرت مولانا محمد علی جوہر، مولانا سید فصیح احمد بہاری، مولانا ابوالحسن علی ندوی، علی سردار جعفری قابل ذکر ہیں۔ باب چہارم سائنسی علوم پر مشتمل ہے، اس باب میں تیرہ مسلم سائنسدانوں کی خدمات کا اعتراف ہے۔باب پنجم میں تین مضامین ہیں وہ صحت وتندرستی پر مشتمل ہے۔
زبان عام فہم ہے جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ مضامین میں تنوع، اسلوب میں دلکشی ہے، یہ کتاب جہاں مصنف کے وسعت مطالعہ کا پتہ دیتی ہے، وہیں ان کے افکار وخیالات کی بھی ترجمان ہے۔یہ سب ان کی والدہ کی اچھی تربیت اور ان کی دعائوں کا اثر ہے۔ وہ فصیح البنات استھاواں میں ہیڈمسٹریس کے عہدہ پر فائز ہیں۔ وہ تحریر کرتی ہیں:
’’میرے بیٹے اقبال حیدر ندوی کی کتاب ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘ میں ۴۸؍ عنوانات ہیں جو کہ اسلامیات، اخلاقیات، شخصیات، سائنسی علوم اور صحت وتندرستی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی ان کا عظیم سرمایہ ہے اور میرے لئے افتخار کا باعث بھی۔ میں محسوس کررہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری تربیت اور کوشش کی لاج رکھ لی اور رب العزت نے میرے بیٹے کو اس لائق بنایا۔ اس کے لئے مزید دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سے دین ودنیا کی خدمت لے ،اس کے اندر اخلاص واخلاق کی حقیقی کیفیت پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ اسے ریا، نمود ونمائش سے محفوظ رکھے۔ نیز یہ بھی دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مقبولیت عطا فرمائے اور اسے ذریعہ آخرت بنائے ۔ آمین‘‘(ٹائٹیل کا آخری صفحہ)
مولانا اقبال حیدر ندوی بن سید سلیم الدین حیدر کی پیدائش ۲۶؍جنوری ۱۹۷۹ء میں نالندہ ضلع کی معروف مشہور بستی استھاواں میں ہوئی۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عالمیت تک کی تعلیم مکمل کی ، فی الحال مدرسہ محمدیہ استھاواں ،ضلع نالندہ میں استاذ ہیں۔ وہ مسجد السرعیہ الشرقیہ طائف، سعودی عرب میں بھی امام رہے۔ بہار کے مؤقر روزنامے اور دیگر وسائل میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریر کے ساتھ تحریر پر بھی قدرعطا کی ہے۔
مولانا موصوف کی کتاب ’’شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات‘‘ معنوی خوبیوں کے ساتھ ظاہری خوبیوں سے بھی آراستہ ہے،کتاب کا ٹائٹل خوبصورت اور دیدہ زیب ہے، کاغذ اعلیٰ ہے، طباعت عمدہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس کتاب کو نفع بخش بنائے۔؎ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔