سید آصف رضا،ناربل
حضرت علی علیہ السلام کامقام اسلامی تاریخ میں ہر لحاظ سے بلند و بالاہے۔ آپ کرم اللہ وجہہ کی پیدائش کعبۃ اللہ میں ہوئی، جس کی وجہ سے آپؑ مولود کعبہ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ آپ کے والدِ محترم حضرت ابوطالب اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سیدہ فاطمہ بنت اسدؓ ہے۔ حضرت ابو طالبؓ جب تک زندہ رہے ،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے نصرت اور دلجوئی فرماتے رہے اور جس سال ان کی وفات ہوئی توحضور نبی رحمت ؐ نے اُس سال کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب خاتون ہیں جن کو حضور اکرمؐ نے خود اپنے دستہائے مبارکہ سے قبر میں اُتارا اور اُن کے لئے دعا فرماتے رہے۔ حضرت مولاعلی کرم اللہ وجہہ اسلام قبول کرنے والوں میں سابقون الاوّلون سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کو سب سے پہلے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معیت میںنماز ادا کرنےکا شرف حاصل ہوا۔ بلا شک جو فضیلتیں اور مناقب آپؑ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، ان میں آپ علیہ السلام یکتا ہیں۔
یزید ابن رومان روایت کرتے ہیں کہ جتنی تعداد میں آیاتِ قرآنی مولائے کائنات حضرت علیؑ کے حق میں نازل ہوئی ہیں، کسی اورکی شان میں نازل نہیں ہوئیں۔(ابن عساکر، حدیث 940)۔ انہیں آیاتِ کریمہ میں سے ایک آیت’’آیتِ حکمت‘‘ بھی ہ ہے۔ترجمہ: ’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت ودانائی )عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔‘‘( ﴿البقرۃ: ۲۶۹﴾)
اسی موضوع پر ایک لاجواب کتاب کے مطالعہ نصیب ہوا۔ کتاب کے مصنف کا نام ڈاکٹر علی وقار قادری ہے۔منہاج القرآن سے منسلک اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے پروردہ ڈاکٹر علی وقار قادری ایک متحرک شخصیت ہیں، جن کا شمار ماہرین اقبالیات میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اب تک مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ایک طرف آپ تصنیف و تالیف کے شاہسوار ہیں اور دوسری طرف دعوت و تبلیغ کے لئے مختلف پلیٹ فارمز پر دلائل کے انبار لگاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی آپ معروف عالمِ دین علامہ سید جواد نقوی کے پہلو بہ پہلو اتحادِ ملت کادرد لئے اپنی کاوشوں کا اظہار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں اور کبھی بدنام زمانہ صحابہ کرامؓ کے گستاخ حسن اللہ یاری کے ساتھ پُرخلوص داعی کی طرح محوِ گفتگو دکھائی دیتے ہیں۔
بہرحال237 صفحات پر مشتمل کتاب’’مولائے کائنات علیہ السلام آیتِ حکمت کے آئینے میں‘‘ڈاکٹر صاحب کی تازہ تصنیف ہے ۔ کتاب کو دو ابواب اور ذیلی فصول میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب’’حکمت کے معنی‘‘ کے زیر عنوان ہے اور چار فصول میں ذیلی تقسیم کے تحت مسلکی و گروہی تقسیم سے اوپر اُٹھ کر قدیم و دورِ حاضر کے جید علماء کی ’’حکمت‘‘ کے بارے میں تصریحات درج کی گئی ہیں۔ باب دوئم کتاب کے عنوان کے مطابق رکھا گیا ہے جس میں دس فصول قائم کئے ہیں اور یہ بات دلیل اور مستند واقعات کے ساتھ ثابت کی گئی ہے کہ حکمت کے جتنے بھی معنی بیان کئے گئے ہیں سبھی معنوں میں مولائے کائنات ؑ ہی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے: أنا دار الحكمة وعلي بابها(ترمذی، البدیۃ و النہایۃ)ترجمہ۔’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں۔‘‘اور آپ ﷺ نے مولائے کائناتؑ کے ہے یوں دعا فرمائی:
’’ اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَنُوراً ‘‘یعنی اے اللہ! علیؑ کے کےسینے کو علم ، عقل و دانائی ،حکمت اور نور سے بھر دے۔(تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386)
بہرحال زیر نظر کتاب قاری کو موضوع کے اعتبار سے نہ صرف معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ مولائے کائنات ؑ کے ساتھ عشق و محبت میں اضافہ بھی کرتی ہے!
حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ فرماتے ہیں:
پرسید عزیزی کہ علی اہل کجائی
گفتم بولایت علی کز ہمدانم
نے زان ہمدانم کہ ندانند علی را
من زان ہمدانم کہ علی راہمدانم
ترجمہ : ’’میرے ایک عزیز نے مجھ سے پوچھا کہ علی! تم کہاں کے رہنے والے ہو ،میں نے کہا ولایت علی ؑکی قسم میں ہمدان سے ہوں ۔ لیکن میں ان ہمدان یعنی علماء میں سے نہیں ہوں جو علی علیہ السلام کی معرفت نہیں سمجھتے بلکہ میں اس لئےہمدانی عالم ہوں کہ علی علیہ السلام کو ہی سب کچھ سمجھتا ہوں۔‘‘ (چہل اسرار، مرتبہ شاہِ ہمدان ٹرسٹ سرینگر صفحہ 481)
کتاب کے پیش لفظ میں کتاب کے بارے میں فاضل مصنف رقمطراز ہیں:’’یہ کتاب کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی پلاننگ اور ارادہ پہلے سے ہو، بلکہ اپنی کتاب’’اہل بیت النبیؐ فی القرآن‘‘ پر کام کے دوران جب سورۃ بقرۃ کی اس آیت (آیتِ حکمت) پر پہنچا، تو باطن میں عظمت و تکریم اور محبت و مودتِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا جو بیج تھا ،اس نے زور پکڑا اور عظمتِ حضرت علی ؓ پر ایسی لاجواب کتاب بن گئی جو اپنے مضامین کی نوعیت کے لحاظ سے بہت منفرد ہے اور اس کو بعد میں’’مولائے کائنات علیہ السلام آیۃ حکمت کے آئینے میں‘‘ کا نام دیا گیا۔‘‘ (صفحہ: 20)
کتاب کی چھپائی نہات دلکش ہے البتہ پروف ریڈنگ پر زیادہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے دورانِ مطالعہ تھوڑی سی بد مزگی ہوتی ہے۔
اس لاجواب کتاب کو منہاج پبلیکیشنز انڈیا کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے۔
[email protected]