تسلیم اشرف
زمین پر ایک ایسا قدیم ترین دور بھی گذرا ہے جب یہاں پر زندگی کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔ ہر طرف صرف اور صرف ابتدائی آگ سے بنی ہوئی خاموش چٹانی سلسلوں اور آتش فشاں کی گھن گرج کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ زمین کے اس دور یا عمر کو ’’پری کیمبرین‘‘ Pre- Cambrian دور کہتے ہیں، جس کا مطلب ’’زمین زندگی سے مبرا‘‘ لیکن ارتقائے ادوار کے بعد ’’کیمبرین‘‘ دور میں زمین کے گرد موسم (نجات ، درجہ ٔحرارت، ہوا کا دباؤ، رطوبت اور بارش کی روزانہ کی کیفیت) اور زمینی سسٹم یعنی کرہ ٔحجر، کرۂ فضا، کرہ ٔآب اور کرۂ حیات کے لامتناہی ربط اور تعامل میں اضافے کے اثرات نے سیاہ زمین کو زندگی کی نشونما، بود و باش اور پیداواریت کی مناسبت سے موزوں بناتا گیا، کیوں کہ کرۂ ارض کے اس نظام کے باہمی عمل نے زمین کےگرد فضا اور مختلف کروں کے اطراف موجود کمپوزیشن پر اثر انداز ہوکر نہ صرف زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے ماحول اور آب و ہوا کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہا بلکہ تراب جیسی اہم وسیلہ بھی معرضِ وجود میں آتی گئی، جس سےجنگلات ہریالی زمین اور عالمی زراعت کو رفتہ رفتہ فروغ حاصل ہوتا گیا اور اس طرح ماضی کی بے آب و گیاں زمین دورِحاضر کی سرسبز و شاداب زمین میں تبدیل ہوتی گئی۔ اس سسٹم کے مشترکہ عمل کو عالمی طور پر اس وقت اور بھی پذیررائی حاصل ہوئی۔
جب معدنی صنعت کو غیر مرئی آتشی پائپ میں موجود قیمتی پتھر مثلاً: ہیرے کی موجودگی کا علم ہوا، جس سے اس سسٹم کےمطالعہ اور مشاہدوں میں وسعت حاصل ہوئی چنانچہ سترویں صدی کے ماہرین اور ریسرچرز نے موسم اورزمین کے مشترکہ عمل کو فرسودگی یا موسم زدگی کے نام سے متعارف کیا، جس کے نتیجے میں جرمنی کے شہر ’’ فرےبرگ‘‘ میں ارضیات اور خصوصی طور پر معدنیات کی اولین تدریسی عمل کا آغاز ہوا۔
1853-1879کے درمیان اس حقیقت سےآگاہی حاصل ہوئی کہ جب زمینی سسٹم میں موجود موسم کے طبعی۔ کیمیائی ماحول کے اثرات غالب آجاتے ہیں تو تخلیقی طور پر پائیدار چٹانی سالمات کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے تو پائیدار چٹانیں غیر پائیدار ہوکر ملبے اور مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں ۔ مثلاً: جب گاڑی یا کسی رنگ شدہ دھاتی اشیاء کو کافی عرصہ تک کسی علاقہ (خصوصی طور پر نم زدہ علاقوں میں) میں چھوڑدیں تو کچھ عرصہ بعد اس کا اصلی رنگ غائب ہونے لگتا ہے۔
اس پر چھلکے نمودار ہونے لگتے ہیں۔ گویاگاڑی ’’فرسودگی‘‘ کی زد میں آکر غیر پائیدار ہونے لگی۔ ٹھیک اسی طرح قدیم اور اولین دور کی آگ سےتخلیق شدہ آتشی چٹانوں کی قلم پذیری جب ارضی سیال سےبلند تپش اور بعض اوقات بلند دباؤ کے ماتحت ہوتی ہے تو ابتدا میں تخلیق پانے والی چٹانی بہت ہی پائیدار نوعیت کی ہوتی ہے۔ لیکن ان کی اکثریت زمین پر بے نقاب ہونے کے بعد موسمی عوامل کی زد میں آکر غیر پائیدار ہوجاتی ہے ۔ مثلاً :گرینائیٹ ’’زیر زمین تخلیق پانے والی سب سے قدیم ترین چٹان کی حیثیت سے موجود ہے جو بہت ہی پائیدار چٹان تسلیم کی جاتی ہے ‘‘، کیوں کہ اس میں موجود سلیکیٹ معاون سلیکا اور آکسیجن کی بندش بہت ہی مضبوط ہوتی ہے لیکن ایک عرصہ تک ہوا پانی، نمی اور دھوپ میں رہنے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مٹی اور ریت کا انبار بن جاتے ہیں۔ یہ عمل موسم کے عوامل اور زمینی نظام کےدرمیان موجود دباؤ کے فرار(زمینی حرکات کی وجہ سے) اوریخ زدگی(Frost Action) کےعمل کی وجہ سے ہوتا ہے جو طبعی یا میکانکی فرسودگی کہلاتا ہے، جس کی شدت آب و ہوا (درجۂ حرارت اور رطوبت) سے منسلک ہونے کے ساتھ ڈھلوان سے بھی تعلق رکھتا ہے ،کیوںکہ بہت زیادہ ڈھلوان قوت کشش کی وجہ سے گرنے اور ٹوٹنے کا باعث بنتا ہے۔
بہت زیادہ فرسودگی کا عمل پہاڑوں کی چوٹی پر ہوتا ہے جہاں پر بہت زیادہ ڈھلوان، برف باری، دن کی گرمی اور رات کی سردی اور گلیشئر کا بہاؤ بہت ہی برق رفتاری کے ساتھ یخ زدگی (0cسے نیچے)جلا بخشتا ہے، جس کی وجہ سے چٹانیںٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں لیکن کوئی کیمیائی تبدیلی عمل میں نہیں آتی۔ مثلاً ’’گرینائیٹ‘‘ کا ایک بہت بڑا بلاک چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں طبعی فرسودگی کے عمل سے تبدیل ہوجاتا ہے لیکن اس میں موجود لازم معدن مثلاً: کوارٹز ، فلپار اور لوہا بردار معدن میں کوئی کیمیائی تبدیلی نہیں ہوتی۔
دوسری طرف یہی گرینائیٹ جب کیمیائی فرسودگی کی زد میں آتاہے تو اس کے بعض لازم معدن مثلاً :فلپار اپنی کیمیائی کمپوزیشن میں تبدیلی لاکر ایک نئی معدن ’’کلے‘‘ میں بدل جاتا ہے، جس میں سب سے اہم کردار آکسیجن اور تیزاب کا ہوتا ہے۔
آکسیجن جو کرہ ٔارض میں وافر مقدار میں موجود ہوتا اور بہت ہی تیز عامل گیسوں کی فہرست میں شامل ہے ۔ اس وجہ سے یہ کرہ ’’حجر‘‘ (Lithosphere) کے بےنقاب معدنی اجزاء یا اس میں موجود عناصر سے روابط پیدا کرکے کئی قسم کی کیمیائی مرکب کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً: جس طرح لوہے کی ایک کیل جو کرہ ٔہوا، پانی اور حرارت میں ایک طویل عرصہ تک رہنے کی وجہ سے زنگ آلود ہوکر کیمیائی فرسودگی کی ایک عام مثال پیش کرتا ہے۔
اسی طرح بڑے پیمانے پر کرۂ حجر میں موجود لوہا اور فضا میں موجود آکسیجن کے تعامل سےخشک آئرن آکسائیڈ یعنی ’’ہیماٹائیٹ‘‘ (Hematite)کی تخلیق ہوتی ہے جب کہ پانی کے کچھ سالمات اس میں مقید ہوکر آبی آئرن آکسائیڈ یعنی لیمونائیٹ (Limonite)وجود میں آتے ہیں۔ تراب اور مختلف رسوبی چٹانوں میں بھورا، زرد اور سرخ رنگ کی موجودگی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس میں ہیماٹائیٹ یا لیمونائیٹ کی موجودگی لازمی طور پر ہوتا ہے۔
موسم اور زمینی سسٹم سے وابسطہ تیزاب بھی ایک اہم وسیلہ ہوتا ہے جو کرۂ فضاء میں موجود بعض گیس اور کرۂ حجر میں موجود کاربونیٹ اور کرہ ٔحیات میں موجود نامیوں کے درمیان باہمی تعامل سے ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ قدرتی عمل کے ذریعہ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ تیزاب ایک ایسا مرکب ہے جو پانی میں علیحدہ ہوکر ہائیڈروجن آئن خارج کرتا ہے جو باقاعدہ ترتیب سے تخلیق شدہ مرکب کےایٹم میں خلل پیدا کرتا ہے۔
جب تیزاب ملا پانی یعنی ’’کاربونک ایسڈ‘‘ تیز ہوتا ہے تو وہ بڑی مقدار میں ہائیڈروجن اور کمزور ایسڈ پانی میں کم تعداد میں ہائیڈروجن آئن خارج کرتے ہیں، کیوںکہ ہائیڈروجن آئن مثبت الیکٹریکل چارج رکھتا ہے اور جسامت میں ہی چھوٹی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ دوسرے مثبت آئن کو (مثلاً کیلشئم، سوڈیم یا پوٹاشیم)کو متبال کے طور پر تبادلہ کردیتا ہے۔ یہ متبادل معدن کی کیمیائی ترکیب میں تبدیلی لاکر اس کے ایٹمی ساخت کو بھی متاثر کرتا ہے۔
کچھ تیزاب قدرتی طور پر سطح زمین دستیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بہت ہی کمیاب ہوتےہیں۔ مثلاً گندھک کا تیزاب جو اکثر آتش فشانی کے ذریعہ سطح زمین پر اُبلتا رہتا ہے ،جس کی وجہ سے آتشی پائپ کے اطراف موجود درخت اور نامیے ضائع ہوجاتے ہیں۔ امریکا کے نیشنل پارک (یلواسٹون) کے چشموں میں مسلسل اُبال کی وجہ سے مڈپاڈز (Mudpods) کی تشکیل تیزابی سلفر گیسوں کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ جو ’’یلو اسٹون نیشنل پارک‘‘ کے کئی چشموں سے منسلک ہے لیکن سطح زمین پر موسم اور زمینی سسٹم کے حوالے سے سب سے اہم ترین وسیلہ پانی میں حل پذیر کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو حل ہونے کےبعد کمزور کاربونک ایسڈ میں تبدیل ہوکر ہائیڈروجن آئن اور کاربونک آئن فراہم کرتا ہے۔ حالانکہ یہ ایسڈ ایک کمزور تیزاب ہوتا ہے لیکن یہ سطح زمین پر وافر مقدار میں موجود ہونے کی وجہ سے کیمیائی فرسودگی کے حوالے سے ایک اہم کارندہ ہوتا ہے ، کیوںکہ یہ تیزاب میں باریک باریک خلا کے ذریعے جذب ہوکر گیس آمیزہ میں تبدیل ہوجاتا ہے، جو فضا میں موجود ہوا سے خاصیت میں مختلف ہوتی ہے ، کیوںکہ تیزابی گیس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خاصی مقدار ّتقریباً 10 فی صد سے زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے نامیاتی اشیاء کی تحلیل اور ’’کرہ حیات‘‘ میں موجود نامیے (مثلاً چھوٹے رینگنے والے کیڑے) ہوتے ہیں جن کے عملِ تنفس کی وجہ سے فرسودگی کا عمل ہوتا ہے اور نامیاتی کاربن مرکبات اور معادن خارج ہوتے ہیں۔ جو نباتات کی پیدارواریت کے لئے غذائیت فراہم کرتے ہیں۔
اس عمل کے ذریعہ کرۂ حجر میں موجود چٹانیں نم کرہ فضاءمیں زیادہ متاثر ہیں نسبتاً خشک علاقوں کے۔ مثلاً :چونا پتھر نم فضا میں بہت زیادہ حل پذیر ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے عام طور پر ان علاقوں میں وادیوں کی تخلیق ہوتی ہے جب کہ خشک علاقوں میں یہی چونا پتھر کھڑی چٹان اور پہاڑی سلسلوں کی شکل میں نظر آتا ہے موسم اور زمینی نظام کے باہمی روابط سے ایک اور حیرت انگیز دریافت بھی عمل میں آئی ہے۔
جو ہیرا (Diamond) میں نایاب پتھر سے تعلق رکھتا ہے ، کیوںکہ ہیرا کے غیر مرئی آتشی پائپ (کیمبر لائٹ پائپ) جس میں ہیرا بالا اساسی چٹان میں پیوست ہوتا ہے۔ جب یہ پائپ بالائی منٹل سے سطح زمین پر کرہ ٔفضا میں بے نقاب ہوتا ہے تو یہ قدرتی سسٹم کی زد میں آجاتا ہے ، چوںکہ ہیرا مضبوط کاربن کوویلنٹ بندش میں مقید ہوتا ہے اور فرسودگی کی زد میں آکر ہیرا بردار پائپ میں موجود کمزو حصے شکست و ریخت کے عمل سے گذرتے رہتے ہیں لیکن ہیرا کی قلمیں بھرپور مزاحمت رکھنے کی وجہ سے مرکوز حالت میں جگمگاتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں اور یہ حقیقت بھارت اور جنوبی افریقا کے ’’کیمبر لائٹ‘‘ذخائر کی صورت میں آج بھی عالمی توجہ کا محور اور مرکز بنتا ہے۔ جب کہ کنیڈا میں یہ پائپ گلیشئر کے تسرفی عمل سے گذرنے کی وجہ سے اکثر ہیرا کی قلمیں منتشر حالت میں گلیشئر ذخائر کے طور پر دریافت ہوتا رہتا ہے۔
���������������