ظفر محی الدین
بیش تر ماہرین کا کہنا ہے کہ خلاء کے حوالے سے اور سیاروں کے متعلق امریکی تحقیقی ادارہ ناسا کے پاس بہت زیادہ معلومات ہیں جو دیگر خلائی تحقیقی اداروں کے پاس نہیں ہیں۔
ادارہ ناسا امریکہ کا سب سے اہم ادارہ تصور کیا جاتا ہے اس ادارے میں لگ بھگ انیس ہزار افراد کام کرتے ہیں، جن میں سائنس دان، ماہرین انجینئرزاور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، اس ادارے کا سالانہ بجٹ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ناسا کا مرکزی آفس واشنگٹن میں ہے،جبکہ دس مزید مراکز پورے امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ناسا فضا، پانی، زمین پر تحقیق کرتا ہے۔ اس کی سب سے اہم زمےداری فضا اور خلاء پر نظر رکھنا ہے، تاکہ جو شہاب ثاقب آسمان سے زمین کی طرف آتے ہیں ان سے خبردار رہا جائے۔
گزشتہ تیس برسوں میں دو بڑے شہاب ثاقب جو بڑی بڑی چٹانوں کی صورت میں تھے ،زمین کی طرف آرہے تھے۔ سائنس دانوں کو خطرہ تھا کہ اگر یہ زمین سے ٹکرائے تو بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں ان میں سے ایک کو ناسا نے طاقتور راکٹوں کی مدد سے خلاء میں تباہ کر دیا اور دوسرے کا رُخ موڑ دیا۔ ناسا کے حوالے بہت سے قصے مشہور ہیں، تاہم بلاشبہ یہ ایک اہم ترین خلائی تحقیقی ادارہ ہے، اس لئے پراسرار بھی ہے۔
گزشتہ سال ناسا نے جو دیوہیکل خلائی دُوربین جس کا نام ،جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ،ہے اس نے خلائی تحقیق اور سائنسی تحقیق کی دنیا میں تہلکہ مچا دیاہے۔ بتایا جاتا ہے اس ٹیلی اسکوپ نے کائنات میں چھبیس ہزار کہکشائوں کا پتہ چلایا ہے جبکہ ہر کہکشاں میں کھربوں اسٹارز ہیں، اس کے علاوہ اس نے ایک بلیک ہول کے علاوہ دوسرے بلیک ہول کا بھی پتہ چلایا ہے۔ اس طرح بیش تر خلائی نظریات غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ٹیلی اسکوپ بہت اہم تصاویر بھی ارسال کر رہی ہے، جس میں کچھ ایسی اشیاء بھی شامل ہیں جس کے بارے میں سائنس دان لاعلم تھے۔ دوسرے لفظوں میں فلکیات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آرہا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ خلائی سائنسدان اور ماہرین کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں اور سیاہ مریخ پر زندگی بسانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اس معاملہ میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرہ ارض کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہرچند کہ زمین کو بچانے کی بھی کوششیں پوری تندہی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مریخ پر انسانی قدم جمانے کی بھی کاوشیں جاری ہیں۔
درحقیقت پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں روسی سائنسدانوں نے خلاء میں قد م رکھنے اور چاند کو تسخیر کرنے کی جدوجہد شروع کی۔1957ء میں پہلا خلاباز یوری گگارین کو روس نے خلاء میں بھیجا۔ بعدازاں پہلی خلاء باز خاتون ویلنٹینا بھی روس نے خلاء میں بھیجی۔ اس کے علاوہ روس کی خلائی تحقیقی اور ٹیکنالوجی امریکہ سے ایک قدم آگے رہی۔ امریکہ نے روس کی ضد میں اپنا بھی خلائی مشن، اپالو ون خلاء میں بھیجا، اس طرح روس امریکہ کے مابین خلائی تحقیق کی دوڑ شروع ہوگی۔ 1969ء میں امریکہ نے اپنا خلاء باز چاند پر اُتاردیا اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ گیا،جبکہ روس کا دعویٰ ہے کہ چاند سے پہلے خلا باز آرم اسٹرونگ جو پتھر لائے وہ روس نے پہلے ہی اپنے سیارے کے ذریعے حاصل کر لئے تھے جبکہ اپالو مشن پر امریکہ نے روس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خرچہ کیا۔
روسی ٹیکنالوجی کے حوالے سے روس کو آج بھی امریکہ پر اس کی سبقت حاصل ہے کہ روسی خلاء باز خلاء سے واپسی کے بعد ماسکو کے ریڈاسکوائر میں اُترتے ہیں جبکہ امریکی خلاء باز سمندر میں گرتے ہیں جہاں امریکی نیوی کے جہاز انہیں سمندر سے زمین پر لاتے ہیں۔ خلائی تحقیق پر جو خرچ آتا ہے اسی حوالے سے بیش تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ اصراف بے جا ہے۔ اتنا پیسہ انسانی فلاح و بہبود پر خر چ کیا جائے تو دنیا کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ غربت، پسماندگی میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے،انسانیت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
بیش تر دانشور، ماہرین یہ تک کہتے رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں ایک لڑاکا طیارہ اور ایک بلیسٹک میزائل پر جو خرچ کرتے ہیں اس سے دو ہزار اسکول ا ور ایک ہزار مکمل اسپتال تعمیر کئے جا سکتے ہیں، جبکہ لڑاکا طیارہ یا دورمار میزائل تباہی بربادی کے سوا کیا دے گا۔
مگر امریکہ جیسی بڑی طاقت جہاں تعلیمی اوسط 98 فیصد ہے دنیا کی عظیم درس گاہوں میں جہاں جدید تحقیقی ادارے،علمی سائنسی کتابیں اور تحقیقی مقالات سے بھری بے شمار لائبریریاں موجود ہیں اور دنیا کے سب سے زائد نوبل انعام یافتہ شخصیات جہاں آباد ہیں ،وہاں صرف جدید مہلک ہتھیاروں کی تجارت اور تیاری پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے، اس طرح اس دوڑ میں اب روس، چین، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہو چکے ہیں، ایسے میں انسانی کرتوتوں اور قدرتی آفات، ہر دو جانب سے کرہ ارض کو خطرات لاحق ہیں۔
اس طرح کرہ ارض پر انسانیت کا مستقبل مخدوش ہوتا محسوس کیا جا رہاہے۔سائنس دانوں اور ماہرین کا ایک بڑا طبقہ خلائوں پر نظریں جما رہا ہے کہ مستقبل میں اگر زمین پر حالات اور قدرتی ماحول بے قابو ہو جائے تو کسی اور سیارے کی طرف پرواز کرجائیں، تاحال ایسا ہی کچھ محسوس کیا جا رہاہے، مگر سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد اس تمام صورتحال سے مطمئن نہیں ہے،ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ انسان اگر خلاء میں کہیں دور کوئی ایسا سیارہ دریافت کرلیتا ہے تو بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ وہاں پہنچ جائے گا،کیونکہ خلاء میں یا سیاروں کے درمیان فاصلے اتنے زیادہ طویل ہیں کہ انسان کو ہزاروں سال لگ سکتے ہیں ،جبکہ انسانی عمر کی حد بھی اس فاصلے کے مقابلے میں لمحاتی ہے۔
مریخ کا فاصلہ راکٹ کی رفتار کے مطابق آٹھ ماہ کا ہے جبکہ دیگر سیاروں کے فاصلے نوری برسوں میں ہیں۔ ایسے میں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ انسان اپنی زیادہ سے زیادہ عمر میں بھی صرف سوچ سکتا ہے ،کیونکہ نوری سال کا ایک سیکنڈ دو لاکھ چھیاسی ہزار میل کے مساوی لائٹ کی طرح سفر کرے گا۔ روشنی کی رفتار سے بھی سفر کیا جائے تو بڑی مدت درکار ہوگی۔ سیاروں کے فاصلے نوری برسوں میں ناپے جاتے ہیں ۔ ایسے میں انسانی عمر تو محض پلک جھپکنے جیسی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی مہم جاری رکھنا انسانی کی ضرورت ہے بعض سیاروں پر نہایت قیمتی معدنیات بکھری پڑی ہیں۔ بعض پر سونے کے پہاڑ ہیں، قیمتی پتھر ہیں جو انسانی ترقی میں بے حد مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں،وہاں سے انسان نئی نئی دریافت کر سکتا ہےاورایسے بھی فوائد حاصل کر سکتا ہے جو اس نے شاید سوچے بھی نہیں ہوں گے۔ اس لئے خلائی تحقیق کے مشن کو جاری رکھنا ضروری ہے ہر چند کہ اس پرخرچ بہت آتا ہے مگر مستقبل میں انسانیت کوبہت سے فوائد حاصل اور نئے نئے انکشافات ہو سکتے ہیں ۔عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں آلودگی کم کرنے اور قدرتی ماحول میں سدھار لانے میں بھی کامیابی مل جائے۔
اس کے باوجود ان ماہرین کا بھی خیال درست ہے کہ تاحال انسان اتنی ترقی کے بعد بھی زمین کے بہت سے راز نہیں پا سکا ہے۔ یہ راز پانے سے قبل کرئہ ارض کو پوری طرح دریافت کرلے اور قدرتی ماحول میں بگاڑ کی وجہ سے جو ا ٓفات نازل ہو رہی ہیں ان پر قابو پالے۔
جاری حالات میں بعض وبائی امراض ابھر رہے ہیں اور انسانیت کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں،ان پر قابو پالے، چند سرطان ایسے ہیں جن پر میڈیکل سائنس تاحال قابو نہیں پا سکی۔ انسان کو ان معاملات پر پہلے دھیان دینا چاہئے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر وبائی یا مہلک امراض براعظم افریقہ سے دنیا میں پھیلے ہیں ،ان کا تدارک کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کرہ ارض پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکن نے اپنی آخری وصیت میں کہاتھا کہ ،انسان یہ نہ بھولے کہ وہ زمین کی پیداوار ہے، زمین پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ خلائی مخلوق کی تلاش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،وہ اگر دریافت ہو گی توانسان کو ختم کردے گی۔
����������������
موسمی تغیرات کا ذمہ دار صرف انسان (۲)