ظفر محی الدین
دنیا میں صنعتی انقلاب کے برپا ہونے تک انسان اس کرہ ارض پر اپنے مسائل کے ساتھ جیسے تیسے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ انسا ن میں یہ خوبی ہے کہ جیسے حالات ہوتے ہیں، اچھے یا برے، وہ ان میں رہ کر گزر بسر کر ہی لیتا تھا، مگر صنعتی انقلاب کے بعد دنیا بھر میں قدرتی ماحول پر اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے، آلودگی میں اضافہ ہونے لگا جس کے منفی اثرات سے بالائی طبقے یا تو نابلد تھے یا جان بوجھ کر انہیں نظرانداز کرتے رہے تھے۔ عوام الناس اس تمام صورتحال سے تو یکسربے خبر تھی،پھر اس پر ستم یہ کہ یورپی طاقتیں آپس میں برسرپیکار رہیں۔
دنیا دو عالمی جنگوں سے گزری، جبکہ ستر فیصد سے زائد آبادی یورپی قوتوں کی کالونیوں میں بٹی ہوئی تھی۔ لگ بھگ بیسویں صدی کے نصف کے بعد سے قدرتی آفات میں اضافہ شروع ہوا۔ دنیا میں کہیں کہیں آلودگی کے پھیلائو پر بحث سنائی دی مگر زیادہ تر عوام بے حس رہے، قدرتی آفات کو وہ قدرتی نظام کاحصہ تصورکرتے رہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں یکایک ہل چل مچ گئی کہ دنیا میں آلودگی میں اضافہ سے قدرتی ماحول میں نمایاں منفی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ تب پہلی بار برازیل کے شہر،ریوڑی جینرو میں دنیا کی پہلی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس سے دنیا کو موسمی تبدیلیوں اورقدرتی ماحول میں بگاڑ سے شدید خطرات لاحق ہونے کا علم ہوا۔
بعدازاں عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی اس جانب توجہ مبذول کی اور ماحولیات کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آنے لگیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل تک بتایا جاتارہا کہ ،دنیا میں 3.6 فارن ہائٹ تک حدت میں اضافہ ہو چکا ہے جو گلوبل وارمنگ کا سبب ہے۔ اس کے بعد بیش تر سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ، اگر آلودگی میں اضافہ اسی طرح جاری رہا جس کے خدشات موجود ہیں تو دنیا بھر میں 5.4 تا 7.2فارن ہائٹ تک اضافہ ہو سکتا ہے ،ایسے میں شدید گرمی کی وجہ سے دنیا جہنم بن کر رہ جائے گی ،جہاں زمینی حیاتیات زبردست خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔
اس طرح زمین پر زندگی گزارنا مشکل ترین بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ سال 2020ء کے بعد سے دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں موسمی تغیرات کی وجہ سے جو تباہیاں برپا ہوئیں ان میں شمالی ہماشائرشدید گرمی سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ پاکستان میں مون سون بارشوں نے تباہی مچادی۔ بھارت میں شمالی علاقوں شدید موسلادھار بارشوں سے شدید جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ بیش تر ممالک میں پاور ہائوس حدت کی شدت سے بند ہوگئے۔ پرتگال، اسپین، برطانیہ، قبرص میں شدید گرمی اور بارشوں نے کئی دن تک زندگی درہم برہم کردی۔
کینیڈا ، شمالی امریکی ریاستوں، وسطی امریکی علاقوں میکسیکو، ایلسلوا ڈور، کیربین جزائر کیوبا وغیرہ میں شدید سمندری طوفانوں نے بڑی تباہی برپا کردی،سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ،اربوں مالیت کی املاک تباہ ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں بحراوقیانوس شمالی میں اٹھنے والے طوفان میں بہت سے بحری جہازوں کو خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ برفانی طوفان نے بڑی تباہی مچائی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوب کی طرف سے آنے والی گرم ہوائوں نے شمالی خطے میں طوفان برپا کیا۔
شمالی قطبین میں تقریباً برف گلیشیرز سے پگھل کر سمندر میں پانی بن چکی، جس سے بتدریج سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کے مختلف ملکوں میں معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ذرائع آمد ورفت متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام الناس کے روزمرہ معمولات پر اثر پڑ رہا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے زندگی دشوار ہوتی جا رہی ہے۔
موسم سرما میں امریکہ یورپ کے بڑے علاقوں میں برفانی طوفانوں کی وجہ ہیٹنگ سسٹم بھی جام ہو رہا ہے۔ لوگ شدید سردی میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں، جبکہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی طرف سے قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی پابندی کی وجہ سے بند ہے ایسے میں یورپی ممالک شدید مسائل اور مصائب کا شکار ہیں، مگر انسان وہ بے چین اور کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتا آیا ہے اس سے اب وہ آلودگی سے بچنے اور قدرتی ماحول کو بہتر بنانے کی لگن رکھتا ہے جس کے لئے شمسی توانائی، پانی کے بہائو، استعمال شدہ اشیاء کو دوبارہ قابل استعمال بنانے، ری سائیکلنگ کرنے ، بائیو گیس تیارکرنے اور استعمال کرنے کی طرف مائل ہوگیا ہے۔ اس طرح کی مزید کچھ پیش رفت عمل میں آرہی ہیں، جس سے آلودگی کم سے کم درجے تک آنے کی قوی امید ہے۔
یہ سب کچھ عین ممکن ہے۔ اس حوالے سے امید کی جاسکتی ہے مستقبل قریب میں سدھار آجائے گا، تاہم دنیا کے ارب پتی افراد خلائی سائنس دانوں کے اشتراک سے مریخ پرآئندہ کے لئے کالونیاں بسانے کی مہم جوئی میں بھی مصروف ہیں اور مریخ کے بارے میں بہت کچھ معلومات رکھتے ہیں تاہم وہاں امریکہ نے خلائی اسٹیشن تعمیر کر لئے ہیں اور ایک طرح سے مریخ زمین کے باسیوں کی ایک کالونی بننے جا رہا ہے۔
فی الفور یہ گریٹ گیم یا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور اب تک کچھ کامیابیاں حائل ہو رہی ہیں، مگر معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکن کی وصیت ہے کہ ،انسان خلاء کی طرف دیکھنا چھوڑدے اگر خلائی مخلوق مل بھی گئی تو وہ انسان کو ختم کردے گی مزید یہ کہ انسان صرف زمین کی پیداوار ہے اور زمین پر ہی زندہ رہ سکتا ہے اگر اس نے کہیں اور جاکر آباد ہونے کی کوشش کی تو وہ تباہ ہو جائے گا۔ اسٹیفن ہاکن کی اس پیش گوئی کی بہت سے سائنس دانوں اور ماہرین نے درست قرار دیا ہے۔
تاہم زمین پر قدرتی ماحول میں بگاڑ موسمی تغیرات کا صرف اور صرف انسان ہے اس کی خود غرضی لالچ اور ہوس نے اس حسین کرہ ارض کو زمینی جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ اس حوالے سے گزرے ستر برسوں میں اقوام متحدہ اور دنیا کے پانچ سو سے زائد چوٹی کے سائنس دانوں نے دو درجن سے زائد دنیا کے سربراہوں کی کانفرنسیں منعقد کی ہیں، مگر اس کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔ اس حوالے سےکہا جاتا ہے کہ، خلاء میں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ہے،جہاں انسان قدم جما سکے۔
اگر کوئی ایسا سیارہ ہے بھی تو وہ کم از کم اربوں کھربوں سال دورہوگا۔ درحقیقت خلاء میں فاصلے اس قدر ہیں کہ ہماری زمین میں نہیں سما سکتے، انسان کو جو کرنا ہے وہ زمین پر کرنا ہوگا۔ اگر انسان واقعی سدھار لانا چاہئے تو اپنا طرز زندگی تبدیل کرے۔ قدرتی ایندھن اورآلودگی پید اکرنے والی اشیاء مصنوعات اورذرائع ترک کردے، مگر انسان سادہ زندگی کی لوٹنے کے لئے راضی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ کرہ ارض پر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور موسمی تغیرات نے انسان کو اب خلاء کی طرف دیکھنے پر زیادہ مائل کر دیا ہے، کیونکہ ماہرین کی رائے کے مطابق زمین زیادہ خطرات سے گھرتی جا رہی ہے۔ قدرتی ماحول اور موسمی حالات میں بگاڑ زیادہ پیدا ہو رہا ہے۔ انسانی کاوشیں آلودگی کم کرنے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آرہی ہیں اور نہ انسانی آسائشات اور ضروریات میں کمی کے آثار ہیں۔ دنیا نے جو کچھ حاصل کر لیا اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ہماری زمین سسکیاں لے رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے امیر ترین افراد نے امریکی سائنس دانوں اور ماہرین کے اشتراک سے نجی خلائی کمپنیاں قائم کرلی ہیں۔ مثلاً ایلن مسک اور دوسرے ارب پتی خلاء میں سفر کرنے کا سامان کر رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال ایک سو مسافروں کو لے کرخلاء میں چکر لگا کر آئیں گے۔ یہ کمپنی ایلن مسک نے قائم کی ہے جو فی الوقت دنیا کے امیر ترین شخصیات میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
اس کے علاوہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا چاند کے علاوہ اب مریخ پرزیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ناسا نے مریخ پر خلائی اسٹیشن بھی قائم کر لیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی دور میں ماضی بعید میں مریخ پر پانی تھا ہرچند کہ مریخ پر زمین جیسا قدرتی ماحول نہیں ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ مریخ پرانسانی رہائش کے لئے جو تجربات کئے جا رہے ہیں ان سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مریخ پرانسان کورہائش کیلئے ایک حد تک سازگار ماحول میسر آسکتا ہے،جو دیگر سیاروں پر میسر نہیں ہے۔ اس حوالے سے روس اور چین بھی چاند اور مریخ مشن پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔(جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمی تغیرات کا ذمہ دار صرف انسان | لالچ اور حوس نے کرۂ ارض کو جہنم بنادیا